کیا ہم معذور عورتوں کی نسلیں پیدا کر رہے ہیں؟


آصفہ نے چھٹی کلاس کے بعد سے ہی ناشتے کے بغیر سکول جانا شروع کر دیا تھا۔ کبھی کبھی جب امی زیادہ اصرار کرتیں تو چائے کا ایک کپ پی لیتی۔ جب بریک میں بھوک لگتی تو ایک پیکٹ لیز کا کھا لیتی۔ سکول میں چند ایک لڑکیاں کھیلتی بھی تھیں مگر ہزار میں سے یہ تیس چالیس ہی ہوں گی جو کھیلتی تھیں باقی سب کونوں کھدروں میں خوش گپیاں لگا کر یا گول گپے کھا کر یا آخری پیریڈز کے سبق یاد کرنے میں بریک گزار دیا کرتی تھیں۔ سکول کی عمر گزر گئی کالج میں داخلہ لیا تو ذرا آزادی میسر آ گئی مگر روٹین وہی رہی۔

چالیس کلو وزن کے ساتھ مناسب جسم، کھلتی رنگت، تیکھے نقوش اور اٹھتی جوانی کے تخیل میں صبح کے وقت تیار ہوتے ہوئے ڈریسنگ کے سامنے آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے وہ خوش ہو جایا کرتی تھی۔ اٹھارہ برس کی عمر میں روزانہ ایک روٹی، چائے کے تین کپ، لیز کے کچھ پیکٹ، چند بسکٹ اور چاکلیٹ اس کی غذا تھے۔ کھیل نہیں آتا تھا کیوں کہ فیملی میں اچھی لڑکی کی تعریف یہ تھی کہ وہ نظر جھکا کے رہتی ہے اور پاؤں سہم کے رکھتی ہے۔ بس لڈو کھیل لیتی تھی اور موبائل فون کے استعمال کی آزادی تھی، اور کتابیں تھیں۔ مگر کتابیں اور موبائل فون دیکھ دیکھ کر بھی اب کندھوں کی تکلیف رہتی تھی۔ موٹی لڑکیوں کو دیکھ کر وہ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرتی مگر کبھی کبھی نقاہت اور بی پی لو ہونے کی شکایت کرنے لگی تھی۔

یونیورسٹی کی زندگی بھی ایسے ہی گزر گئی بس روٹی ایک کی بجائے نصف ہو گئی۔ ایم اے کے فوراً بعد ہی ایک مناسب رشتہ مل گیا اور آصفہ پیا دیس سدھار گئی۔ شادی کے چھ ماہ بعد وزن میں پچاس فیصد اضافے سے تو وہ پریشان تھی ہی مگر ڈاکٹر نے یہ بھی کہہ دیا کہ بے بی سیزیرین ہو گا کیوں کہ آصفہ کے جسم میں سرے سے کوئی توانائی نہیں تھی۔ شوہر بہت سے پھل اور غذائیں لے آتا مگر آصفہ کو بد ہضمی کی شکایت بھی رہنے لگی تھی۔ سردرد کالج لائف سے شروع ہوا تھا مگر اب درد کے بیچ کے وقفے کم ہو گئے تھے۔

پہلے بچے کی پیدائش کے بعد آصفہ 26 سال کی عمر میں پچھتر کلو گرام وزن کے ساتھ کہیں بھی پیدل جانے سے قاصر ہے۔ رکشے پہ سوار ہونے کے لیے جسم کو اٹھانا بھی بہت مشکل لگتا ہے۔ ڈاکٹرز کے اصرار پہ واک شروع کرنے کے منصوبے بناتی ہے مگر ابھی تک عمل کرنے سے قاصر ہے کیوں کہ گھٹنوں کے درد شروع ہو جاتے ہیں۔ بس انہی دردوں کے ساتھ زندگی چل رہی ہے۔ ( ان کے شوہر شادی کے دو سال بعد ہی سمارٹ گرلز میں دلچسپی لے رہے ہیں مگر یہ بات میں نے آصفہ کو نہیں بتائی)

یہ کہانی تو آصفہ کی ہے مگر بازار میں، سڑکوں پر، موٹر سائیکلوں کے پیچھے بیٹھے، رکشوں پہ سوار اور راہ پہ چلتی عام مڈل کلاس کی خواتین کی یہی کہانی ہے۔

پرانے وقتوں میں شہر چھوٹے ہوتے تھے اور گاؤں کی خواتین کام کاج میں کافی زیادہ حصہ لیتی تھیں۔ رفتہ رفتہ مڈل کلاس نے شہروں میں چھوٹے گھر بنا لیے اور گھروں میں کام والیاں رکھ لیں۔ اس سب میں کوئی حرج نہیں مگر سماج نے اپنی روایات بالکل نہیں بدلیں۔

آج بھی عام بچیوں کی کھیل کود کے لیے نہ تو جگہ اور میدان دستیاب ہیں اور نہ ان کو ترغیب دینے کا کوئی میکانزم موجود ہے۔ بلکہ ہر سطح پر خود خواتین خواہ وہ مائیں ہوں یا اساتذہ عموماً لڑکیوں کی بھاگ دوڑ کی حوصلہ شکنی ہی کرتی ہیں۔ کوٹھیوں میں قائم پرائیویٹ سکولوں میں تو چلنے تک کی جگہ نہیں ہوتی کہاں کے کھیل اور کہاں کی بھاگ دوڑ۔ جب کہ گھر سے باہر لڑکوں کی طرز پہ کھیل یا ورزش کے انتظامات کا اگلی پون صدی تو بالکل نہ سوچیں۔

اچھی لڑکی آج بھی چھوئی موئی کی طرح ہوتی ہے۔ نازک کلی، جو تیز چلے تو بکھرنے کا خدشہ ہوتا ہے قدم اٹھائے تو مذہب اور ثقافت کو خطرہ ہوتا ہے۔

ان حالات میں اگر کوئی میڈیکل ایشو ہو تو ڈاکٹر کے پاس لے جانا بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا کہ اگر لڑکی کے بیمار ہونے کا چرچا ہو گیا تو کل کو رشتہ کیسے ہو گا۔

اس سب کے نتیجے میں ہم جسمانی طور پہ معذور خواتین پیدا کر رہے ہیں۔ وہ گھر کے کام تو کرتی ہیں مگر رو پیٹ کر، دردوں کا ماتم کر کے اور خود کے ساتھ جدوجہد کر کے۔

یہ خواتین سائیکل، موٹر سائیکل چلانے سے معذور ہیں کیوں کہ وقت پہ ہم نے انہیں سکھایا نہیں۔ یہ رکشوں پہ چڑھنے اور اترنے سے عاری ہیں کیوں تھوڑی سی جگہ پہ بازو کا زور لگا کر چڑھنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ جن خوش قسمتوں کو کاریں میسر پیں وہ مزید تن آسان ہو چکی ہیں۔ جو کمال جدوجہد کر کے واک پہ جاتی ہیں وہ ایسے خراماں خراماں چلتی ہیں جیسے تیز پاؤں اٹھایا تو گوشت کم نہ ہو جائے۔

بیمار جسم، بڑھے وزن اور محدود زندگی انہیں نفسیاتی دباؤ کا شکار کرتی ہے۔ ہارمونز کا عدم توازن رہتی کسر نکال کر کالج والی چٹکتی کلی جیسی لڑکی کو جھگڑالو عورت میں بدل دیتا ہے۔

یوں اتنی شدید محنت سے ہم جسمانی اور ذہنی طور پہ متاثر خواتین پیدا کر رہے ہیں۔ پھر ہم روتے ہیں کہ ایک تو عورتیں کم فہم ہیں دوسرا جلدی اوور ایج ہو جاتی ہیں۔ جب کہ مرد زیادہ وقت جوان رہتے ہیں لہذا انہیں دوسری اور پھر تیسری عورت کی ضرورت رہتی ہے۔

آج کل کے زمانے میں لڑکوں اور مردوں کی صحت بھی کوئی مثالی نہیں ہے مگر خواتین کی صورت حال تو تشویش ناک ہو چکی ہے۔ نصف آ بادی کو جوانی میں ہی صحت کے سنجیدہ مسائل درپیش ہیں۔

ان سب مسائل کا حل کوئی زیادہ پیچیدہ نہیں۔ آپ بیمار نسل کو تو ٹھیک نہیں کر سکتے مگر اگلی نسلوں کو بچا سکتے ہیں۔ صحتمند غذا، کھیل اور کھلی زندگی۔ تندرست بچپن اور نکھری جوانی کے ضامن ہیں۔ توانا جوانی اور صحتمند لائف سٹائل بڑھاپے کو دور کر دیتا ہے یا کم ازکم اس کا دورانیہ ضرور کم کر دیتا ہے۔
(یہ ایک عمومی تحریر ہے۔ مخصوص مسائل کے لیے یقیناً متعلقہ ڈاکٹرز سے رجوع کرنا چاہیے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments