خیریت


اس کی عادت تھی گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر وہ موبائل لے کر بیٹھ جاتی اور باری باری سب کی خیریت پوچھتی کبھی بات زیادہ ہوجاتی کبھی کم ورنہ وہ مختصر بات کرتی تھیں۔

حسن کو اس کی یہ عادت پسند نہیں تھی مگر وہ چپ رہتی۔

” ہر کوئی اپنی زندگی میں مصروف ہے ایسے روزانہ کال کرنا اچھا نہیں ہے، پتا نہیں یہ بات تم کب سمجھو گی“ ۔

وہ بولتے تو جواب میں خاموشی سنائی دیتی، وہ روزمرہ کے کاموں میں لگی رہتی دوسری طرف اس کے فون کرنے پر مذاق اڑانے میں سب مصروف رہتے، کوئی پوچھتا بات کرلی آپ کی بہن نے؟

خیریت بتا دی آپ نے تو اس کی بہن سن کر مسکرا دیتی، ایسے ہی کچھ حال بھائی کے گھر میں بھی تھا۔
” آ گیا فون“ ۔
کسی کی آواز آتی۔
” آپ کر لیں خیریت بتا دیں ورنہ انہیں کہاں چین آئے گا“ ۔

تو یہ سب سن کر بھائی بھی خاموشی سے اپنے کاموں میں لگ جاتے سب یہ ہی سوچتے تھے کے زارا کو ہر ایک کی ٹوہ لینے کی عادت ہے وہ بات سے بات نکالتی ہے اور خاندان میں پھیلا دیتی ہے باقی کوئی شکایت نہیں تھی زارا سے وہ ان تمام باتوں سے بے خبر ان سب کی سلامتی مانگتی رہتی۔

حسن کو اندازہ تھا مگر وہ بھی بے بس تھے کیا کہتے؟

وہ ہنستی مسکراتی گھر کے کام کرتی باقی وقت وہ اور حسن آپس میں مگن رہتے کسی سے انہیں کوئی گلا نہیں تھا اور وہ اپنا وقت بہت ہنسی خوشی گزار رہے تھے، وقت گزرتا جا رہا تھا ایسے میں اس کی بھتیجی کی منگنی کا موقع آ گیا، اس نے سنا تو بہت خوش ہوئی ویسے بھی نئی نسل میں یہ پہلی شادی تھی تو ہجوم بھی زیادہ تھا، سب لوگ بڑے ذوق و شوق سے شریک تھے، اس نے بہت خوبصورت لباس پہنا ہوا تھا حسن اور وہ دونوں بہت اچھے لگ رہے تھے، سب کی نگاہیں بتا رہی تھیں کہ وہ اس کی خوشی کا اندازہ کر رہے ہیں وہ حسن کے ساتھ ہی کھڑی تھیں، اس بات سے بے پرواہ کون اسے مخاطب ہے کون نہیں بس وہ تو بہت ہی پیار سے اپنی بھتیجی کو دیکھ رہی تھیں جو بے انتہا خوش تھیں اور اچھی لگ رہی تھیں۔

ایک دم اسے چکر آ گیا اس سے پہلے کے وہ گرتی حسن نے اس کو سنبھال لیا کیا ہوا ہے وہ گھبرا گئے تو وہ نفی میں سر ہلا کر باہر آ گئی۔

” زارا کیا ہوا ہے؟“ ۔
حسن بے حد پریشان تھے۔
”گھر چلیں میں بہت تھک گئی ہوں“ ۔
وہ گاڑی میں بیٹھ گئیں تو انہوں نے موبائل نکالا بتانے کے لئے تو اس نے روک دیا۔
” سب بہت خوش ہیں رنگ میں بھنگ مت ڈالیں“ ۔
اس نے یہ کہہ کر سیٹ سے ٹیک لگا لیا۔
” ایسے بالکل مناسب نہیں لگ رہا کسی کو تو بتا دیں“ ۔
حسن نے اسے منانا چاہا نہیں آپ گھر چلیں بعد میں بتا دیں گے ”۔
گھر آ کے بھی وہ بہت خاموش تھیں اس نے کپڑے بدلے اور بیڈ پر آ کر لیٹ گئیں۔

حسن نے بہت پوچھا تو اس نے کوئی جواب دیے بنا آنکھیں موند لیں اور جب حسن نے اسے صبح اٹھانا چاہا تو وہ ابدی نیند سو چکی تھیں۔

ڈاکٹر کے مطابق اس کا دل کمزور تھا رک گیا دھڑکن بھول گیا، جینا بھول گیا شاید زندگی اتنی ہی کسی کے لئے نازک ہوتی ہے جو تھوڑے سے جملوں سے بھی چلی جائے، حسن جانتے تھے اس کے دل کی قیامت کیونکہ وہ باتیں انہوں نے بھی سنی تھیں جو اسٹیج پر ہو رہی تھیں، مہمان جا چکے تھے گھر والے موجود تھے اور وہ اپنی باتوں کے دوران میں یہ بھول گئے تھے کہ وہ دونوں بھی کھڑے ہیں سب کے گروپ فوٹو بن رہے تھے جب اس کے بھانجے، بھتیجے آپس میں ہنسی مذاق کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آپ نے خیریت خالا کے ساتھ گروپ فوٹو بنوا لیا ایسا نا ہو کہ صبح ہی صبح خیریت پوچھنے کے ساتھ گروپ فوٹو کا بھی شکوہ آ جائے تو اس کے بہن بھائی بجائے ڈانٹنے کے ہنسنے لگے اور شاید یہ ہی ہنسنا اس کو بے انتہا تکلیف دے گیا وہ تو سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ اس کی باتوں کو اتنے غلط انداز میں لیا جاتا ہو گا، وہ تو اپنے طور پر بہت صحیح سمت چل رہی تھی نا جانے کیوں وہ اس کی نیت پر شبہ کر بیٹھے۔

حسن نے جان بوجھ کر زارا کی موبائل سے فون کی تو بیل جاتی رہی کسی نے نہیں اٹھایا پھر انہوں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنے موبائل سے کال ملائی۔

” کیا ہو گیا خیریت سے ہیں سب؟“ ۔
بھائی کی آواز سنائی دی۔
” زارا چلی گئی اب کوئی فون نہیں آئے گا آپ کی خیریت پوچھنے کے لئے“ ۔

حسن نے کہا اور فون بند کر کے وہ زارا کے چہرے کو دیکھنے لگے جیسے وہ اٹھ جائے گی اور پوچھے گی آپ ٹھیک ہیں نا؟

وہ بے بسی سے اسے تکے جا رہے تھے۔

آخر ہم پرخلوص لوگوں کو یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ ان کو ضرور کوئی مطلب ہو گا جو یہ بات کر رہے ہیں یا ایک ہی آواز پر دوڑے دوڑے جا رہے ہیں، یہ مطلب پتا نہیں کس کس کی جان لیتا ہو گا ان کی زارا کی طرح۔

گھر بھرتا جا رہا تھا سب پوچھ رہے تھے ایسا کیا ہوا جو زارا نے اپنی زندگی ہار دی لیکن وہ کوئی جواب نہیں دے رہے تھے اور دیتے بھی کیا کہ ان کی زارا اتنی نازک تھی کہ ان کے جملوں کی مار بھی سہ نا پائی۔

کہنے کا مطلب یہ ہی ہوتا کہ وہ شکایت کر رہے ہیں اور فائدہ اٹھا رہے ہیں ان کے گھر کا فنکشن خراب کر رہے ہیں جب ان کی زارا نے یہ سب کچھ نہیں کیا تو وہ یہ کیسے کر سکتے تھے ورنہ تو ان کا دل چاہ رہا تھا وہ بولیں کہ زارا کو سب کی خیریت کھا گئی، اس کو آپ کا مذاق زندگی ہارنے پر مجبور کر گیا، مر گئی وہ اور اس کے قاتل خیریت سے بیٹھے اس کا سوگ منانے آئے ہوئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments