پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ کے لیے متحدہ عرب امارات کا ’آرڈر آف دی یونین‘ کا اعزاز سوشل میڈیا پر زیر بحث


متحدہ عرب امارات نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ کو ابوظہبی دورے کے دوران اپنے دوسرے سب کے بڑے اعزاز ’آرڈر آف دی یونین‘ (وسام الاتحاد) سے نوازا ہے۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر جنرل باجوہ کی تصاویر وائرل ہوئی ہیں جن میں انھیں سونے کے رنگ کا بڑا میڈل پیش کیا جا رہا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب الیکشن کمیشن آف پاکستان سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کے تحائف اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے سے متعلق ریفرنس پر سماعت جمعرات سے کرنے جا رہا ہے، بعض صارفین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ تصویر میں نظر آنے والا میڈل بھی کیا جنرل باجوہ توشہ خانہ میں جمع کرائیں گے؟

مگر اس کی تفصیلات میں جانے سے قبل ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ متحدہ عرب امارات نے جنرل باجوہ کو کس اعزاز سے نوازا ہے اور بھلا کیوں۔۔۔

آرڈر آف دی یونین: متحدہ عرب امارات کا دوسرا سب سے بڑا اعزاز

سرکاری نیوز ایجنسی وام کے مطابق صدر شیخ محمد بن زاید نے جنرل قمر باجوہ کو ’متحدہ عرب امارات کی طرف سے برادر اور دوست ممالک کے اعلی حکام کو دیا جانے والا دوسرا سب سے بڑا اعزاز آرڈر آف دی یونین عطا کیا‘ ہے۔

اس کا مقصد ’دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں ان کی نمایاں کوششوں اور دونوں دوست ممالک کے درمیان دوطرفہ تعاون کو مستحکم کرنے میں ان کے کردار کا اعتراف‘ ہے۔

اس پر جنرل باجوہ نے ’متحدہ عرب امارات کے صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اعزاز سے نوازنے پر اپنے فخر کا اظہار کیا، جو دونوں ممالک کو متحد کرنے والے دوستانہ تعلقات کے استحکام کی عکاسی کرتا ہے۔‘

وام کے مطابق جنرل باجوہ نے کہا کہ پاکستان ’دونوں ممالک کے عوام کے بہترین مفاد میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ نتیجہ خیز تعاون کو ترقی دینے اور آگے بڑھانے کا خواہاں ہے۔‘

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ بیان کے مطابق اس سے قبل وسام الاتحاد کا اعزاز سابق لبنانی صدر اميل جميل لحود، بحرین کے وزیر اعظم سلمان بن حمد آل خليفہ، برطانوی شہزادے فلپ، نیدرلینڈز کے بادشاہ ولیم الیکساندر، مائیکرو سافٹ کے شریک بانی بِل گیٹس اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لوروف کو بھی مل چکا ہے۔

پاکستان کا صرف ایک شہری ہی اب تک متحدہ عرب امارات کا اعلیٰ ترین سویلین اعزاز آرڈر آف زاید (وسام زاید) حاصل کر چکا ہے اور وہ ہیں سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف۔ جبکہ اگست 2019 میں اس اعزاز سے موجودہ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی نوازا گیا تھا۔

’یہ ایوارڈ فوجی افسر کی سروسز کے اعتراف کے طور پر دیا جاتا ہے‘

بظاہر سونے کے ہار جیسا لگنے والا یہ اعزاز دراصل ایک میڈل ہے جو متحدہ عرب امارات اس سے قبل بھی دوست ممالک کی اعلیٰ قیادت یا کسی شعبے میں نمایاں کارکردگی دینے والی شخصیات کو دے چکا ہے۔

مگر پاکستان میں سوشل میڈیا پر بعض صارفین اس بحث میں مصروف ہیں کہ آیا ایسے میڈل کو بھی توشہ خانہ میں جمع کرایا جانا چاہیے۔ جیسے مریم نے پوچھا کہ ’کیا یہ قیمتی تحفہ توشہ خانہ میں جائے گا یا (جنرل) باجوہ کی جیب میں؟‘

دل جان خان سواتی بھی سوال کرتے ہیں کہ ’کیا باجوہ صاحب یہ تحفہ توشہ خانہ میں جمع کروائیں گے یا بلجیئم لے جائیں گے؟‘

اسد نامی صارف نے تو یہ تک پوچھ لیا کہ ’ہمیں نو سال کا حساب دو۔ کتنے تحفے آئے؟‘

نامہ نگار فرحت جاوید نے اس معاملے کے بارے میں مزید جاننے کے لیے اعلیٰ حکام سے بات کی ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کے فوجی وفود کو بیرون ملک (اندرون ملک بھی) ملنے والی ایسی شیلڈز یا میڈل جی ایچ کیو کی پراپرٹی ہوتی ہیں تاہم وہ افسر ان شیلڈز کو دفتر یا گھر میں رکھ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

توشہ خانہ: دوست ممالک کے تحائف کی تفصیلات ظاہر کرنے سے ’قومی مفاد‘ کیسے متاثر ہوتا ہے؟

بہاولپور کور کی ملکی دفاع کے لیے سٹریٹیجک حیثیت اور اہمیت کیا ہے؟

شہباز گل کے بیان اور سیاستدانوں کی جانب سے ماضی میں فوج پر تنقید میں کیا کوئی فرق ہے؟

لیفٹیننٹ جنرل سرفراز سمیت چھ فوجیوں کی ہلاکت: ہیلی کاپٹر کا ملبہ کہاں سے اور کیسے ملا؟

یہی وجہ ہے کہ آپ کسی فوجی افسر کے دفتر جائیں تو آپ کو شیلڈز کا بازار لگا نظر آئے گا۔

پاکستان کی مسلح افواج میں اس سلسلے میں قواعد و ضوابط موجود ہیں جس میں اہم ترین یہی ہے کہ فوج میں ’تحائف‘ لینے اور دینے پر پابندی ہے۔ یہاں شیلڈز یا سیونیئرز لیے اور دیے جاتے ہیں۔

فوج میں خاص طور پر اعلی سطح کے تمام دوروں کی مکمل منصوبہ بندی کی جاتی ہے جس میں یہ بھی پروٹوکول کا حصہ ہے کہ غیر ملکی میزبان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا ان کی طرف سے کوئی سیونیئر یا شیلڈ یا میڈل دیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب سے مطلع کیے جانے کے بعد پاکستان سے جانے والا وفد بھی ایسی ہی شیلڈز یا سیوننیئرز (یادگار) لے جاتے ہیں۔

ان معاملات سے واقفیت رکھنے والے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کسی فوجی افسر کو ملنے والا میڈل، ایوارڈ یا اعزاز اس کی ذاتی ملکیت تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایوارڈ اس فوجی افسر کی سروسز کے اعتراف کے طور پر دیا جاتا ہے۔

اور اکثر مختلف تقریبات پر حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران یہ ایوارڈز اور میڈلز پہنتے ہیں اور انھیں اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔

ان کے مطابق پاکستان آنے والے ملٹری وفود کے لیے بھی یہی پروٹوکول ہے۔ یہاں آنے والے وفد سے بھی پہلے سے معلوم کر لیا جاتا ہے کہ کیا وہ کوئی شیلڈ پیش کریں گے۔

ایسا اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ ان ہائی پروفائل دوروں کے اوقات کار مکمل پابندی سے طے کیے جاتے ہیں اور آمد، ملاقات، بات چیت، کھانے پینے، شیلڈز پیش کرنے اور گروپ فوٹو تک کے لیے وقت نہ صرف مقرر کیا جاتا ہے بلکہ اس کی مکمل پابندی بھی کی جاتی ہے۔

توشہ خانہ میں جمع کرائے گئے تحفے پر پہلا حق کس کا؟

ادھر سربراہان مملکت کو دوست ممالک یا ریاستوں کے دوروں کے دوران تحائف ملنا معمول کی بات ہے جس کا مقصد دوست ممالک کے درمیان جذبہ خیر سگالی اور تعلقات میں گرمجوشی کو فروغ دینا ہوتا ہے۔

ان تحائف کو سنبھال کر رکھنے کا ہر ملک میں اپنا نظام اور طریقۂ کار موجود ہے۔ پاکستان میں کابینہ ڈویژن وہ ادارہ ہے جو پاکستانی سربراہان کو دوست ممالک کی جانب سے ملنے والے تحائف کا حساب کتاب رکھتا ہے اور یہ تحائف جہاں رکھے جاتے ہیں اس جگہ کو ‘توشہ خانہ’ کہا جاتا ہے۔

حکام کے مطابق اگر ان تحائف کی مالیت 30 ہزار روپے سے کم ہو تو وزیر اعظم، صدر یا وزیر جنھیں یہ تحفہ ملا ہوتا ہے انھیں توشہ خانہ قوانین کے مطابق یہ مفت لینے کی پیشکش کی جاتی ہے، تاہم اگر تحفے کی مالیت 30 ہزار سے زیادہ ہو تو اس تحفے کی مالیت کا کچھ فیصد حصہ ادا کر کے اسے رکھا جا سکتا ہے۔

حکام کے مطابق اگر سربراہان مملکت یا وزرا یہ تحائف نہیں رکھتے تو پھر ان تحائف کی فہرستیں تیار کر کے انھیں توشہ قوانین کے مطابق سرکاری ملازمین اور فوج کے افسران کو نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ نیلامی کی قیمت کا تعین دوبارہ ایف بی آر اور سٹیٹ بینک سے کروایا جاتا ہے اور ان میں سے چند اشیا کی قیمت کو مارکیٹ ویلیو سے کچھ کم رکھا جاتا ہے جبکہ چند ایسے تحائف جو کسی خاص سربراہ ملک کی جانب سے ملے ہو ان کی اہمیت اور اعزازی مالیت کی تحت ان کی قیمت مارکیٹ سے زیادہ رکھی جاتی ہے۔

توشہ خانہ قوانین کے مطابق ان تحائف پر پہلا حق اس کا ہے جس کو یہ تحفہ ملا ہوتا ہے، اگر وہ اسے نہیں لیتے تو پھر سرکاری ملازمین اور فوج کے اہلکاروں کے لیے نیلامی کی جاتی ہے۔ اگر اس نیلامی سے جو اشیا بچ جائیں تو انھیں عام عوام کے لیے نیلامی میں رکھ دیا جاتا ہے۔

جو بھی فوجی یا سرکاری ملازم یہ بیش قیمتی اشیا کو خریدتے ہیں انھیں اپنی ذرائع آمدن ڈیکلیر کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر لاگو ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments