بریک اپ کے بعد ٹوٹے ہوئے دل کو کیسے سنبھالیں، ایکسپرٹ کے آٹھ مشورے

میگا موہن - بی بی سی آئی ڈینٹیٹی اینڈ جینڈر نامہ نگار


طلاق کے ایک مقدمے کے دوران عدالت میں ایک چونکا دینے والے لمحے نے ارونکے اومامے کو اپنا کریئر تبدیل کرنے اور بریک اپ ایکسپرٹ (ماہرِ ترکِ تعلق) بننے پر مجبور کر دیا۔

یہ سنہ 1993 کی بات ہے جب 35 سالہ بزنس اٹارنی ارونکے اومامے دل کے ٹوٹنے کے بارے میں ایک سبق سیکھنے والی ہیں جو ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دے گا۔

وہ لاگوس، نائیجیریا کی عدالت میں ہیں، لیکن اس بار وہ کسی مؤکل کی نمائندگی نہیں کر رہی ہیں۔ بلکہ وہ اپنی دوست ماریہ (فرضی نام) کی وکالت کر رہی ہیں، جن کے والدین میں طلاق ہو رہی ہے۔

ارونکے کا کہنا ہے کہ ان کی دوست ماریہ کی والدہ مسلسل کھڑکی سے اپنے شوہر کو دیکھتی جا رہی تھیں۔ یہ مناسب نہیں تھا، اور انھوں نے ماریہ کے والد کی توجہ حاصل کرنے کے لیے گردن کو گھمایا۔

ارونکے کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ پھر جیسے ہی جج نے کارروائی میں مختصر وقفے کا اعلان کیا ماریہ اور ان کی والدہ، باپ کی طرف بڑھتی ہیں۔ کمرہ عدالت میں خاموشی ہے، سب کی نظریں خاندان پر ہیں۔

پھر ماریہ اور ان کی والدہ اپنے شوہر کے سامنے گھٹنے ٹیکتی ہیں۔ وہ سر جھکائے اس سے التجا کرتیں ہیں کہ وہ خاندان کو نہ توڑیں۔

لیکن ماریہ کے والد اپنی ٹھوڑی اوپر کرتے ہوئے سب کے سامنے اونچی آواز میں دونوں عورتوں کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔

والدین کی مثال

یہ سنہ 1967 کی بات ہے جب نو سالہ ارونکے اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کے میدان میں تھیں اور ان کے سکول کے پرنسپل ان کے پاس آئے تھے۔ ڈرامے کے وقت ڈائریکٹر کو دیکھنا نایاب ہے۔ کچھ گڑبڑ ہے۔

انھوں نے ارونکے کو بتایا کہ ان کے والد انھیں لینے کے لیے سکول کے دروازے پر انتظار کر رہے ہیں۔ کچھ تو ہوا ہے۔

سکول سے لینے کے بعد ارونکے کے والد نے انھیں بتایا کہ وہ گھر نہیں جا رہے ہیں، وہ کچھ ہفتوں کے لیے اپنی دادی کے گھر رہیں گی۔ اور چونکہ اس کی دادی کا گھر شہر سے میلوں دور ہے، اس لیے کوئی انھیں سکول نہیں لے جا سکے گا۔ انھیں وہاں فارغ وقت ملے گا۔،

وہ اور اس کی ماں اس سے ملنے آئیں گے، ابھی انھیں علحیدگی میں کچھ ذاتی باتیں کرنی ہیں۔ انھیں اکیلے کچھ وقت چاہیے۔ ارونکے پریشان تھی لیکن اسے محسوس ہو رہا تھا کہ سوال پوچھنے کا مناسب وقت نہیں ہے۔

ارونکے اپنے کزنز کے ساتھ کھیلتی ہیں اور اپنی دادی کے ساتھ کھانا پکاتی ہیں۔ سکول سے چند ہفتے باہر رہنا پرلطف ہوتا ہے۔ وہ خوش ہیں۔ یا کم از کم، وہ ناخوش تو نہیں ہیں۔

اور ایک مہینے میں ان کے خاندان کو اس کی نئی تال مل جاتی ہے۔

ارونکے بی بی سی کو بتاتی ہیں: ‘اس وقت خاندان مشترکہ خاندان ہوتا تھا۔ میری پرورش دادا دادی، نانا نانی اور خالہ پھوپھی اور چچا ماموں سب نے کی ہے۔ میرے والدین کو ان سے بہت مدد ملی۔’

ان کے والد خاندانی گھر سے علیحدہ رہنے چلے گئے اور ارونکے اور ان کے بھائی اسی پرانے گھر میں رہ گئے۔ ان کے والدین آپس میں خوشگوار تعلقات رکھتے تھے اور کوئی بچوں کے سامنے دوسرے پر تنقید نہیں کرتا۔ خاندان ٹوٹا نہیں۔ ان کے گھر میں صرف یہ کمی ہوئی ہے کہ ایک آدمی وہاں نہیں سوتا تھا۔

ارونکے کہتی ہیں کہ ‘میں نے یہ سیکھا ہے کہ بہترین ارادوں کے باوجود بہت سے تعلقات ہمیشہ قائم نہیں رہتے۔ ایک دوسرے کے خلاف تند تیز رویہ رکھنا پرکشش ہے، لیکن عزت کے ساتھ چیزوں کو ختم کرنے سے آپ کا مستقبل اچھا ہوتا ہے۔

وہ کبھی نہیں جان سکیں کہ آخر ان کے والدین کی شادی کیوں ختم ہوئی، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ان کا باقی باقی بچپن خوشگوار تھا۔ بہر حال ان کی اگلی محبت کا سبق تکلیف دہ تھا۔

مسترد کیا جانا

ارونکے کی عمر اب 18 سال ہے اور وہ لاء سکول میں زیر تعلیم ہیں۔ وہ اپنے بہترین دوست میں دلچسپی لینے لگتی ہیں۔ ارونکے کا خیال ہے کہ وہ ایک ہی کلاس میں ہیں، ان کا مشترکہ مذاق چھیڑ چھاڑ میں بدل جاتا ہے، جو جلد ہی ایک خصوصی رشتے میں بدل جاتا ہے۔

پہلی بار وہ محبت میں گرفتار ہو جاتی ہیں۔

لیکن ایک مسئلہ ہے۔ وہ سیکس کرنا چاہتا ہے اور ارونکے اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔

وہ دوسرے طریقوں سے اسے پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں یعنی اس کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہیں، محبت کرتی ہیں اور ان کا خیال رکھتی ہیں۔ ایک دن وہ اسے حیران کرنے کی غرض سے اس کے گھر جاتی ہے، اور دیکھتی ہے کہ وہ کسی اور نوجوان عورت کو چوم رہا ہے۔

ارونکے نے کہا: ‘میرا دل ٹوٹ گیا تھا۔ میں یہ سوچ کر باہر نکل گئی کہ وہ میرے پیچھے آئے گا۔’

لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔

کئی دن کی خاموشی کے بعد اسے ایک خط ملتا ہے۔

‘وہ کہتا ہے کہ اسے اپنا ‘ہیرا’ مل گیا ہے اور وہ اب اس کی زندگی کا حصہ نہیں ہے۔’

ارونکے اس طرح ٹھکرائے جانے پر دلبرداشتہ ہو جاتی ہے۔

‘میں شرمندہ تھی۔ مجھے لگا جیسے میری دنیا تباہ ہو گئی ہے۔’

وہ دو ہفتوں تک کلاس نہیں گئی، بستر پر روتی رہی اور اس سے ملنے سے ڈرتی ہے۔ وہ گھر میں رہنے کو ترجیح دیتی رہی۔

اس کے دوست اس سے ملنے آتے رہے اور اسے بتاتے رہے کہ باہر کی دنیا میں اس کے لیے بہتر آپشنز موجود ہیں۔

پھر ایک دن ایسا ہوا کہ جیسے جادو سے، اس کا موڈ بہتر ہو جاتا ہے۔ وہ ایک مہم پر جانا چاہتی ہے۔ اسے قانون کی ڈگری مکمل کرنی ہے اور اس کے پاس تفریح کرنے کے لیے دوست ہیں۔ وہ دروازے سے باہر نکلتی ہے اور واپس زندگی میں آجاتی ہے۔

ان دو ہفتوں کی تنہائی نے اسے بہت کچھ سکھایا۔ حتیٰ کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ دوبارہ اس کے ساتھ دوستی بھی کر سکتی تھی۔

‘مجھے خوشی ہے کہ میں پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ رونا میرے لیے ایک اچھا سبق تھا۔’

ایک محکوم عورت

ارونکے نے لاگوس کی عدالت میں اس منظر کو دیکھا جب ان کی دوست میری کے والد اپنی بیوی اور بیٹی کو گالیاں دے رہے تھے۔

اس سے پہلے ان کی اپنی طلاق بھی ہو چکی تھی لیکن اس کے دوران ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔

وہ حیران تھیں کہ ایک 60 سالہ عورت کیسے ایک ایسے آدمی کے سامنے جھک سکتی ہے جو اسے گالیاں دے رہا ہو۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پھر مجھے احساس ہوا کہ ہمارا سماج ایک مرد کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو محکوم بنائے۔‘

Short presentational grey line

بریک اپ میں اضافہ

گوگل کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ بریک اپ یا ساتھی سے علیحدگی کے بعد اس کے خیال سے کیسے پیچھا چھڑایا جائے کی سرچ گذشتہ پانچ سال میں دگنی ہوئی ہے اور 2012 سے اب تک اس میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔

کی ورڈ ٹول متعدد پلیٹ فارمز پر ہونے والی سرچ کا حساب کرتا ہے جس کے مطابق بریک اپ سے متعلق سرچ کرنے والوں کی زیادہ تر تعداد آئر لینڈ سے ہے۔ اس کے مطابق نائجیریا، سنگاپور، انڈیا، آسٹریلیا، کینیا، امریکہ اور برطانیہ میں بھی بریک اپ سے متعلق سرچ کا رجحان زیادہ ہے۔

ٹک ٹاک پر بریک اپ کے 21 ارب ہیش ٹیگ بنے ہیں جب کہ گیٹنگ اوور بریک اپ کے تقریباً 90 لاکھ ہیش ٹیگ بن چکے ہیں۔

انٹرنیشنل کوچنگ فیڈریشن کے مطابق ریلیشن شپ کوچنگ جس میں بریک اپ کوچنگ بھی شامل ہے اب سالانہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی انڈسٹری بن چکی ہے۔

Short presentational grey line

سِیسی وکیل

ارونکے یاد کرتی ہیں کہ ان کو کئی لوگوں نے کہا کہ انھوں نے کیریئر پر زیادہ توجہ دی اسی لیے ان کی شادی ٹوٹ گئی۔

وہ یاد کرتی ہیں کہ جب ان کے والدین کا رشتہ ختم ہوا تھا تو اس وقت بھی سب نے ان کی ماں سے ہی سوال کیا تھا کہ وہ ایسا کیا کر سکتی تھیں کہ ان کے شوہر کی ان میں دلچسپی نہ ختم ہوتی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’سوسائٹی عورتوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ایسے رشتے میں بندھی رہیں جس میں وہ خوش نہیں ہیں حتی کہ ان کو بدزبانی سہنی پڑتی ہے۔ معاشرہ عورتوں کو ایسا کوئی راستہ فراہم نہیں کرتا جس سے وہ ایسے رشتے سے نکل سکیں اور ایک خوشحال زندگی گزار سکیں۔‘

اس دن جب میری کی والدہ کی شادی قانونی طور پر ختم ہونی تھی، ارونکے نے فیصلہ کیا کہ وہ لوگوں کو اپنے رشتے عزت دارانہ طریقے سے ختم کرنے میں مدد کریں گی۔

اگلے کئی سال انھوں نے خاندانی قوانین اور رشتوں کی کونسلنگ پر دھیان دیا۔

ان کے دوستوں نے ان کو سِیسی وکیل پکارنا شروع کر دیا۔ اب ان کو ’سِیسی وکیل یا بریک اپ کونسلر‘ کہا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’شادی کے بعد عارضی علیحدگی سے باہمی تعلقات میں تازگی اور پیار کا احساس ملا‘

کیا آپ واقعی کسی سے محبت کرتے ہیں یا یہ صرف ہوس ہے؟ فرق کیسے معلوم کیا جائے

خواتین کے لیے دوسری شادی بہتر یا تنہا زندگی گزارنے کا راستہ

بریک اپ وکیل

2022 میں کوئی بھی دن ان کے لیے عام دن نہیں ہوتا۔

40 سالہ پیشہ ورانہ تجربے کے بعد اب وہ روزانہ صبح اٹھتی ہیں تو ان کو ایسی خواتین کے پیغامات دیکھنے کو ملتے ہیں جو رشتہ ختم کرنا چاہتی ہیں۔

اب ان کا شمار ایک ایسے وکیل کے طور پر کیا جاتا ہے جو لوگوں کو رشتے کے ختم ہونے کی تکلیف سے نکلنے میں مدد دیتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’بریک اپ وکیل آپ کی مدد کرتا ہے تاکہ آپ کو زندگی کے ایک تکلیف دہ حصے کو یاد کرتے ہوئے کوئی ملال نہ ہو۔‘

لیکن یہ ایک ایسا کاروبار ہے جو خفیہ پردے میں چھپا ہوا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے ایسے لوگوں کے پیغامات بھی آتے ہیں جو سوشل میڈیا پر مجھے فالو نہیں کرتے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب بھی لوگ تعلق ختم کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔‘

اس کے باوجود ٹوٹے ہوئے دل کو سنبھالنے کی مارکیٹ پروان چڑھ رہی ہے۔

ارونکے تین سیشنز کے 366 ڈالر لیتی ہیں یعنی فی سیشن تقریباً 122 امریکی ڈالر۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے دو ہفتے نہایت اہم ہوتے ہیں۔

وہ اپنے کلائنٹس کو کھل کر رونے اور اپنے سابقہ ساتھی کو سوشل میڈیا پر ان-فالو کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ کہتی ہیں کہ ’ایک قریبی دوست ہونا چاہیے جو آپ کو اپنے سابقہ ساتھی کا فون اٹھانے سے روک سکے۔‘

’آپ کا ذہن آپ کے ساتھ کھیل کھیلتا ہے کہ آپ ایسا کیوں محسوس کر رہے ہیں اور آپ کو لگتا ہے شاید آپ کو ضرورت ہے کہ آپ اپنے سابقہ ساتھی سے بات کریں۔‘

’آپ اس پر دھیان نہ دیں۔ ضروری ہو تو اپنا فون اپنے دوست کے حوالے کر دیں۔‘

اپنے سابق ساتھی کا نام بدل دیں

بریک اپ

ان کا ایک غیر معمولی مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنے سابقہ ساتھی کا نام تبدیل کر دیں۔

’اگر اس کا نام سٹیون ہے، تو اس کو رابرٹ پکاریں۔ اس سے آپ کو کم غصہ آئے گا اور آپ زیادہ بہتر طریقے سے اس کے بارے میں سوچ سکیں گے۔‘

ارونکے اپنے کلائنٹس کو یہ بھی بتاتی ہیں کہ طویل المدتی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔

’اکثر پیسہ اور پراپرٹی بھی رشتوں کے درمیان آ جاتی ہے۔ ان کو الگ الگ رکھنا چاہیے۔‘

ان کو آن لائن تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جہاں لوگ کہتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ یہ عورت خاندان توڑنا چاہتی ہے کیوں کہ یہ خود طلاق یافتہ ہے۔

ان کو ان باتوں سے فرق نہیں پڑتا۔ اب ان کا ایک پارٹنر بھی ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ اگر میں اکیلی بھی ہوتی تو مجھے فرق نہیں پڑتا۔

’میں ہر حال میں خوش ہوں۔ کیا ایسا ہی نہیں ہونا چاہیے؟ کبھی کبھار ایک تعلق ٹوٹ جانا آپ کو جگا دیتا ہے کہ آپ مستقبل میں بہتر تعلقات قائم کرنا سیکھ سکیں۔‘

بریک اپ ایکسپرٹ کا مشورہ

ارونکے کی جانب سے مختصراً یہ مشورے دیے گئے:

  • دل کھول کر روئیں۔ رونے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور تکلیف کم ہو تی ہے۔
  • کم از کم دو ہفتوں تک اپنے سابق ساتھی کو فون یا ٹیکسٹ مت کریں۔
  • اپنے کسی دوست یا خاندانی عزیز سے تعلق مضبوط کریں جس سے آپ اکثر رابطہ کر سکیں۔
  • یاد رکھیں کہ اس وقت آپ رنج کی کیفیت میں ہیں اور آپ کا سابق ساتھی بھی۔ یہ ایڈجسٹمنٹ کا وقت ہوتا ہے۔
  • اپنے سابق ساتھی کو نیا نام دیں۔ جب بھی اس کے بارے میں بات کرنا ضروری ہو تو اسے نئے نام سے پکاریں۔ اس سے آپ کو اس کے بارے میں سوچ کر کم غصہ آئے گا۔
  • اس کا سوشل میڈیا پر پیچھا کرنا چھوڑ دیں۔ یہ وقت اس بات کا نہیں کہ آپ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کیا وہ آپ کے بغیر خوش ہے یا نہیں۔
  • ایک ایسے وقت میں جب آپ ڈپریشن کا شکار ہوں تو اکثر مضر صحت کھانے کھانے کا دل کرتا ہے لیکن اپنی صحت کے بارے میں سوچیں، اپنی خوراک کا خیال رکھیں اور ورزش کریں۔
  • اکثر تعلقات میں پیسہ یا وسائل مشترکہ ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنے مالی وسائل کا جائزہ لیں اور اگر ضروری ہے تو ان کو از سر نو ترتیب دیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments