عظمیٰ بخاری اور پنجابی لہجہ


مجھے نون لیگ کی عظمیٰ بخاری بہت پسند ہیں جس پارٹی میں رہیں ایک پرجوش سیاسی کارکن کے طور پر انہوں نے اپنے وجود کو منایا ہے۔ اپنی سابقہ اور حالیہ قیادت کے بارے بڑھ چڑھ کر تعریفیں کرنے میں پرانے کارکنوں کو مات دینے میں ہمیشہ آگے رہی ہیں۔

مجھے اس وقت ان سے مایوسی ہوتی ہے جب وہ پنجابی لہجے میں اردو بولنے والوں کا مذاق اڑاتی ہیں۔ نہ جانے وہ کیوں مقامی لہجے میں گفتگو کو پسند نہیں کرتی ہیں۔ ٹیلی ٹاک شوز میں ان کا جب بھی تحریک انصاف کے عثمان ڈار سے واسطہ پڑا تو غصے میں آ کر وہ ڈار کے پنجابی لہجے کا مذاق اڑاتی ہیں۔ حالانکہ میں عظمیٰ صاحبہ کے دلائل اور ان کے سیاسی موقف کا حامی ہوں اس کے باوجود کسی کے مقامی لہجے کا مذاق اڑانے کا سخت مخالف ہوں۔

عثمان ڈار کا شاید یہ تکیہ کلام ہے کہ ”حونصلہ“ رکھیں یعنی وہ ٹھیٹ پنجابی لہجے میں حوصلے کو حونصلہ کہتے ہیں۔ اگر ڈار سے کہا جائے کہ وہ حوصلہ لکھیں تو وہ حوصلہ ہی لکھیں گے مگر گفتگو میں وہ حونصلہ ہی کہیں گے۔ عظمیٰ بی بی کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ ہر فرد اپنی مادری زبان کے لہجے میں ہی گفتگو کرے گا۔ وہ چونکہ خود بھی نون لیگ سے تعلق رکھتی ہیں لہذا انہیں علم ہے کہ ان کی اپنی جماعت پنجاب کی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ اگر ہم محترمہ کی اردو کی تصحیح کی کوشش کرنے کا رویہ اپنانا شروع کریں تو پھر ہم لوگوں کی مادری زبان کو ان سے چھیننے اور اس کی تضحیک کرنے کے ملزم ہوں گے۔ ویسے بھی ہمیں لہجے یا زبانوں کا مذاق اڑانے کا اختیار نہیں ہے۔ البتہ گرامر کی درستی کے لئے کہا جاسکتا ہے۔ اگر میں سندھی یا پشتو زبان میں گفتگو کروں تو گرامر کی بہت ساری غلطیاں کروں گا مگر پشتو یا سندھی بولنے والے میرے لہجے پر معترض نہیں ہوں بلکہ بہت خوش ہوں گے کہ میں ان کی زبان میں بات کر رہا ہوں۔ قوموں کے اپنے لہجے ہوتے ہیں اگر وہ چھین لئے گے تو پھر قوموں کی شناخت ختم ہوجاتی ہے۔

اوپر کی جانے والی گفتگو سے ہٹ کر یہ بتانا چاہتا ہوں بلکہ آپ کے مشاہدے میں بھی یہ بات آئی ہوگی کہ مختلف زبانوں یا یوں کہیے کہ علاقائی زبانوں کے گلوکار جن میں مرد و عورتیں بھی شامل ہیں جب بھی اردو نغمے یا غزلیں گاتے ہیں یا گاتی ہیں تو وہ بہت مقبول ہو جاتے ہیں کیونکہ ان نغموں پر علاقائی لہجہ غالب ہو کر اردو زبان میں نیا نکھار پیدا کرتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ جب عطا اللہ عیسٰی خیلوی اردو غزلیں گاتے ہیں تو وہ غزلیں انتہائی مقبول ہو جاتی ہیں اس طرح نورجہاں نے اردو غزلوں و نغموں کو اپنے انداز و لہجے میں گا کر ایک نیا ہی رنگ دیا ہے اسی طرح عابدہ پروین، محمد یوسف یا استاد غلام علی کو لے لیں سرائیکی، بلوچی و پشتون گلوکاروں نے جب بھی اردو نغمے و غزلیں گائے ہیں وہ انتہائی مقبول ہوئے ہیں کیونکہ اپنے لہجے میں جب وہ اردو گیت گاتے ہیں تو ایسے لگتا ہے وہ اپنے پورے منظر یعنی گائیکی کے انداز، اپنے علاقوں کے رہن سہن کے پس منظر، اپنے قدرتی رنگوں کو پیش کر رہے ہوتے ہیں۔

ویسے عظمیٰ بی بی کو بتا دوں کہ اردو کی نظمیں اور غزلیں نوے فیصد ان لوگوں نے گائی ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے اور ان ہی لوگوں نے اردو کی آبیاری کر کے اسے تناور درخت بنا دیا ہے۔ ویسے یہ اردو بولنے والوں یا ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کا ایک خاص انداز ہے کہ وہ مقامی زبانوں اور خاص کر ان کے لہجوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہاں میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ بعض اوقات تضحیک کی سطح تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال بنگالیوں کے ساتھ ہماری نفرتوں کے مختلف انداز رہے ہیں جو پاکستان کے قیام کے ساتھ ابھرنا شروع ہو گئے تھے۔

میرا خیال ہے کہ کیونکہ تحریک پاکستان کے دوران ہمارے نعرے، تقریریں اور گیت ہندوستان اور ہندو سے نفرت کی بنیاد پر تھے اس لیے نفرت اردو بولنے والوں کی غالب اکثریت میں سرایت کر گئی ہے۔ قائد اعظم سے لے کر مولانا ظفر علی خان تک بلکہ نیچے تک ہر کوئی کہتا تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں مطلب یہ کہ مسلمان اعلیٰ اور ہندو کمتر ہے، بلکہ قابل نفرت ہے۔ جب پاکستان بن گیا تو پھر ہندو تو ہمارے مدمقابل نہیں رہے تھے جو بچ گئے تھے ہم نے ان کو مار مار کر بھگایا مگر ہمارے اندر سرایت کروانے والی نفرتیں ہمیشہ سے ہمیں بے چین کرتی رہیں ہیں۔ ہم نے جلد ہی اپنی نفرت کا نیا ہدف بنگالیوں کی صورت میں تلاش کر لیا اور فوجیں ان پر بھیج کر اور تالیاں بجا بجا کر ہم نے انہیں ہم اپنے سے جدا ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس عمل میں پنجابیوں سے ایک غیر مرئی اتحاد بن گیا جنہوں نے خود کو مارشل ریس قرار دے کر بنگالیوں اور دوسری قوموں سے خود کو برتر قرار دیا۔ ‏

‏بنگالیوں سے جان چھڑا کر ہم نے اور پنجابیوں نے ریاستی سرپرستی میں سندھ کو نشانہ بنایا اور تقریباً 35 سال تک کراچی سمیت پورے سندھ میں نفرتیں پھیلانے کے ساتھ اسے خون میں نہلا کر رکھا۔ اس دوران پٹھانوں کے لہجے، ان کے رہن و سہن کا مذاق اڑانے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف بیہودہ لطیفے بھی بنائے گئے۔ اس طرح ہم نے اپنی نفرتوں کی تسکین کے نئے راستے بنائے۔ ‏

بی بی آپ تو اپنے مخالف کو دلیل سے قائل کرنے کی بجائے اس کی زبان اور مقامی لہجے کا مذاق بنایا لیکن ایک سیاستداں ہونے کے باعث آپ کو علم ہونا چاہیے کہ ایسے ٹھٹے اور مذاق بہت دور رس اثرات رکھتے ہیں خاص طور پر جب کسی قوم کے لہجے، تلفظ اور زبان کا مذاق اڑایا جائے۔ یہ کسی طور ایک سرحدی باؤنڈری میں رہنے والی قوموں کے معاملے میں درست رویے نہیں ہیں۔ آپ کو علم ہے کہ اردو کے جنازے سے شروع ہونے والے ایک شعر کے باعث کئی دہائیوں تک سندھ خون کے سمندر سے گزرا ہے۔
ہر لہجہ خوبصورت ہے، ہر زبان خوبصورت ہے، ہر دھرتی خوبصورت ہے اور اس میں بسنے والے بہت ہی خوبصورت لوگ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments