صحافتی چورن بیچنے والے کون؟


ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ تم کیا کرتے ہو، تم بہت نیک اور پارسا ہو یا نہایت ہی کسی غلیظ شعبہ کے اہم پرزے ہو، بس ہر ماہ ہمارے کھاتہ میں 50 ہزار روپے بھجوا سکتے ہوتو تمہیں چینل کا کارڈ، لوگو اور اتھارٹی لیٹر جاری کر دیا جائے گا۔ سیکورٹی کی مد میں ڈیڑھ لاکھ روپے بھی جمع کرانے ہوں گے اگر یہ سب منظور ہے تو کل سے تمہیں کام پر لگ جانا چاہیے۔ مگر سر میں تو نہایت غریب اور صحافت جیسے مقدس پیشہ کو بطور انسانی فلاح و بہبود جوائن کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے جواب دیا ہی تھا کہ جواب آیا تمہارے جیسے لوگ صحافت میں مس فٹ ہیں، انہوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا اور کہا کہ برائے مہربانی ہمارا وقت برباد نہ کریں اور راستہ ناپیں۔

جس پر میں ہکا بکا وہاں سے اٹھ کر باہر آ گیا اور سوچنے لگا کہ شاید میں کسی صحافتی ادارے میں نہیں بلکہ کسی چٹی دلالی کے اڈے پر تھا جہاں ہر کام کے ریٹ فکس تھے اور اس میں کسی کی تعلیم، مجبوری، شوق یا جذبہ کا عمل دخل قطعاً نہیں تھا۔ ایسی باتیں میں پہلے بھی سن چکا تھا مگر یہ چھوٹے لیول کی تھیں جس میں ادارے کا کارڈ اور دیگر اشیا کی مد میں معمولی سیکورٹی 20 ہزار روپے، ماہانہ 5 ہزار روپے کا بزنس یا نقد بھجوانے کی ترغیب تھی مگر آج تو حد ہی ہو گئی میرا تو اعتبار ہی اٹھ گیا کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے۔

میرا نام شرافت علی ہے اور میں نے شعبہ پولیٹیکل سائنس سمیت صحافت کی بھی اعلیٰ ڈگری حاصل کر رکھی ہے مجھے اپنے بچپن ہی سے لکھنے، پڑھنے کی عادت نے مختلف رسائل و میگزینز میں چھوٹی موٹی تحریریں لکھنے کا بھی تجربہ رہا ہے، مختلف چینلز پر بیٹھے اینکرز کو دیکھنے اور سننے کے بعد میں اندر ایک جنون سے پیدا ہوا، اسی بنیاد پر میں نے کوشش کی کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے شعبہ صحافت کو جوائن کرنا چاہیے جس میں بہترین روزگار سمیت عزت و احترام اور اسے ایک الگ پہچان مل پائے گی مگر متعدد چینلز اور اخبارات میں اپنی سی ویز کے بعد اس طرح کی سودے بازی نے میرے اندر کے اچھے انسان کو دبوچنے کی بھی کوششیں مگر میں اپنے نام کی طرح ہی شریف بنا رہا اور کسی نامور چینل میں اپنے قدم نہ جما سکا۔

یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں میرے بہت سے دوست صحافی حضرات ہیں جن کی تعلیم بھی معمولی سی تھی اور فیملی بیک گراؤنڈ بھی تقریباً صفر ہی تھا اور صحافی بننے سے پہلے تو بالکل شرافت کی زندگی گزار رہے تھے تاہم صحافی بننے اور کسی نہ کسی پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کا لوگو اٹھانے کے بعد وہ طرم خان بن چکے تھے اور بہت ہی کم عرصہ میں سائیکل، موٹرسائیکل کو پیچھے چھوڑ کر چمچماتی گاڑیوں میں نظر آتے ہیں۔

میں نے ان سے بھی اکثر یہ سوال کیا کہ کل تک تمہیں کوئی اپنے پاس بٹھا کر راضی نہیں تھا تو آج تم کسی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے جس پر وہ ایک زور دار قہقہہ لگاتے اور کہتے کہ چھوڑو یار یہ راز کی باتیں ہیں انہیں راز ہی رہنے دو ، مگر میں بھی صحافتی قدروں سے اچھی طرح واقف تھا اور پھر تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کی کھوج میں لگ گیا جس کے بعد مجھ پر نہایت ہی خطرناک اور ہوشربا قسم کے انکشافات ہوئے کہ یہ لوگ صحافتی اداروں کی آڑ میں جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں، کوئی چٹی دلالی کا ماہر بن چکا ہے تو کوئی جوئے کے اڈے چلانے اور وہاں سے منتھلی لینے کا ماہر ہے، اسی طرح کسی نے ممنوعہ مشروب (شراب) فروشی کا دھندا شروع کر رکھا ہے اور کوئی قحبہ خانہ کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ خود بھی (مال) سپلائی میں کافی آگے جا چکا ہے۔ بہت سے لوگ صرف صحافی ہونے کا لیبل لگوانا پسند کرتے ہیں جس کی بنیادی وجہ دو قسم کی ہوتی ہیں یا تو وہ صحافیوں کی بلیک میلنگ سے تنگ آ کر صحافتی ٹیگ حاصل کرتے ہیں یا پھر اپنے ناجائز دھندوں کو شیلٹر دے کر اپنے کاروبار کو چمکانے ہیں۔

متعدد ایسے افراد بھی صحافت کا لبادہ اوڑھ چکے ہیں جو حادثاتی طور پر صحافت میں آئے اور پھر انہیں اپنے دو نمبر کاروبار کے لیے صحافت کے نام پر ایک بہترین شیلٹر مل گیا جس کے ذریعہ وہ ایک معمولی دکان یا تھڑے سے اٹھ کر ایک مل اونر بن چکے ہیں، کسی نے چائے خانے سے نکل کر صحافتی آڑ سے دو نمبر دھندے شروع کیے اور غریبوں کو مختلف قسم کے جھانسے دے کر کروڑوں روپے کمائے اور اب وہ انتظامیہ کی گڈ بک میں شامل ہوچکے ہیں۔

کئی ایسے صحافی بھی دیکھے جنہیں خبر بنانے یا کالم نویسی کی الف ب بھی نہیں آتی مگر ان کا طریقہ واردات بھی نہایت عجیب تھا وہ ایسے صحافی کو اپنے قریب کرلیتے جنہیں پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کی خبر بنانے کی مہارت ہوتی، برائے نام صحافی ان پر فدا رہتے اور ان کی چھوٹی موٹی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے پھر اپنے مطلب کی خبریں بنواتے، چلواتے رہتے۔ اس طرح وہ صحافتی لبادے میں چھپ کر ناصرف صحافتی اداروں کو بلکہ ضلعی انتظامیہ، پولیس و دیگر ایجنسیز کو بھی الو بنانے میں کامیاب رہتے ہیں۔

یہ سب کچھ ایسا ہی ہے جیسے آپ بہت ہی زبردست ڈرامے کے نامور کرداروں کی اداکاری سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں مگر آپ کو قطعاً یہ علم نہیں ہوتا کہ کہانی کا رائٹر کون ہے یا اسے کون ڈائریکٹ کر رہا ہے یہ سب کردار گمنام صحافی کی طرح ہی چھپے رہتے ہیں۔ غرض کہ موجودہ صحافتی فیلڈ کو دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی پیشہ ہو جہاں سے نکل کر لوگ صحافتی لبادہ نہ پہن چکے ہوں، منشی، عرضی نویس، موچی، تیلی، میراثی، دھوبی، پٹواری، ریڑھی بان، ٹیکسی ڈرائیور، کنڈیکٹر، اتائی ڈاکٹر، کسان، دکاندار، ٹھیکیدار، مختلف تنظیموں کے عہدیدار و فوکل پرسنز وغیرہ وغیرہ یہ سب ہی اس فیلڈ میں گھس بیٹھیے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

یہ ہوشربا انکشافات سامنے آنے کے بعد میرے اندر سے صحافت کی تکریم و تحریم کا رہتا سہتا مادہ بھی ختم ہو چکا تھا۔ میں یہ بالکل بھی نہیں کہتا کہ جل میں ساری مچھلیاں گندی ہیں بہت سے ایسے بھی صحافی موجود ہیں جو اپنے اندر کی شرافت، نیک نامی، اعلیٰ تعلیم، اپنے والدین کی بہترین تربیت اور خاندانی پس منظر کے مرہون منت ہیں اور انہیں صحافتی لبادہ اوڑھے کسی بھی پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کا چورن بیچنے والے خرید نہ سکے ہیں اور ان کے اندر کے انسان کو حیوان نہیں بنا سکے، ایسے صحافیوں کی وجہ ہی سے معاشرہ کی برائیاں کھل کر سامنے آتی ہیں، مسائل اجاگر ہوتے ہیں اور ان کی نیک نامی کے چرچے رہتے ہیں، انہیں ہر جگہ پذیرائی ملتی ہے جبکہ (دوسری) قسم کے صحافیوں کو نہایت ہی برے القابات سے نوازا جاتا ہے جو نہایت ہی افسوسناک ہے، یہ صحافت جیسے مقدس پیشہ پر بدنما داغ ہیں۔

میں یہ اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ نیوز چینل چھوٹا ہو یا بڑا، پرنٹ میڈیا نیشنل ہو یا لوکل، طرم خان بننے والے وہ تمام کردار کسی نہ کسی خاص (مہارت) کے بعد ہی اعلیٰ مقام اور مرتبے کو پہنچتے ہیں اور ان کا شمار (معززین) میں ہونے لگتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی بہت ضروری ہے کہ صحافتی لبادے اوڑھے جن افراد کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ معاشرے میں اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کرچکے ہیں کہ انہیں انتظامیہ یا پولیس افسران بھی ہاتھ لگانے سے قبل کئی مرتبہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اپنی شرافت اور نیک نامی کے خول میں پھنسے ایسے صحافی جو واقعی صحافی ہیں وہ بھی ایسے افراد بلکہ اگر انہیں گروہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا سے خوف کھاتے ہیں اور اپنی عزت بچانے پر مجبور ہیں۔ ان میں صحافتی اقدار کی تمام خوبیاں ہونے کے باوجود وہ احساس کمتری اور احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ان تمام انکشافات اور حقائق کو دیکھنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ اس برائی میں سب سے بڑا حصہ ان میڈیا ہاؤسز کا ہے جو خود بھی ان ہی راستوں سے چل کر آئے ہیں اور اب وہ چاہتے ہیں کہ اپنے اس کاروبار کو یونہی جاری رکھا جائے تاکہ اگر میڈیا ہاؤس ناکام بھی ہو جائے تو کم از کم ایسے افراد جو ان کے صحافتی چورن کو اچھے سے فروخت کرسکیں انہیں اپنے ساتھ جوڑے رکھیں۔ ان میڈیا مالکان کو اس بات سے قطعاً کوئی غرض نہیں ہوتی کہ جن لوگوں کو اپنے میڈیا کا نام دے رہے ہیں ان کا ذریعہ معاش کیا ہے اور انہیں صحافت کی الف ب بھی آتی ہے یا نہیں۔

لہذا ان کا دین دھرم صرف پیسہ ہے اور وہ اس ذریعے سے پیسہ دینے والی (اے ٹی ایمز) حاصل کرچکے ہیں۔ برائی کا دوسرا حصہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جو ذہنی اور عملی طور پر جرائم پیشہ ہیں انہیں پولیس اور انتظامیہ سے بچنے کی غرض سے صحافتی چورن بیچنا بہت ہی پسند ہے اور وہ اس صحافتی چورن کے ذریعے ناصرف میڈیا ہاؤسز کا پیٹ بھر رہے ہیں بلکہ اپنے ناجائز دھندوں کو بھی چار چاند لگا رہے ہیں۔

پڑھے لکھے افراد جو یہ سب نہیں کر سکتے اگر خوش قسمتی سے انہیں میڈیا ہاؤسز میں بغیر کسی سفارش یا پیسہ کے صحافتی خدمات کا موقع ملتا ہے تو وہ ایک مخصوص وقت کے لیے نہیں بلکہ فل ٹائم صحافی بن جاتے ہیں اور اپنے قلم سے حق اور سچ کی آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں مگر اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہی لوگوں پر معاشرہ کو بھی ناز ہے کہ وہ نامساعد حالات، کم تنخواہ، کم وسائل میں بھی اپنے ادارے کے ساتھ وفا نبھاتے ہیں اور میری دعا، نیک تمنائیں ایسے ہی لوگوں کے لیے ہیں اور رہیں گی۔ میڈیا ہاؤسز کو اپنی پالیسیوں کو بدلنا ہو گا کہ نمائندگی کے لیے تعلیم، تجربہ، چال چلن سرٹیفکیٹ، سابقہ ریکارڈ وغیرہ کو مدنظر رکھا جائے تاکہ جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ شکنی ہو سکے اور وہ صحافتی لبادہ نہ اوڑھ سکیں کیونکہ میڈیا ہاؤسز کی بھی بدنامی ہوتی ہے۔

جرائم پیشہ افراد جو صحافتی لبادے میں چھپ چکے ہیں انہیں سب سے زیادہ سپورٹ پریس کلبز فراہم کرتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پریس کلبز کے اندر بیٹھے 80 فیصد سے زائد افراد کا تعلق بھی اسی کیٹگری سے ہوتا ہے جنہیں اپنے جیسے ہی افراد کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ پریس کلب پر قبضہ جمانے کے لیے انہیں اپنی آستین میں چھپاتے ہیں۔ یہ افراد پریس کلب میں ہر قسم کی منفی سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں اور سالانہ الیکشن میں بھرپور کامیابی کے لیے ہر جائز ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، سیاسی مداخلت کو اپنا حق سمجھتے ہیں، مالی طور پر کمزور ممبران کو دھونس دھاندلی، سیاسی اپروچ، پیسوں کا لالچ دے کر خریدتے ہیں اور فروخت نہ ہونے والوں کے خلاف میڈیا کمپین کے ذریعے ہراساں کرتے ہیں۔

اپنی پسند کا آئین بناتے ہیں اور ناک کی موم بنا کر جب چاہیں رد و بدل کرتے ہیں، کابینہ میں بڑے تین عہدوں، صدر، جنرل سیکرٹری، فنانس سیکرٹری کے علاوہ دیگر تمام ممبران ڈمی منتخب کیے جاتے ہیں جن میں فیصلہ سازی کی قوت ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی انہیں اپنے مالکان کی اجازت کے بغیر بولنے دیا جاتا ہے، انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ آئین کس بلا کا نام ہے یا آئین پر عملدرآمد کے لیے کیا قانون و ضوابط ہیں ایسی کسی بھی معلومات سے یہ لوگ نابلد ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے اکثر و بیشتر پریس کلبز میں دیکھا ہو گا کہ جتنے بھی ورکنگ جرنلسٹس ہوں گے یا تو وہ پریس کلب کے انتہائی خاموش ممبر ہوں گے یا پھر پریس کلب سے باہر ہوں گے اور وہ باہر اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ باشعور صحافی ہوتے ہیں انہیں آئین و قانون کی سمجھ بوجھ ہوتی ہے وہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی جرات رکھتے ہیں، وہ جرائم، کرپشن اور پریس کلب میں منفی سرگرمیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اسی لیے سب کرپٹ ممبران و عہدیداران کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتے ہیں۔ یہ کرپٹ عناصر اپنے ہی بنائے ہوئے آئین پر عملدرآمد سے کتراتے ہیں اور ہمیشہ آئین کی خلاف ورزی کر کے اپنا ووٹ بنک بناتے ہیں۔

آپ نے اکثر یہ بھی دیکھا ہو گا کہ پریس کلب کے تین بڑے عہدیدار ہی ایک سال کی حکومت ملنے پر نئی چمچماتی گاڑیوں کے مالک بن جاتے ہیں پیسے کی ریل پیل شروع ہوجاتی ہے، ان کا طرز زندگی ہی بدل جاتا ہے اس کی بھی ایک بڑی وجہ اور پریس کلب کے دیگر سادہ لوح ممبران کی بیوقوفی، کم عقلی اور بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے والوں کی مفاد پرستی ہے۔ یہ کم عقل جن کی اپنی سوچ ہمیشہ ہی گھاس چرنے نکل جاتی ہے کبھی سوال نہیں اٹھاتے کہ ایک سال کی حکومت میں پریس کلب لاکھوں روپے فنڈ کے نام پر بٹورتا ہے مگر فائدہ صرف تین لوگ ہی کیوں اٹھاتے ہیں باقی ممبران کو پورا سال مختلف سرکاری، نیم سرکاری، پرائیویٹ، سیاستدانوں اور سیاسی پلیٹ فارمز سمیت صحافتی تنظیموں کے ہاں بھی فروخت کر دیا جاتا ہے۔

ایسی سوچ سے پیدل لوگ ہمیشہ ہی صرف ایک چائے کی پیالی، عید تہوار پر پانچ سو روپے مالیت کا سوٹ اور بھرپور ڈنر کے عوض اپنے ضمیر کو فروخت کر کے خوشیاں منا رہے ہوتے ہیں کہ پریس کلب میں ان کی بہت ویلیو ہے اور انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ یہ لوگ صرف معمولی اشیا کے لالچ میں ہر سال متعدد پلیٹ فارمز پر فروخت ہوچکے ہوتے ہیں اور انہیں خبر تک نہیں ملتی۔

بڑے شہروں کے پریس کلبز میں تو شاید اکٹھے ہونے والے فنڈز ممبران میں برابری کی سطح پر تقسیم کر دیے جاتے ہوں، تربیتی ورکشاپس، غیرملکی دورے اور دیگر بہت سی مراعات دی جاتی ہوں مگر چھوٹے شہروں کے پریس کلبز میں یہ روایت کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پریس کلب کے تمام ممبران کو برابر کا حصہ دیا جائے اور ان کی مالی معاونت کر کے انہیں اس قابل بنایا جائے کہ وہ احساس محرومی سے نجات حاصل کریں، ان کی صحافتی ٹریننگز کا بندوبست کیا جائے، انہیں ای لائبریری کی سہولت فراہم کی جائے، انہیں ریسرچ ورک کے لیے کمپیوٹر لیب بنا کر دی جائے، انہیں صحافت کے جدید پروگرامز اور تکنیکی مہارتوں سے روشناس کرایا جائے، جو لوگ صحافت کا شوق رکھتے ہیں ان کے لیے صحافتی اکیڈمی قائم کی جائے، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا کے فرق اور اہمیت کو اجاگر کیا جائے، تحقیقاتی رپورٹنگ سمیت صحافیوں کے تحفظ کے قوانین کی آگاہی کرائی جائے، جدید صحافت کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی سے آگاہی اور تربیتی ورکشاپس کرائی جائیں، دنیا میں ہونے والی جدید صحافتی تبدیلیوں سے آگاہ کرنے کے لیے غیر ملکی دورے کرائے جائیں مگر یہ سب کچھ اس لیے بھی ناممکن ہے کہ اول تو پریس کلبز پر قابض افراد خود اتنے پڑھے لکھے اور باشعور نہیں ہوتے، دوسرا یہ کہ انہیں قدیم یا جدید صحافت کی الف ب سے کیا لینا دینا کیونکہ کرپٹ اور مفاد پرست ٹولے کبھی بھی ورکنگ جرنلسٹس کو آگے نہیں آنے دیں گے اور احساس محرومی و احساس کمتری میں مبتلا ہر سال فروخت ہونے والے ممبران میں کبھی یہ جرات پیدا نہیں ہو سکے گی کہ وہ ان معاملات پر بحث کرسکیں۔

لولی لنگڑی صحافت کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر حکومتی ایوانوں میں بھی قانون سازی پر سنجیدگی کا مظاہرہ ہونا چاہیے ناں کہ صرف حکمران اپنے آس پاس چاپلوس صحافیوں کا ٹولہ اکٹھا کر کے خوش ہوتے رہیں، دنیا بھر میں صحافتی اقدار، حق رائے دہی، آزادی اظہار کو بہت اہمیت دی جاتی ہے مگر پاکستان میں ان معاملات کو زیر بحث نہیں لایا جاتا جس کا نقصان صحافتی فیلڈ کے ان نوجوانوں کو ہو رہا ہے جو بطور پیشہ اسے اپنانے کے لیے اپنا مستقبل داؤ پر لگا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments