فرتاش سید کا ایک خط ساحر شفیق کے نام


ساحر شفیق نے فرتاش سید کو خط لکھا اور پوسٹ کرنے کے لیے منور آکاش کو دیا۔ منور آکاش جناب رفعت عباس کا ناول ”لونڑ دا جیون گھر“ سرائیکی سے اردو میں ترجمہ کر رہے تھے۔ انہوں نے خط مسودے کے ساتھ رکھ دیا، اور سو گئے۔ منور آکاش چونکہ ایک خوب رو جوان ہیں لہٰذا بھابھی ان پر کڑی نظر رکھتی ہیں، اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں، کہ منور آکاش تو پھر منور آکاش ہیں، میں نہ خوب رو ہوں نہ جوان، پھر بھی زوجہ محترمہ کی ایسی کڑی نگرانی ہے کہ لفظ ”مونث“ بھی لکھ دوں، تو مخنث ہونے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔

ہماری تو پھر بھی خیر ہے۔ جناب مبشر مہدی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی زندگی کا واحد مقصد ایک مظلوم شوہر بننا تھا، جس میں وہ پوری طرح سے کام یاب رہے۔ ایک روز سید عامر سہیل نے ان سے دریافت کیا کہ مبشر اتنا مسئلہ ہے تو دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ مبشر مہدی نے جواب دیا کہ شادی ایک بھی بہت ہوتی ہے۔ توقع کے برخلاف سید عامر سہیل نے ان کی تائید کی۔

منور آکاش چونکہ ایک خوب رو جوان ہیں لہٰذا بھابھی نے لیٹر کو لوو لیٹر سمجھ کر لفافے سے باہر نکالا۔ ملزم کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کی خواہش، ازدواجی محبت پر اس درجہ غالب تھی، کہ منور کو باعزت بری ہوتے دیکھ کر ان کا موڈ آف ہو گیا۔ اسی دوران منور نے کروٹ بدلی تو بھابھی نے خط کو لفافے میں بند کرنے کے بجائے ناول کے مسودے میں رکھ دیا، جو اگلے روز جوں کا توں ٹائپ ہو کر ناول کا باضابطہ حصہ بن گیا، اور جسے بعد ازاں ناصر عباس نیر نے نوآبادیاتی تھیوری میں ایک مقداری جست قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس خط کے وسیلے مقامی نقطہ نظر کی ایسی تفہیم سامنے آئی ہے، جو اچیبے اور مارکیز تو دور، خود فرانز فینن اور عبدالستار تھہیم کو بھی نصیب نہیں ہوئی۔

ادھر فرتاش سید کو خالی لفافہ موصول ہوا تو وہ کافی دنوں تک اس کی علت و معلول پر غور کرتے رہے، مگر کسی نتیجے تک نہ پہنچ پائے۔ ایک روز اسی پریشانی میں شراب طہور کے چھے جام لنڈھا گئے تو غلمان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اور تو کچھ سمجھ نہ آیا، ان کے استاد جون ایلیا کو بلا کر لے آئے۔ جون نے پریشانی کا سبب دریافت کیا تو فرتاش نے دل کھول کر رکھ دیا۔ استاد پہلے تو خوب ہنسے۔ پھر انکشاف کیا کہ زاہدہ حنا اور علی زریون بھی انہیں ایسے ہی خطوط بھیجتے ہیں، اور وہ جواباً انہیں اپنی شاعرانہ و شبانہ سرگرمیوں کا احوال لکھ کر بھیج دیتے ہیں، تاکہ ان سے محبت کرنے والے ان کے کوائف سے آگاہ رہیں۔

کچھ دنوں بعد فرتاش نے ساحر کو ایک جوابی خط لکھا، جو مواصلاتی خرابی کے باعث ساحر کے بجائے مجھے موصول ہوا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ ساحر اس خط کو پڑھ کر منور آکاش سے خفا جائے گا، اس لیے کافی عرصے تک اسے چھپائے رکھا، مگر اب وقت آ گیا ہے کہ فرتاش کے چاہنے والوں کی خاطر اسے پبلک کر دیا جائے۔

ساحر میری جان!

جب سے تمہارا خالی لفافہ موصول ہوا ہے، تب سے یہی سوچ رہا ہوں کہ تمہیں اپنی سرگرمیوں سے آگاہ کروں، مگر یہاں کی زندگی اتنی برق رفتار ہے کہ سر کھجانے کی فرصت نہیں۔ جب میں یہاں پہنچا تو کافی پریشان تھا۔ میرا خیال تھا کہ تمام دوست اور بزرگ شعراء جہنم میں ہوں گے، لیکن اگلے ہی دن میرے اعزاز میں ایک عالمی مشاعرہ منعقد ہوا تو ان سب کو اکٹھا دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ بیان نہیں کر سکتا۔ خواجہ میر درد، الطاف حسین حالی اور علامہ اقبال کی حد تک تو ٹھیک تھا، لیکن عدم، جوش اور یاس کو دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کیا عجب کسی روز وہی وہانوی، جرات اور چرکین سے بھی ملاقات ہو جائے!

عالمی مشاعرے کے بعد پاکستانی اور پنجابی مشاعرہ بھی منعقد ہوا مگر اصل لطف ملتانی مشاعرے میں آیا۔ میں نے موقع کی مناسبت کو مد نظر رکھتے ہوئے، ”مجھ کو شراب پی گئی“ والی غزل پڑھی تو حاضرین پر ایسا وجد طاری ہوا کہ حوروں کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ کرسی صدارت پر موجود عاصی کرنالی تو اتنے بے خود ہوئے کہ انہوں نے ایک چلبلی حور کے مغالطے میں جناب اصغر علی شاہ کے گال چوم لیے۔ ایک دم کہرام مچ گیا۔ خانوادہ سادات کے شعرا قلم سونت کر کھڑے ہو گئے۔

جناب حسن رضا گردیزی غزل اور ہزل چھوڑ کر رجزیہ کلمات پڑھنے لگے۔ حیدر عباس گردیزی، مارکس اور اینگلز کے حوالے دے کر اپنے والد کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ دوسری جناب روہتک اور حصار کے شعرا بھی جناب عاصی کرنالی کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ چونکہ سیاق و سباق سے واقف نہ تھے، لہٰذا بھائی چارے کی اہمیت اور بوسوں کی افادیت بیان کرتے رہے۔ لطیف الزماں خاں، قرہ العین حیدر کے ساتھ خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ شور شرابا سن کر مہمان خانے سے باہر نکل آئے۔

تب تک معاملات ہاتھا پائی اور گالم گلوچ تک جا پہنچے تھے۔ لطیف الزماں خاں نے بہت مشکل سے بلوہ روکا، اور ارشد ملتانی، اقبال ارشد اور نجم الاصغر شاہیا پر مشتمل ایک سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی نے تمام گواہوں کے بیانات سننے کے بعد عاصی کرنالی کو باعزت بری کر دیا۔ اصغر علی شاہ اتنے آزردہ ہوئے کہ انہوں نے عاصی کرنالی اور سہ رکنی کمیٹی کی مذمت میں ایک فی البدیہہ ہجو کہی، اور اگلے کئی مشاعروں میں زبردستی سنائی!

ساحر میری جان، تمہیں اندازہ تو ہو ہی گیا ہو گا، کہ یہاں کا مشاعرہ کلچر کتنا طاقت ور اور زرخیز ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا، جو مشاعرے سے خالی ہو۔ زیادہ تر شعراء ایسے ہیں، جو بن بلائے شریک ہوتے ہیں، اور دو اشعار کا کہہ کر پورا دیوان سنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم مرزا غالب، میر تقی میر اور علامہ اقبال صرف ان مشاعروں میں شریک ہوتے ہیں، جہاں جگر مراد آبادی، ساغر صدیقی اور راحت اندوری نہ ہوں، اور انہیں سب سے آخر میں پڑھوائے جانے کی تحریری ضمانت فراہم کی جائے۔

عرش صدیقی اور ن۔ م۔ راشد کی خاص بات یہ ہے کہ کسی بھی مشاعرے میں نہیں جاتے۔ عرش صاحب نے یہاں بھی ایک اکادمی بنا رکھی ہے، مگر اس کا نام سرائیکی اکادمی ہے۔ پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ پہلے کوئی بھی اس کا ممبر بن سکتا تھا، لیکن جب سے نعیم چودھری صاحب آئے ہیں، اس کی ممبر شپ حاصل کرنے کے لیے خوب پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ میں نے بھی درخواست جمع کرائی تھے۔ ایک دن اتنے پاپڑ بیلے کہ ہتھیلیاں گھس گئیں، لیکن چودھری صاحب کو رحم نہ آیا!

مشاعروں کے ساتھ ساتھ یہاں ہفتہ وار تنقیدی اجلاس اور کتابوں کی تقریب رونمائیاں بھی ہوتی ہیں، مگر ان میں شاعروں سے زیادہ نقادوں اور افسانہ نگاروں کی سنی جاتی ہے۔ نقادوں اور افسانہ نگاروں کی اس لیے بھی زیادہ قدر کی جاتی ہے کہ ایک آدھ کو چھوڑ کر بقیہ تمام جہنم میں ہیں۔ کچھ مشترکہ دوستوں کے ذریعے ان کی خیر خبر ملتی رہتی ہے۔ سنا ہے وہاں انہوں نے ایک ادبی تحریک شروع کی ہے، جسے انہوں نے ”مابعد جہنم“ کا نام دیا ہے۔ مجھے تو ایسے نام بالکل پسند نہیں۔ کتنا عجیب لگے کہ کسی بچے کا نام مابعد ساحر یا پس منور ہو۔ اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ اس کا نام زرافہ یا ہاتھی رکھ دیا جائے!

ابھی کچھ دن پہلے ٹی ہاؤس میں ایک شاعرہ کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں دونوں اطراف کے افراد شریک تھے۔ صدارت جناب ضیاءالحق نے کی۔ سوار خان مہمان خصوصی تھے۔ انور جٹ نے اپنا گھوڑے والا ایکٹ پیش کیا تو سامعین کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔ تقریب کے منتظم اعلی جناب احمد ندیم قاسمی تھے۔ نقابت ڈاکٹر وزیر آغا نے کی۔ حیران ہونے کی کوئی ضرورت نہیں! نیچے کے سب اختلافات نیچے ہی رہ جاتے ہیں، اوپر سب ایک ہیں!

تقریب بہت مزے کی رہی۔ مضامین تو سرسید احمد خان، شبلی نعمانی اور مولانا محمد حسین آزاد بھی لکھ کر لائے تھے، لیکن شمس الرحمان فاروقی اور صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے میلہ لوٹ لیا۔ شاعری تو ایک طرف، خود شاعرہ کی مدح میں ایسی فصیح و بلیغ نثر سن کر محمد رفیع سودا جیسا نامی گرامی قصیدہ گو بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ اسی دوران ایک عجیب بات ہوئی۔ تقریب اپنے پورے جوبن پر تھی کہ اچانک مجید امجد کو شالاط کی یاد آ گئی۔

اس کے فراق میں اتنا روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ یہ انسان بھی عجیب چیز ہے یار! اس کے ناشکرے پن کی کوئی حد نہیں۔ حقیقی جنت میں آ کر بھی خیالی جنت کے تصور کو سینے سے لگائے رکھتا ہے۔ استاد جون نے چپکے سے کان میں بتایا کہ مجید امجد عادی مجرم ہیں۔ پچھلی بار بھی انہوں نے یہی حرکت کی تھی، جس کے باعث تقریب کا اختتام غل غپاڑے پر ہوا۔ اس بار منتظمین ہوشیار تھے، چناں چہ انہوں نے شراب طہور پر پابندی عائد کر دی، لیکن انہیں کیا معلوم مجید امجد کو دودھ بھی موافق ہے!

ساحر میری جان، تم بالکل ٹھیک سمجھے۔ ”پینے“ کے ساتھ ساتھ یہاں ”کھانے“ کی بھی کوئی کمی نہیں۔ دو سو قسم کے تو خالی نرگسی کوفتے اور شامی کباب دستیاب ہیں۔ بریانی ایسی شان دار ملتی ہے کہ ایک ایک چاول کو دیکھ کر یوں گماں ہوتا ہے جیسے اپنی خوب صورتی اور ذائقے کی داد طلب کر رہا ہو۔ لیکن کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کھانا کھانے بیٹھا تو حاجی بابا کا پلاؤ اور لال کرتی کی چانپیں یاد آ گئیں، اور جوں ہی اس میں گول باغ والے خواجے کی چائے مکس ہوئی، تو ایک دم آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یاد ماضی عذاب ہے یارب۔ چھین لے مجھ سے حافظہ میرا!

اچھا میری چھوڑو، اپنی سناؤ؟ ابھی تک سباشا اور ماریہ بونڈ کو یاد کرتے ہو؟ مجھے تو وہ دن بھی یاد ہیں، جب تم نے اداسی کو لباس بنا کر اوڑھ لیا تھا، اور اپنے نام کی جگہ نادیہ لکھا کرتے تھے۔ تم بہت ڈوب کر محبت کرتے تھے یار! کبھی کبھار ڈر لگتا تھا کہ تم اپنی محبت کے دریا میں اتنے گہرے نکل جاؤ گے کہ واپسی کا سفر مشکل ہو جائے گا، لیکن زندگی بہت ظالم شے ہے میرے دوست! یہ ہر بار ہمیں جکڑ کر واپس لے آتی ہے، تاکہ ہم اپنی آنکھوں سے محبت کو مرتا دیکھ سکیں۔ لیکن خالی محبت ہی تو نہیں مرتی، ہماری ذات کا ایک حصہ بھی تو اس کے ساتھ مر جاتا ہے، اور ہم زندگی بھر اس کی قبر پر پھول چڑھاتے رہتے ہیں!

لکھ کیا رہے ہو؟ غزل نگاری، ہائیکو نگاری، نظم نگاری اور افسانہ نگاری کے بعد اب فلم نگاری ہی بچتی ہے، لیکن خبردار اس کی فضا تمہاری نثری نظموں جیسی نہ ہو، ورنہ لوگ تمہیں پورن میکر سمجھیں گے۔ منے کو پیار، وائٹ ٹائیگر کو سلام!

نوٹ: یہاں منے سے مراد، میرا بھتیجا اور منور آکاش دونوں ہیں۔
فقط تمہارا اپنا!
فرتاش


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments