واقعہ کربلا


واقعہ کربلا 10 محرم 61 ہ (بمطابق 682 ء) کو ہوا۔ اس اندوہناک حادثہ میں نواسہ رسول ﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ 58 سال کی عمر میں اپنے رفقاء اور اعزہ کے ہمراہ ایک ایسی جمعیت کے ہاتھوں شہید ہو گئے جو سب مسلمان تھے اور اس وقت کے مسلمان حکمران یزید کے حکم بردار۔

پس منظر :

وہ شورش جس کا انجام یہ واقعہ شہادت ہوا اس کی ابتداء تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کے چھٹے سال میں ہوئی تھی۔

اسلام جو ایک کمزور مذہبی تحریک کی شکل میں مکہ سے ظاہر ہوا تھا چند سالوں بعد ہی فتح مکہ کے نتیجہ میں ایک نمایاں سیاسی طاقت کی شکل اختیار کر گیا۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے ادوار خلافت میں اس نے آس پاس کی تمام بڑی حکومتوں کا خاتمہ کر دیا۔

اسلام کے اس غلبہ کے لازمی نتیجہ کے طور پر مخالفانہ منصوبہ بندی کا ایک بازار گرم ہو گیا۔ نئے نئے مسلمان ہونے والے اپنی مناسب تربیت کا سامان نہ ہونے کے سبب بڑی آسانی سے ان مخالف طاقتوں کا آلہ کار بن گئے۔ اسلام کی طاقت کا راز نظام خلافت تھا۔ یہ حقیقت دشمن سے اوجھل نہ تھی۔ اس لئے سازشوں کا نشانہ نمایاں طور پر بظاہر خلیفہ وقت کا وجود لیکن درپردہ خلافت کا ادارہ تھا۔

مقام خلافت پر پہلا حملہ: خلیفہ وقت کی ذات کو ایک عام سطح پر رکھ کر اعتراض کا نشانہ بنانے کا ایک واقعہ تو حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ہی ہوا جب آپ کے لباس پر برملا نکتہ چینی کی گئی اور سننے والوں نے کوئی رد عمل نہ دکھایا۔ اور یہ واقعہ محض ایک انفرادی گستاخی سے زائد کچھ نہ بن سکا۔ لیکن بعد میں حالت امن، خوشحالی اور غیر تربیت یافتہ مسلمان بھیڑ نے اس راہ پر مزید لوگوں کا چلنا آسان کر دیا۔

حضرت عثمان ؓ سے مطالبہ عزل: دشمنوں کا آلہ کار بن کر کچھ مفاد پرستوں نے تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی ؓ پر اعتراضات کی بھر مار کر دی اور اس بات کو یہاں تک بڑھایا کہ ان سے معزولی کا مطالبہ کر دیا۔ یہ جڑ کاٹ دینے والی بات تھی۔ اسلام کی زندگی نظام خلافت میں تھی اس لئے خلیفہ وقت نے بجا طور پر پورے استقلال سے اس مطالبہ کو رد کر دیا۔ حالات مزید بگڑ کر حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت پر منتج ہوئے۔

حضرت علی ؓ کی مخالفت:حضرت عثمان ؓ کے بعد بار خلافت حضرت علی ؓ کے کندھوں آن پڑا۔ نظام کو ایک دھکا تو لگ ہی چکا تھا۔ دشمنوں نے اس کو بالکل ختم کر نے کی ٹھان لی۔ وہ جو حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے اصل ذمہ دار تھے۔ بھیس بدل کر ان کی شہادت کا بدلہ لینے کے دعویدار بن گئے۔ ان سب سازشوں کا مرکزی کردار ایک یہودی منافق عبد اللہ ابن سبا تھا۔ سازشیوں نے اس حادثہ میں بزرگ صحابہ کرام ؓ کو ملوث کرنا شروع کر دیا حتیٰ کہ خود حضرت علی ؓ کا نام بھی ذمہ داروں میں گننے لگے۔

یہ سب الزام تراشی محض جھوٹ تھی۔ کوئی صحابی رسول اس سازش میں شریک نہ تھا اور ہو بھی نہ سکتا تھا۔ وہ جنہوں نے دامن رسول ﷺ میں تربیت پائی ہو ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب صحابہ نے بے مثال فدائیت کا مظاہرہ کیا۔ حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اس کی روشن مثال ہیں اور حضرت علی ؓ تو بہت ہی تربیت یافتہ تھے۔ آپ نے تو حضرت عثمان ؓ کی حفاظت کی خاطر اپنے بیٹوں حضرات حسن ؓ اور حسین ؓ تک کو مامور کر رکھا تھا۔

حضرت علی ؓ پر اس بات کے لئے دباؤ ڈالا جانے لگا کہ وہ حضرت عثمانؓ کا قصاص لیں اور ان تمام بزرگ صحابہ کو سزا وار ٹھہرائیں جن کو یہ منافق ملزم کر رہے تھے۔ اس ناجائز مطالبہ کا ماننا حضرت علی ؓکے لئے ممکن نہ تھا۔ اور نتیجہ میں افتراق کی لکیر بڑھ کر شگاف ہو گئی۔

وہ جو حضرت علی ؓ کے ساتھ تھے انہوں نے اپنے لئے ایک الگ نام اختیار کر لیا اور یوں اسلام میں سیاست کی خاطر فرقہ بازی کی بنیاد پڑی۔ مسلمان باہم دست و گریبان ہو گئے۔ جنگ جمل اور جنگ صفین ایسی جنگیں تھیں جن میں دونوں طرف مسلمان تھے۔ پھر خوارج ظاہر ہوئے جو علی الاعلان خلافت کے خاتمہ کے داعی تھے اور انجام کار ایک خارجی کے ہاتھوں ہی خلیفہ راشد حضرت علی ؓ شہید ہو گئے۔

حضرت حسن ؓ کی خلافت سے دست برداری:حضرت علی ؓ کے بعد حضرت حسن ؓ خلیفہ ہوئے۔ انہوں نے اختلاف اور افتراق کے اس ماحول کو امن سے بدل دینے کی شدید خواہش کے تحت یہ انتہائی قدم بھی اٹھالیا کہ خلافت کے انعام سے دستبردار ہو گئے۔ یہ انکار نعمت خلافت راشدہ دور اول کے خاتمہ کا اعلان ٹھہرا۔

خلافت سے بادشاہت:حضرت امام حسن ؓ کے دست برداری کے اس فیصلہ کے نتیجہ میں امیر معاویہ جو پہلے ہی شام اور مصر کے گورنر تھے پوری مسلم حکومت کے سربراہ بن گئے۔ حکومت کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے انہوں نے اپنے بعد اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ نامزد کر دیا۔ یہ طریق انتخاب نیا نہ تھا اس سے قبل بھی حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے حضرت عمر فاروق ؓ کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔ لیکن جو بات نئی ہوئی وہ یہ تھی کہ یزید اس منصب کا اہل نہ تھا اور نیکی اور راست بازی کے لحاظ سے انتہائی پست درجہ پر تھا۔ اس با اختیار منصب پر ایک نا اہل عزیز کا تقرر اپنے دامن میں ان تمام خرابیوں کو لے کر آیا جو بادشاہت کا لازمہ ہیں۔

حضرت امام حسین ؓ نے بجا طور پر اس نظام کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور یزید کی بیعت نہ کی۔ اور یوں اس تنازعہ کی ابتداء ہوئی جس کا انجام آپ کی شہادت ہوا۔ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کے طرز عمل کا یہ فرق بعض کے نزدیک محل اعتراض ہے تاہم یہ مختلف تناظر میں مجموعی بھلائی کے لئے نیک نیتی سے کیے گئے فیصلے تھے۔

حالات جنگ:مدینہ سے حضرت امام حسین ؓ کے کوفہ کے لئے عازم سفر ہونے کی وجوہات، حالات سفر اور کربلا میں پیش آنے والے واقعات ایسے موضوع ہیں جن پر یوں تو تفاصیل کے انبار جمع ہیں اور ذکر کرنے والے سارا سال انہیں بیان کرتے نہیں تھکتے لیکن ان میں اصل واقعات کتنے ہیں اور اضافے کس قدر، اس کا انتخاب بڑا دقت طلب ہے۔ یہ ایزادیاں دونوں طرف سے کی گئیں۔ حضرت امام حسین ؓ سے زائد تعلق جتانے والوں نے ان کی مظلومیت کو دو چند کرنے کے لئے اور مخالفین نے اس جھگڑے کو سیاسی رنگ دینے کے لئے۔ یہی رنگ آمیزیاں تھیں جنہوں نے ان دو انتہاؤں کو جنم دیا کہ ایک طرف تو واقعہ کربلا اسلام کا مقصد اور نجات کا ذریعہ ٹھہرا دوسری طرف حضرت حسین ؓ کو باغی اور یزید کو ہر قسم کی تعظیمی کلمات کا مستحق بھی لکھا گیا۔

معرکہ حق و باطل:

ان دو انتہاؤں کے درمیان اصل حقیقت اتنی ہی ہے کہ یہ حق و باطل کی ایک جنگ تھی۔ جس میں حق حضرت امام حسین ؓ کے ساتھ تھا کیونکہ وہ ساری علامات ان میں پائی جاتی تھیں جو حق کی علامات ہیں جیسے :

اقلیت ہونا:حضرت امام حسین ؓ کے ساتھ محض چند ساتھی تھے اور آپ کا سامنا حکومتی لشکر سے تھا۔ حق ہمیشہ اقلیت میں ہوتا ہے اور اکثریت اس کی مخالف۔ قرآن کریم میں اکثریت کا یہ کردار بار ہا دہرایا گیا ہے۔

فتوی کفر و وجوب القتل:ہمیشہ کی طرح اس معرکہ میں بھی وقت کے مفتی دنیا کے خاطر اپنے فتاویٰ کے ساتھ حق کے خلاف اور ظالم حکومت کے مدد گار

تھے۔ جیسا کہ جواہر الکلام از آقائی حاجی مرزا حسن (صفحہ 88 مطبوعہ 1323ھ مطبع علمی تبریز ایران) میں لکھا ہے کہ

’ابن زیاد نے چند تھیلیاں زر کی قاضی شریح کے لئے بھیج دیں۔ صبح وہ ابن زیاد کے پاس آیا تو قاضی شریح نے کہا کہ کل رات میں نے قتل حسین پر بہت غور کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ان کا قتل کر دینا واجب ہے چونکہ انہوں نے خلیفہ وقت پر خروج کیا ہے، لہٰذا بر بنائے دفع مفسدہ و خارجی یہ لازم ہے۔ ‘ پھر قلم اٹھایا اور فرزند رسول ﷺ کے قتل کا فیصلہ لکھا۔

طاقتور دشمن اور عافیت کوش عوام:حکومت سیاست کار مفتیوں کی حمایت کے ساتھ حضرت امام حسینؓ کی مخالف تھی اور اس طاقتور دشمن سے خائف وہ عام مسلمان جو خواہ دل میں حضرت حسین ؓکے حامی ہوں، عملاً کچھ کرنے کے روادار نہ تھے۔ یہ بھی حق پر ہونے والی جماعتوں میں عام ہے۔ خواہ رومی حکومت اور یہودی فریسیوں کا گٹھ جوڑ ہو یا سرداران قریش اور خانہ کعبہ کے متولیوں کا اکٹھ۔ سچ کو ہمیشہ اپنی کمزور حالت کے ساتھ ان بڑے دشمنوں اور طاقت کے سامنے سر نگوں عوام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بے خوفی اور بے جگری کے ساتھ مال و جان کی قربانی :ان مخالف حالات میں نتیجہ مال و جان کی قربانی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ سولی پر لٹکائے گئے اور اولین مسلمانوں کو کفار مکہ کے مظالم سہ کر تکالیف اٹھانی اور جانیں دینی پڑیں۔ حضرت امام حسین ؓ

کے وقت بھی ایسا ہی پیش آیا اور بجز ایک کے سب ہمراہی مردوں کو راہ حق میں قربان ہونا پڑا۔

انجام کار کامیابی :اور اس سب کا نتیجہ بھی ہمیشہ کی طرح نکلا، ریاست کی طاقت، فریسیوں اور مفتیوں کی دین فروشی، جمہور کا منافقانہ طور پر چپ سادھ رہنا سب رائیگاں گیا۔ اپنے وقت کے یہ سب زندہ اور طاقت ور ہمیشہ کے لئے موت کے اندھیروں میں ڈوب گئے اور وہ جو خاک و خون میں لتھیڑے گئے، ہمیشہ کی زندگی پا گئے۔ آج کوئی نہیں جو اپنے آپ کو ان ظالموں سے منسوب کرتا ہو جبکہ حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کے زندہ ہونے پر زمانہ گواہ ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے :

؎ قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

عدم شناخت: دنیا دارا للہ والوں کو اپنی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور شناخت نہیں کر پاتے۔ جیسا کہ ایک عارف نے لکھا ہے :

یہی وجہ حسین ؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانے میں محبت کی تا حسین ؓ سے محبت کی جاتی ’۔

حضرت امام حسین ؓ کی یاد:

وقتی اور آسان راہوں کی جگہ حضرت حسین ؓ کی یاد منانے کا بہترین طریق ان کے اسوہ کی پیروی ہے۔ حق اور سچائی کی خاطر مشکلات و مصائب کو پوری استقامت اور استقلال سے برداشت کرنا اور اس کی خاطر جان سمیت ہر شے کو قربان کرنے کے لئے آمادہ اور تیار رہنا واقعہ کربلا کا بنیادی سبق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments