انسان یعنی اشرف المخلوقات


مشتاق احمد یوسفی کے بقول؛
” عمر، ضمیر اور جوتے کی مانند ہے۔ ان کی موجودگی کا احساس تبھی ہوتا ہے جب یہ تکلیف دینے لگیں“ ۔

جہاں تک عمر کا تذکرہ ہے تو عمر پہ جو عناصر متواتر طور پر اثر انداز ہوتے ہیں، ان میں ایک انسانی یاداشت بھی ہے۔ انسان فطرتاً اور جبلتاً ہر لحظہ خوف کا شکار ہے۔ میری نظر میں یہ اس اشرف الحیوانات کی خود غرضی ہے کہ وہ فطرت کو ہمیشہ اس طبقۂ اسباب میں پرکھتا ہے جو ”انگور کھٹے ہیں“ پر منتج ہوتے ہیں۔ اب یہ کہنا کہ یہ متکبرانہ تعصب بھی انسان کی سرشت میں رکھا گیا ہے، سراسر جہالت ہے۔ ہماری طرح کے باقی حیوانات موت سے نہیں ڈرتے۔

ان کو بھوک سے کوئی خوف نہیں ہے۔ آنے والے لمحے پر انحصار ان کے ہاں ناپید ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس باشعور حیوان سے مختلف ہیں۔ دوسرے جانوروں سے حضرت انسان کا تقابل میں اس لیے کر رہا ہوں کہ ان کا اور انسان کا سلسلۂ ارتقاء قریب قریب ایک جیسا ہی ہے۔ اگر ایک جنون زدہ شخص کو یہ کہا جائے کہ کل تم مر جاؤ گے، تو یقیناً وہ یہی جواب دے گا ”یہ مر جانا کسے کہتے ہیں“ ۔ یا اگر کہا جائے کہ ”صبح سے تم بھوکے ہو“ تو غالباً اس کو بھوک کی پہچان نہیں ہوگی۔ لیکن اس کے باوجود وہ کھانا ڈھونڈ کے پیٹ بھر لے گا۔ بالکل یہی معاملہ گائے، بھینسوں کے ساتھ ہے۔ فرق صرف اور صرف اس دماغ کا ہے۔ بات ہو رہی تھی عمر کی۔ تو پاکستان کی عمر، بفضل تعالیٰ، پون صدی سے بڑھنے کو ہے۔

پاکستان کی اکثریت کے وجود کا یہ حصہ جسے دماغ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، بوجہ کثرت استعمال، سالمیت کی آخری حدوں کو عبور کر رہا ہے۔ کبھی چند لوگ اکٹھے ہو کر، چند روز میں، خود میں سے ایک احمق کو سربراہی کی کرسی پر بٹھا دیتے ہیں، تیس سال تک پیٹ و ذریت کے خدمت گار خاندان کو غیر ملک سے پاکستان پر دوبارہ قربان ہونے کے لیے ’طمعستان‘ کا مالک بنا دیتے ہیں، تین پشتوں سے چلے آرہے ’دولتستان‘ کے وفاداروں کو ایک بار پھر قومی و سیاسی جنگ میں دھکیل دیتے ہیں، سب سے بڑھ کر، صدیوں سے ورثہ میں ملے گرم و پارسا، خون و دل کے حامل علمائے کرام کو تخت و جنت کا چسکا چڑھا دیتے ہیں، سیکولر لبرلز کو، سوشلسٹس کمیونسٹس کو، آئیڈیلسٹس مٹیریلسٹس کو، اور ہیومنسٹس اینٹی۔ ہیومنسٹس کو، وجہ نظام خراب کا الزام دیتے ہیں۔

لیکن یوٹیلٹی اسٹور کے باہر پاؤں تلے ابدی نیند سوئی بوڑھی اماں زندگی کو ’گھی‘ پر قربان کر دیتی ہے، قصبے کی ہر دوسری جھگی کی ہر دوسری چودہ سالہ ماں اپنی مامتا کو دو نوالوں پر نثار کر دیتی ہے، چار کوٹھوں والے مکان میں ہزاروں آرزوئیں باپ کی نچڑتی ہڈیوں کی نذر ہو جاتی ہیں، بہن کا جہیز خریدنے کے بجائے وہ نوجوان غیرت سے اکڑے جسم کو ٹرین کے کھردرے پہیوں پر قربان کر دیتا ہے، ایک ہزار میں دھرنے سے خریدی ہوئی دلھن کی لاش دریا میں تیرتی ملتی ہے، تین سالہ طفل زشت رو کے کاسے میں تین سالہ طفل نیاز مند دس کا نوٹ ڈالتا ہے۔ یہ سب رات چھپ چھپ کر خدا کو کوستے ہیں، اگر کسی اور نے سن لیا تو نا مولود ’بال و پر‘ تن سے جدا ہو جائیں گے۔ مگر خدا بھی تو کوئی جواب نہیں دیتا۔ اس کی دنیا میں منافقت و موافقت کی بھی تو تمیز ہے! یہ کاسۂ گردوں تو ان ننھے ہاتھوں میں ننھے کشکول کے آگے ہیچ ہے۔

لیجیے اس کے خلیفہ کے چناؤ کا وقت آن پہنچا ہے۔ ہر سرکاری اسکول میں وہیل چیئر پر، بوڑھی اماں کو سرکاری اہل کار سہارا دے کے لاتے ہیں کہ کہیں ووٹ، زندگی پہ نہ قربان ہو جائے۔

اور پھر دوبارہ ایسی ہزاروں کہانیاں جنم لیتی ہیں جن سے کم از کم ادیبوں کا پیٹ تو بھر جاتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ انسان باشعور ہوتے ہوئے بھی بے شعور ہے تو ’انسان‘ کے بجائے ’دو پایہ حیوان‘ کہنا بجا نہ ہو گا؟ ضمیر اور جوتے کا جوڑ تو صاحب حلم جانتے ہی ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments