جشن آزادی اور ہم سب


چودہ اگست ہر سال پاکستان کے یوم آزادی بلکہ جشن آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اگرچہ برطانوی راج کا سورج برصغیر میں چودہ اگست کی شام کو ہی غروب ہوا تھا۔ اور پاکستان ہندوستان کی آزادی کے ساتھ پندرہ اگست کو معرض وجود میں آیا تھا۔ لیکن کیا کیجئے صاحب، آخر ہمیں ہندوؤں سے کسی نہ کسی معاملے میں تو فرق رکھنا ہی تھا، سو وہ فرق رسوم و رواج میں نہ سہی تاریخ یوم آزادی میں ہی سہی۔ یا پھر طرز حکمرانی میں ہی سہی، فرق تو ہم نے رکھا ہے اور فرق صاف ظاہر ہے۔

خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ واپس اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ تو صاحب جشن آزادی کی آمد آمد ہے۔ علی الصبح ہماری چاق و چوبند افواج 21 توپوں کی سلامی سے جشن کا آغاز کریں گی۔ پھر تو جناب ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق، قوم کے سب پیر و جواں، بچے بچیاں پاکستان کے جھنڈے اپنے مکانوں پر لہرائے اور جھنڈیاں اپنے ہاتھوں میں اٹھائے جشن آزادی پورے جوش و خروش سے منانے میں منہمک ہو جائیں گے۔ چہار سو سے مبارک سلامت کا غلغلہ بلند ہو گا۔

جناب وزیر اعظم اور سالار اعظم قوم سے خطاب فرمائیں گے اور پاکستانیوں کو مبارک باد دیتے ہوئے اس بات پر اطمینان کا اظہار کریں گے کہ دہشتگردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ مزید برآں اس عزم کا اعادہ کیا جائے گا کہ پاکستان کی طرف اٹھنے والی ہر آنکھ کو پھوڑ دیا جائے گا۔ ملک دشمن عناصر کا پاتال تک تعاقب کیا جائے گا، اور ملک کی خاطر کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔ اور قوم اس بات پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ”پاک فوج زندہ باد“ کا نعرہ مستانہ بلند کرے گی۔ اور جشن آزادی میں دامے، درمے، قدمے، سخنے بلکہ سوشل میڈیا کے اس دور میں تو ً ٹویٹر نے ً، ًفیس بکنے ً، اور ًواٹس ایپ نے ً اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالے گی۔ گھر، گھر، گلی، گلی چراغاں ہو گا، بھنگڑے ڈالے جائیں گے۔ ہر طرف خوشیوں کے شادیانے بجائے جائیں گے۔

راولپنڈی اسلام آباد کے لوگ اپنی اپنی گاڑیوں میں مری، گلیات یا کاغان کا رخ کریں گے۔ گاڑیوں کے بونٹ پر ، اور ڈکی پر سبز ہلالی پرچم سایہ فگن ہو گا۔ فل والیوم میں گاڑیوں کے ڈیکس پر بجنے والے، ہم زندہ قوم ہیں۔ اس پرچم کے سائے تلے۔ میرا ایمان پاکستان، اور یہ وطن ہمارا ہے، جیسے ولولہ انگیز ملی نغموں کی گونج سے وطن عزیز کی فضائیں گونج رہی ہوں گی۔ یار لوگ جشن آزادی کی خوشی میں اتنے مگن ہوں گے کہ ٹریفک لینز کا خیال کرنا بھول جائیں گے اور یوں کئی کئی گھنٹوں تک مری جانے والی روڈ پر ٹریفک پھنسی رہے گی۔ مگر ایسا ہونے میں کیا حرج ہے۔ آخر کون سا آج کسی نے دفتر جانا ہے جو کوئی مسئلہ ہو گا۔

آخر کیوں نہ ہو کہ یہ دنیا کے اس واحد مسلمان ملک کا یوم آزادی ہے جس کی بنیاد ایک “نظریے” پر رکھی گئی۔ اور یہی وہ ملک ہے جسے ہم اسلام کا قلعہ سمجھتے اور اس بات پر تہہ دل سے یقین کامل اور اسلامی ٹچ میں حق الیقین رکھتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر بھی فخر ہے کہ یہی وہ ملک ہے جس کا ہر فرد پورے عالم اسلام کا درد اپنے دل کے اندر محسوس کرتا ہے۔ ہم اس ملک کے باسی ہیں جسے فلسطین، چیچنیا، بوسنیا، افغانستان اور کشمیر کے مسلمانوں کا درد ان سے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ اسی ملک کے ایک خفیہ ادارے نے دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور کے حصے بخرے ہونے میں بنیادی کردار ادا کیا، اور افغانستان میں روسیوں کو ذلت آمیز شکست اور پسپائی کا سامنا کرنے پر مجبور کیا۔ تو اس عظیم الشان ملک کا یوم آزادی ہو، اور کوئی جشن برپا نہ ہو، ایسا ہو تو کیوں کر ہو؟

مگر کیا کیجئے صاحب کہ جوش و جذبے کے اس ہنگام میں بھی کچھ ناہنجار، مردود حرم، اور غدار وطن قسم کے لوگ عجیب و غریب اور نامعقول قسم کے سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ذرا دیکھو تو بھلا، یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے کہ او حکمرانو، ایک طرف تو تمہیں ملک سے محبت کا ایسا دعوی کہ گویا تم سے بڑا محب وطن روئے زمیں پر نہیں، اور دوسری طرف کرپشن کے میگا سکینڈلز سے کی جانے والی کمائی سے پوری دنیا میں اپنے ذاتی اثاثے پھیلا رکھے ہیں۔

یہاں ٹیکس یا تو دیتے ہی نہیں یا پھر اربوں کھربوں کی جائیداد پر فقط ہزاروں روپے کا ٹیکس دیتے ہو، اور ٹیکس چوری سے بچائی جانے والی دولت سے آف شور کمپنیاں قائم کرتے ہو، سرے محل خریدتے ہو، لندن کے مہنگے ترین علاقے ایجور روڈ پر فلیٹس کے مالک بنتے ہو۔ چند لاکھ روپے ماہانہ کمانے والے حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلو، تمہارے پاس اتنا پیسا کہاں سے آتا ہے کہ تم ریٹائرمنٹ کے بعد کروڑوں کی مالیت کے ذاتی گھر اور فارم ہاؤسز بناتے ہو؟

پاپا جونز کی فرنچائز لیتے ہو، تمہارے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی کہ تمہارے بچے اربوں کھربوں کا بزنس کرتے ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ تم لوگ جن کا اصل کام دفاع وطن ہے، وطن کے دفاع کو چھوڑ کر باقی ہر طرح کا کاروبار کرتے ہو۔ کیوں تمہارے ادارے کے نام کے ساتھ انکارپوریٹڈ کا لفظ ایک دشنام کی طرح استعمال ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ایک طرف تو تم نے مشرقی پاکستان میں شرمناک شکست کھائی، سیاچین گلیشیر اپنے ہاتھ سے گنوا دیا اور کسی کے اعتراض کرنے پر تمہارے سالار اعلی نے بیان داغ دیا کہ سیاچین اگر ہمارے ہاتھ سے چلا گیا تو کیا ہوا، وہاں تو گھاس کا پتہ بھی نہیں اگتا۔ اور دوسری طرف تم نہایت کامیابی سے اپنے فاؤنڈیشن کے نام سے پاکستان کا سب سے بڑا کاروباری گروپ بنا کر ہر طرح کا کاروبار کر رہے ہو۔ بینکنگ، رئیل اسٹیٹ، کیمیکلز، پاور پروڈکشن، سیمنٹ، گندم، غرض یہ کہ ہر کام میں تم نے ہاتھ ڈال رکھا ہے بس ایک وہ نہیں کر رہے جو تمہارا اصلی کام ہے۔

تم نے کیوں پرائے پھڈوں میں ٹانگ اڑا کر خود کو اور ہم عوام کو اس دلدل میں پھنسا دیا جہاں سے ہم آج تک 50، 000 سے زائد جانوں کا نذرانہ دے کر بھی نہیں نکل سکے۔ تمہارے بنائے ہوئے سٹریٹجک ایسٹس الٹا ہمارے لئے لائبیلٹی بن کر رہ گئے ایسی لائبیلٹی جس نے ہمارے ملک کی بیلنس شیٹ کو ایک طویل عرصے سے غیر متوازن کر رکھا ہے۔

آخر ایسا کیوں ہے کہ دنیا کی نمبر ون انٹیلی جنس ایجنسی کے ملک میں دہشت گرد اتنے طاقتور ہو گئے کہ وہ ایس ایس جی، نیوی، اور فضائیہ کی تنصیبات پر ایسے آرام سے حملہ آور ہوتے رہے ہیں جیسے اپنے گھر میں کسی قسم کی ریہرسل کر رہے ہوں۔ یہاں تک کہ جی ایچ کیو تک ان کی دست برد سے محفوظ نہ تھا، دہشت گردوں کا جب، جہاں، جیسے دل چاہا، وہاں وہاں، ویسے ویسے انہوں نے حملہ کیا۔ جیلوں سے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کے لئے سو سو لوگوں کی بارات لے کر آتے تھے، اور بڑے آرام سے اپنے مطلوبہ افراد کو دولہے کی طرح جیل سے رخصت کرا کے لے جاتے۔

اور اس تمام واقعے کی بڑے آرام اور سکون کے ساتھ وڈیو بنا کر ہم عوام کی تفریح طبع کے لئے سوشل میڈیا پر ریلیز بھی کر دیتے تھے۔ کیسے آپ کی قید سے احسان اللہ احسان جیسے ننگ انسانیت فرار ہو جاتے ہیں؟ پھر کوئی بتائے گا کہ ان حالات میں ان ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال اٹھانا کیا اتنا ہی ناقابل معافی جرم ہے جس کی پاداش میں سلیم شہزاد جیسے مشہور و معروف صحافی کو دن دیہاڑے اٹھا کر غائب کر دیا جائے اور پھر اس کی لاش کسی سڑک پر پڑی ہوئی ملے؟

ہمارے کان یہ سن سن کر پک گئے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے، مگر یہ کیسی کمر ٹوٹی کہ اس کے بعد بھی کوئٹہ کا سانحہ رونما ہو جاتا ہے، جس میں لگ بھگ سو معصوم اور بے گناہ افراد لقمہ اجل بنتے ہیں، اور سینکڑوں زخمی ہو جاتے ہیں۔ یہ واقعہ اور دہشت گردی کی تازہ ترین لہر جس میں سوات میں طالبان پھر زور پکڑتے نظر آتے ہیں، اس دعوے کی قلعی کھول کے رکھ دیتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب ملک شدید ترین مالیاتی اور معاشی بحران کا شکار ہے، اور ہر ممکن صورت قومی خزانے پر بوجھ کم سے کم تر کرنے کی ضرورت ہے، تو ہم لاکھوں کروڑوں قومی ترانے کی ری میکنگ میں لگا دیتے ہیں؟ اس کی کیا تک ہے؟ ہم سے اپنے بچے تو ٹھیک سے پڑھائے جا نہیں سکتے اور دعوی ہے کہ ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے؟ چہ معنی دارد؟

اب آپ یہ ایمان سے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا ایسے سوالات کا کوئی سر پیر بھی ہے؟ ایسے سوالات جن کے جوابات دینے والا سیدھا سیدھا تحفظ پاکستان آرڈیننس جیسے قوانین کے گرفت میں آ جائے۔ اور اس بات میں تو کسی قسم کے شک کی گنجائش ہے ہی نہیں کہ ایسے سوالات اٹھانے والے یہود و ہنود اور نصاری کی سازشوں کے شریک کار ہیں جن کا مقصد ظاہر ہے پاکستان میں فکری انتشار کو ہوا دینا اور حکومت اور دیگر ریاستی اداروں، خصوصاً ملکی سلامتی سے متعلقہ اداروں کو بدنام کرنا ہے۔

ایسے عاقبت نا اندیشہ، خرد سے بے بہرہ، اور اغیار کی سازشوں کے تار عنکبوت میں گرفتار لوگ، حکومتی عہدے داروں اور ریاست کے دفاعی اداروں پر ہی سوال کناں نہیں، بلکہ وہ تو عام شہری سے بھی سوال کرنے سے باز نہیں آتے۔ کہتے ہیں کہ تمہاری وطن کی محبت اس وقت کہاں سو رہی ہوتی ہے جب تم اپنے ذاتی مفادات کے لئے ملک کا نقصان کرنے سے باز نہیں آتے۔ ٹیکس چراتے ہو، ملکی قوانین کا احترام نہیں کرتے، رشوت لینا اور دینا تمہارے لئے معمول کی بات ہے۔

اپنے گھر کا گند نکال کر باہر گلی میں پھینک دیتے ہو، جیسے کہ گلی کسی دشمن ملک کا علاقہ ہو، اسی ملک کا حصہ نہیں۔ اپنے سیاحتی علاقوں میں جاتے ہو تو وہاں کا قدرتی حسن بھی اپنے گند پھیلانے والی عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر تباہ کر آتے ہو۔ سیف الملوک اور لولو سر کی جھیلیں بہ زبان خاموشی کب سے تمہاری لاپرواہی اور غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کا نوحہ پڑھ رہیں ہیں مگر ان کی سنتا کون ہے؟ تم اس ملک سے صرف اپنے لئے شہریوں والے حقوق مانگتے ہو مگر شہری ہونے کے ناتے جو فرائض تم پر عائد ہوتے ہیں ان کا کوئی خیال تک تمہیں نہیں آتا۔ بجلی چوری تم کرتے ہو، اشیائے خورد و نوش میں زہریلے کیمیکلز کا استعمال تم کرتے ہو، مردار جانوروں کا گوشت اپنے ہی دینی بھائیوں کو بیچ دیتے ہو، زندگی بچانے والی ادویات تک میں ملاوٹ کرنے سے باز نہیں آتے، اور پھر دعوی کرے ہو ملک سے محبت کا ؟ ایسے ہوتی ہے ملک سے محبت؟

اب ان ذہنی بیمار، قنوطیت کا شکار، اور انتہائی بے کار قسم کے لوگوں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ بھائی تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ تمہاری آنکھوں میں حکمرانوں کے سرے محل، اور لندن میں فلیٹس یا آف شور کمپنیاں کیوں کھٹکتے ہیں؟ اب سرے محل والوں کو ہی لے لو، ان کی اس ملک کے لئے قربانیوں کا کوئی اندازہ ہے؟ باپ نے ایک آمر کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا اور پھانسی کا تختہ اس کا مقدر بنا اور بیٹی نے دوسرے آمر کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جمہوریت کی بحالی یا صاف الفاظ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کی کوششوں میں جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔

ان کی ایسی قربانیوں کا صلہ تم اس طرح کے سوالات کر کے دو گے، دو ٹکے کے احسان فراموش لوگو۔ آف شور کمپنیوں والوں کی دولت سے جلنے والو، ذرا ایک لمحے کے لئے دل پر ہاتھ رکھ کر پوری ایمانداری اور سچائی سے کہو، کہ اگر تمہیں موقع ملے تو کیا تم کرپشن سے یا ٹیکس چوری کر کے پیسا نہیں بناؤ گے؟ بناؤ گے نا، تو پھر اگر آف شور کمپنیوں والوں نے بنا لیا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی؟ کیوں آپ کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں؟ مقتدر حلقوں کے پراجیکٹ عمران نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس ملک میں ایماندار وہی ہے جسے بے ایمانی کے مواقع میسر نہیں۔ ورنہ حال وہی ہے کہ:

ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے
ان کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

باقی جرنیلوں کے معاملات کو زیر بحث لانا تو ویسے بھی اب تحفظ پاکستان کے قانون کے تحت قابل سزا جرم ہے سو ان کے معاملے کو ایک طرف ہی رہنے دیں۔ اسپغول تے کجھ نہ پھول۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ہمارے ان اداروں کی وطن کے لئے قربانیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اور اب اگر کچھ لوگ ان قربانیوں کے عوض تھوڑا بہت فائدہ اٹھا بھی لیں تو کیا حرج ہے۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کے احسانات کو کبھی نہیں بھولتیں۔

تو جناب آئیے ہم سب مل کر اپنے پیارے وطن کا جشن آزادی منائیں۔ بھول جائیں کہ کشمیر کی جداگانہ حیثیت کے ساتھ بھارت وہی کچھ کر چکا ہے جو ہم نے گلگت بلتستان کے ساتھ بہت پہلے کر دیا تھا، اور جو نام کے آزاد کشمیر کے ساتھ اب کرنے جا رہے ہیں۔ اس بات سے بھی نگاہوں چرا لیں کہ بلوچستان میں پچھلے چھے سات سالوں میں تقریباً ہزار لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں دریافت ہوئیں۔ جس ملک میں ایک صوبے سے ملنے والی ایک ہزار لاشوں پر آپ سے ایک سوال بھی نہ پوچھا گیا، وہاں اور کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔

سو، آئیے جھنڈے اٹھائیں، آزادی کے ترانے گائیں، رجیم چینج کے نعرے کے پیچھے اپنی نا اہلیاں چھپائیں، پراجیکٹ عمران فیل ہونے پر بغلیں بجائیں اور آزمائے ہوؤں کو پھر سے آزمائیں اور منہ کی کھائیں، اس ملک کو مقتل بنانے والوں کا جشن منائیں۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے ضمیر کی قید سے آزاد، بلکہ مادر پدر آزاد ہونے کا جشن منائیں۔

مظفر حسین بخاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مظفر حسین بخاری

ایم ایچ بخاری ڈیویلپمنٹ پروفیشنل ہیں اور ایک ملٹی لیٹرل ترقیاتی ادارے سے منسلک ہیں۔ کوہ نوردی اور تصویر کشی ان کا جنون ہے۔ مظہر کے تخلص سے شعر کہتے ہیں۔

muzzafar-hussain-bukhari has 19 posts and counting.See all posts by muzzafar-hussain-bukhari

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments