اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں


سمجھ نہیں آ رہی کہاں سے لکھنا شروع کیا جائے۔ لکھا جایا بھی یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لی جائیں۔ آفٹر آل، آسٹریلیا بیٹھے ہیں جہاں نہ بجلی جاتی ہے نہ قانون کی بالادستی۔ سڑک پر دھول مٹی نہیں۔ لال مرچ میں اینٹوں کے پاوڈر کی ملاوٹ نہیں۔ اس بات کی چنداں فکر نہیں کہ اگر کسی دن سڑک پر کسی بدمست ٹرک کے نیچے آ کر مر گئے تو سب سے پہلے لوگوں کو ہمارے موبائل فون اور کریڈٹ کارڈ ٹٹولنے کی فکر یو گی۔ عورت اور انسان میں خاص فرق نہیں برتا جاتا۔

بظاہر ایسی کوئی مجبوری نہیں کہ سر پر کفن باندھا جائے اور ایسی بات کہی جائے تو ہمارے وطن عزیز میں داخلے پر اثر انداز ہو سکے۔ لیکن وہ کیا ہے کہ پردیس میں رہنے والوں کا دل کئی ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے۔ اسی قلب کا ایک ٹکڑا پاکستان بھی چھوڑنے کو راضی نہیں۔

خدا کی قسم کئی بار تو ایک عجیب سروائیورز گلٹ (survivor ’s guilt) ہوتا ہے۔ ایک ایسا احساس شرمندگی جو اپنے پیاروں کے مرنے کے بعد ہوتا ہے۔ کہ ہم میں ایسا کیا تھا جو ان کے ساتھ سپرد خاک نہ ہوئے۔ جو کسی زلزلے کے بعد اس شخص کو ہتا ہے جس کا باقی گاؤں تو زمیں بوس ہو جائے لیکن اس کا مکان بچ گیا ہو۔ آج بھی وہی احساس دل کو کچوکے لگا رہا ہے۔ کچھ دن قبل ایک احمدی کو ایک نعرہ نہ لگانے پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ آج ایک بارہ سالہ مسیحی بچی کی جبری مذہب تبدیلی، اغوا، اور جبری نکاح کے بارے میں پڑھا۔

ہمم۔ اگر خدا لگتی کہیں تو کون سا کوئی پہلی بار پڑھا ہے۔ کون سا کوئی پہلی بار کسی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ کون سا پہلی بار کسی کمسن بچی کو ’ثواب‘ کی خاطر اغوا کر کے اس سے تین گنا بڑی عمر کے شخص کے ساتھ نکاح میں باندھا گیا ہے۔ کون سا پہلی بار کسی اقلیتی کمسن بچی کو انسانی سمگلنگ یا جسم فروشی کے کاروبار میں دھونکا جائے گا۔ روٹین ہے بابا۔

اگر منطق کی بات مانی جائے تو ہمیں کافی پی کر اس فرسٹ ورلڈ فرسٹ کلاس ملک میں اپنی ونیلا آئس کریم جیسی ٹھنڈی میٹھی زندگی پر فوکس کرنا چاہیے۔ ایک جھوٹی مسکراہٹ سجا کر اپنے ارد گرد فرنگیوں کے ساتھ آسٹریلیا کے نیلے سمندر انجوائے کرنے چاہئیں۔ ’یو اونلی لو ونس‘ کے مصداق صرف ’چل‘ کرنا چاہیے۔ ( نوٹ: چ کو زیر کے ساتھ پڑھا اور سمجھا جائے۔ )

لیکن وہ کیا ہے کہ
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے

منطق یہ بھی باور کراتی ہے کہ جس ملک میں ہم بیٹھے ہیں وہاں ہم بھی تو اقلیت ہیں۔ وہاں نہ کوئی ہماری زبان سمجھتا ہے اور نہ ہی ہمارے مذہب سے مطلب واسطہ رکھتا ہے۔ ہم صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ لسانی اقلیت بھی ہیں۔ بھلے کاغذوں پر آسٹریلوی شہری ثابت بھی ہو جائیں تو رہیں گے براون مسلمان ہی۔ اوپر سے عورت بھی ہیں۔ سب باکس ٹک ہوئے۔

اس سب کے باوجود ہمیں کبھی یہ ڈر نہیں ہوا کہ اپنا مذہب چھپائیں۔ آسٹریلیا سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے پیچھے ہر وقت ملک سے محبت کا راگ الاپیں۔ اگر ہماری کوئی بارہ سال کی بیٹی ہوتی تو ہمیں یہ فکر نہ ہوتی کہ کل کو کوئی اسے اغوا کر کے اس کا مذہب تبدیل کر دے گا۔ مرتے دم یہ فکر نہیں ہو گی کہ کوئی ہماری قبر کا کتبہ سیاہی سے کالا کر دے گا۔ ہر لمحہ دل یہ سوچ کر نہیں لرزتا کہ اگر کسی کا ہم سے جائیدادیں تو تنازع ہوا تو وہ ہم پر توہین مذہب کا الزام لگا دے گا۔ کبھی یہ سوچ کر جھرجھری نہیں آئی کہ ہمیں بھٹے میں زندہ جلا کر مار دیا جائے گا۔

اور اس سب کے باوجود کبھی یہ سننے کو نہیں ملا کہ آسٹریلیا کی اقدار ہمالیہ سے بلند ہیں۔ یہاں اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں۔ یہاں سے زیادہ اقلیتیں کہیں محفوظ نہیں وغیرہ وغیرہ۔

اس کے برعکس وطن عزیز میں نہ صرف یہ راگ الاپا جاتا ہے بلکہ ہر دوسرے دن کوئی ایسا واقعہ بھی پیش آ جاتا ہے جس پر بحیثیت اکثریت سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ جہاں نام تو رحمت اللعالمین کا لیا جاتا ہے لیکن جو بھی ہمارے طریقے پر نہ چلے اسے عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے۔ جہاں نہ کمسن بچیاں محفوظ ہیں نہ قبر میں مردے جن کا گوشت تو یوں بھی کیڑے کھا چکے۔

اب آپ ہی بتائیے ایسے میں سروائیورز گلٹ کیسے نہ ہو۔ معاف کیجئے گا کہ اردو کے کالم میں انگریزی کی اصطلاح استعمال کی۔ لیکن یہ بھی تو دیکھئے کہ اسے سمجھانے کے واسطے پورا کالم لکھ مارا۔ امید ہے کہ یہ کانسیپٹ کلیئر ہو گیا ہو گا۔ نہیں ہوا تو نو پرابلم۔ گوگل کر لیجیے۔ وہاں ہر چیز کا سہ لفظی ترجمہ موجود ہے، سستا اور ٹکاؤ۔

آج کے لیے بس اتنا ہی۔ چلئے اب کافی پیتے ہیں۔ قتل اور جبری مذہب تبدیلی تو روٹین ہے۔
نوٹ: اس کالم کا ٹائٹل مکی گل کی ٹویٹ سے اخذ کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments