فرائیڈ کا نظریہ لاشعور اور تحلیل نفسی


بعض مصنفین نے اس امر پر زور دیا ہے کہ لاشعور فرائیڈ کی دریافت نہیں، اور نہ ہی یہ اصطلاح اس کی وضع کردہ ہے۔ بلکہ یہ تصور اور اصطلاح دونوں فرائیڈ سے پہلے تحریر میں آ چکی تھیں۔ جرمنی، انگلینڈ اور فرانس میں کم از کم پچاس ایسے مفکر اور اہل موجود تھے جن کی تحریروں میں 1680 سے لے کر 1880 تک لاشعور کی دریافت کے عمل کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ ان دو سو سالوں میں لاشعور کا وجود ثابت کر دیا گیا تھا۔ انیسویں صدی میں تو صرف اس کے تشکیلی عناصر دریافت کیے گئے۔

گوئٹے ایک عہد ساز شخصیت تھی۔ وہ بنیادی طور پر تو شاعر تھا لیکن فلسفے سے لے کر سائنس تک اس کی دلچسپیوں کا میدان بہت وسیع تھا۔ گوئٹے شعور اور لاشعور کو قابل تفہیم سمجھتے ہوئے انھیں ایک ہی وقوعے کے دو پہلو سمجھتا تھا۔ شیلر، گوئٹے کا گہرا دوست تھا اور اپنے وقت کا اہم ترین شاعر اور ڈراما نگار تھا۔ اس نے فرائیڈ اور تحلیل نفسی سے ایک صدی قبل یہ اعلان کر دیا تھا کہ شاعری لاشعور سے پھوٹتی ہے۔ فرائیڈ سے قبل لاشعور کی یہ دو نمائندہ مثالیں ہیں۔

لیکن ایسا نہیں ہے کہ صرف یہی لاشعور اور اس کے عوامل سے واقف تھے۔ بلکہ ان کے علاوہ بہت سے دیگر تخلیق کار، فلاسفر اور بعض صورتوں میں تو طبیب اور سائنس دان بھی لاشعور کے وجود کے بارے میں سوچ اور لکھ رہے تھے۔ فلاسفروں، صوفیوں اور شعرا کے لاشعور کے بارے احساسات نے صدیوں کا فاصلہ طے کیا، تو لاشعور کا تصور نفسیات اور سائنس کی دنیا میں واضح تر صورت اختیار کر گیا۔ اس ساری بحث سے فرائیڈ کی اہمیت کو کم کرنا مقصود نہیں ہے۔ صرف اس امر کا احساس دلانا ہے کہ فرائیڈ سے مدتوں پہلے بے شمار لوگ لاشعور کے بارے میں اظہار خیال کر چکے تھے۔

فرائیڈ کو نفسیات سے بے پناہ محبت تھی۔ فرائیڈ نے تمام عمر اس کے لیے وقف کر دی۔ اس نے نفسیات کو جن نظریات اور مسائل اور موضوعات سے روشناس کروایا ان کی اہمیت زمانے کے ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ فرائیڈ سے بہت پہلے مفکرین لاشعور سے آگاہ تھے۔ لیکن فرائیڈ کی جدت فکر نے نئی راہوں کی طرف اشارہ کیا۔ اور آج لاشعور فرائیڈ کے ساتھ یوں منسوب ہو گیا ہے جیسے فرائیڈ کا تخلص ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرائیڈ نے پہلی مرتبہ لاشعور کے تصور کی نفسیاتی اصولوں کے مطابق تفہیم ہی نہ کی بلکہ لاشعور میں دبائی جانے والی خواہشات کا جنسی پس منظر بھی تلاش کیا۔

فرائیڈ نے خوابوں کی تشریح کے لیے بھی جنس کو بنیاد قرار دیا۔ اس کے خیال میں ایڈی پس الجھاؤ Odipus Complex کی رو سے بچے کو اپنی ماں سے جنسی لگاؤ ہوتا ہے اور وہ باپ سے رقابت محسوس کرتا ہے۔ اسی سے طفلانہ جنسیت کے نظریے نے جنم لیا۔ فرائیڈ نے جنس پر تحلیل نفسی کے نظریے کی عمارت کھڑی کی۔ اور اسی کے بارے میں شدید ردعمل کا اظہار بھی ہوا۔ ورنہ محض لاشعور سے کسی کو چڑھ نہ ہو سکتی تھی۔ لاشعور تو ایک عرصے سے علمی بحث کا حصہ رہا تھا۔

یوں دیکھا جائے تو فرائیڈ کی شہرت اور بدنامی کا سب سے بڑا سبب جنس کا نظریہ بنتا ہے۔ معاشرے نے اس فطری ضرورت کو جس طرح سے دبا رکھا تھا، اور ان سے وابستہ تقاضوں کی تکمیل میں رکاوٹوں کی جو دیواریں تھیں فرائیڈ کے نظریات براہ راست ان سے متصادم ہوئے۔ عام لوگوں کے ذہن میں جنس سے مراد صرف وہی کارکردگی تھی جس کا مرکزی نقطہ جنسی فعل ہے۔ اس لیے عام لوگوں کے لیے یہ لفظ ہوا بنا ہوا تھا۔ اور اس کے استعمال میں اچھا خاصا تکلف برتا جاتا تھا۔

فرائیڈ کی تعلیمات کا مرکزی نقطہ تحلیل نفسی ہے۔ اور باقی سب نظریات مثلاً جن میں ایڈی پس الجھاؤ، لاشعور کی تشریح، خوابوں کی تعبیر، طفلانہ جنسیت وغیرہ شامل ہیں۔ فرائیڈ نے جنس اور لاشعور پر سب سے زیادہ کام کیا۔ شروع میں فرائیڈ کا خیال تھا کہ لاشعور صرف ان نا خوش گوار تجربات سے وابستہ ہے جن سے فرد کا واسطہ پیدائش کے بعد پڑتا ہے۔ لیکن بعد میں اس نے طفلانہ جنسیت کا نظریہ پیش کیا تو اس میں بھی ترمیم کر کے فرد کے تجربات میں پیدائش سے قبل کے دور کو بھی شامل کر لیا۔

نظریہ لاشعور کے ضمن میں فرائیڈ سے قبل اور اس کے بعد بھی ماہرین نفسیات لاشعور کی اصطلاح استعمال کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان سب کا اپنا اپنا مخصوص مفہوم تھا۔ جہاں تک فرائیڈ کا تعلق ہے تو لاشعور اس کے طریقہ علاج یعنی تحلیل نفسی سے وابستہ ہے۔ تحلیل نفسی اس طریقہ علاج کا نام ہے جسے اعصابی مریضوں کے علاج کے لیے فرائیڈ نے وضع کیا۔ اس کی اساس لاشعور اور خواب وغیرہ کی تشریح پر استوار ہے۔ اور اس میں جنس اور اس کے مختلف مظاہر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

فرائیڈ کی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ اس نے تحلیل نفسی کے طریق کار کے ذریعے لاشعور کو سائنسی بنیادوں پر سمجھایا۔ اس سے قبل جب شاپن ہار، حارث مان اور بعض دوسرے حضرات نے لاشعور کے بارے میں لکھا تو ان کا نقطہ نظر فلسفیانہ تھا اور ان کا رویہ غیر سائنسی تھا۔ جبکہ فرائیڈ نے ان سب کے برعکس ایک سائنس دان کی طرح اسے کلینک کی چیز بنا دیا۔ اور عملی زندگی میں اس کا رشتہ استوار کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments