کارل مارکس, فرانز مہرنگ اور شاہ محمد مری


” کارل مارکس کی داستان حیات“ فرانز مہرنگ نے لکھی اور اسے اردو قالب میں ڈھالا، معروف دانشور، مورخ، محقق، انسان دوست، ترقی پسند ادیب ڈاکٹر شاہ محمد مری نے۔ اس کا اردو قالب مجھے کچھ برس پہلے پڑھنے کو ملا۔ اس سے پیشتر مارکس کی زندگی کے بارے میں کئی عبارتیں اور مضامین ملتے تھے لیکن ٹکڑوں میں۔ شاہ محمد مری صاحب کی اس ترجمہ کی ہوئی کتاب کا دوسرا ایڈیشن 2016 میں شائع ہوا اور میں نے اسے غور سے پڑھا کیونکہ کچھ کتابیں قاری کی بھرپور توجہ مانگتی ہیں۔ مطالعے کے بعد بار ہا یہ خیال آیا کہ مترجم کی اس کامیاب کاوش کے بارے میں اپنے تاثرات لکھوں لیکن کارل مارکس اور شاہ محمد مری، دونوں شخصیات کا رعب آڑے آتا رہا کہ کہیں کچھ غلط نہ لکھ بیٹھوں۔ خیر ہمت جٹائی اور چند سطریں لکھ ڈالیں۔

ترجمے کا فن اتنا ہی پرانا ہے جنتی انسان کی سماجی زندگی۔ کرہ ارض کے مختلف باسیوں کے درمیان سماجی تعلق قائم کرنے اور ایک دوسرے کی زبان اور بات سمجھنے کے لیے ترجمہ ہی ایک واحد سہارا ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء میں جہاں بہت سارے عوامل کارفرما رہے ہیں وہیں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ فروغ تہذیب و تمدن میں ترجمے کا بھی بہت بڑا رول رہا ہے۔ اور یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کے سبب ترجمے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ گزشتہ صدیوں میں وحید الدین سلیم، مولوی عبد الحق، ظفر الرحمن دہلوی اور میر حسن کے علاوہ کسی ادیب اور عالم نے ترجمے کو سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن اب چند گنے چنے ناموں میں ڈاکٹر شاہ محمد مری کا نام معروف و مقبول ہے۔

Karl-Marx

زیر نظر ترجمے کے مطالعے کے دوران قاری کا تسلسل بر قرار رہتا ہے اور اسے کہیں بھی اصل متن کی تلاش کی ضرورت نہیں پڑتی۔ شاید فرانز مہرنگ نے بھی اسے کہانی کے رنگ میں ہی لکھا ہو لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس میں ایک داستان گوئی کا سا لطف پیدا کر دیا ہے۔ کہیں بھی ہمیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اصل سے کہیں انحراف کیا گیا ہے۔ مترجم کی یہ گراں قدر کاوش محض ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ ہی نہیں اور نہ ہی متبادل الفاظ کا مجموعہ ہے بلکہ اس سے بہت آگے کی چیز ہے۔

ہم نے اپنے بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ ترجمہ اگر اصل کا کام دینے لگے تو ترجمہ کیوں کہلائے، لازمی طور پر یہ اصل سے کم تر ہو گا لیکن ضرورت یہ کہتی ہے کہ عالمگیر آگہی کا نور اور سرور ایک زبان میں تو سمٹنے سے رہا۔ جب ایک زبان کے بولنے والے دوسری زبانوں کے علم و آگہی، جذبے اور شعور، فکر و اساس تکنیک اور سائنس تک پہنچنا چاہیں گے ترجمے کا ہی سہارا لیں گے۔ ترجمہ نگار جس ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتا ہے ظاہر ہے اس کی مادری زبان ان میں سے ایک ہی ہوگی لیکن مجھے معلوم ہے کہ دونوں زبانیں ہمارے مترجم کی مادری زبانیں نہیں ہیں تو پھر اتنا عمدہ ترجمہ بجا طور پر ڈاکٹر صاحب کے فن کا کمال ٹھہرتا ہے۔

franz mehring

کسی ایک زبان کی روایات، معاشرتی انسلاکات، رسم و رواج، مذہبی واقعات، کسی دوسری زبان میں منتقل کرنا ایک دقت طلب کام ہے لیکن اس کتاب میں ہمیں محاورے کی شکل میں یہ تمام چیزیں بڑی عمدگی سے دبے پاؤں، مکمل تفہیم اور ترسیل کے ساتھ داخل ہوتی نظر آتی ہیں۔

ترجمہ کاری کے باب میں ایک اور اہم چیز ہے دیکھنے کی کہ مصنف اور مترجم میں زمانی فرق کتنا ہے اور کیا مترجم مصنف کے علاقے اور معاشرے میں ہونے والے تاریخی واقعات و سانحات سے آگاہ ہے، تو اس ترجمے سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر شاہ محمد مری کتنے وسیع مطالعے کے مالک ہیں کہ انہوں نے ترجمہ کرتے ہوئے مارکس کے دور کے واقعات کو پوری طرح انگیز کیا ہے۔ محترم شاہ محمد مری نے خود ہی اس کتاب میں لکھا ہے کہ انہیں کتاب میں درج حوالوں نے بہت تنگ کیا اس لیے کوشش بسیار کے بعد انہوں نے ان کو جوں کا توں لکھ ڈالا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے باوجود قاری کا ابلاغ کہیں متاثر نہیں ہوا۔ شاہ صاحب کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ اس ترجمے میں متن میں خراشیں ضرور ہیں لیکن انہوں نے مفہوم پر کوئی خراش نہیں آنے دی۔

shah muhammad marri

ترجمہ دراصل چراغ سے چراغ جلانے کے مترادف ہے اور آج جب دنیا کی طنابیں کھینچ رہی ہیں اور علم عالمگیر سطح پر ایک اکائی بنتا جا رہا ہے۔ کوئی زبان بھی ترجمے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی کہ جب تک نئے خیال کا خون اور نئی آگہی کا نور رگ ریشے میں سرایت نہ کرے زندگی دشوار ہے۔ یہی نہیں بلکہ آج کی دنیا میں زبانوں کی مقبولیت کا پھیلاؤ اور اہمیت کا دار و مدار بڑی حد تک ان کے مفید ہونے پر ہے۔ اور افادیت کا پیمانہ یہ ہے کہ کوئی مترجم اپنے زمانے کے علمی سرمائے اور ادبی ذخیرے کو کس حد تک اپنے پڑھنے والوں تک پہنچانے کا اہل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ”کارل مارکس کی داستان حیات“ ترجمے کی صورت میں ہمیں بہم پہنچا کر عام قارئین اور خصوصاً مارکسزم کے قارئین پر احسان کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments