عالمی سیاست کے پیچ و خم اور امریکہ کا بے دریغ سیاسی اثر و رسوخ


”طاقتور وہی کرتے ہیں جو ان کے دسترس میں ہوتا اور کمزور برداشت کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اور کوئی چارا نہیں ہوتا“ یونان قدیم کے معروف تاریخ دان تھاسیڈائڈس کے 400 قبل مسیح میں دہرائے ہوئے یہ الفاظ آج بھی اتنے ہی بر محل ہیں جتنے کہ صدیوں پہلے تھے۔ ان کے یہ الفاظ محض ایک جملہ نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاسیات کو جانچنے کا معیار اور سمجھنے کا دیرینہ اصول بھی ہے۔ عالم اقوام کی سیاسی تاریخ دراصل اقوام کے عروج و زوال کی تاریخ ہے۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو سکندر اعظم سے لے کر سلطنت عثمانیہ و نیپولین تک اور نیپولین سے لے کر برطانیہ و امریکہ کی سامراجیت و استعماریت تک سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ ان سب کی تاریخ طاقت کے بل بوتے پر مزید طاقت کا حصول اور اختیارات کے بے دریغ استعمال کا شاخسانہ ہے۔

جنگ عظیم دوئم کے اختتام پر جب یورپ توڑ پھوڑ کا شکار ہو کر اپنے زوال کو پہنچا تو امریکہ اور سوویت یونین بین الاقوامی سیاسیات کے بساط شطرنج پر ابھرے اور سرد جنگ کی صورت میں ایک نئی جنگ کی بنیاد رکھی گئی۔ دونوں ہاتھی جب سرد جنگ کی سیاسی اکھاڑے میں اترے تو طاقت کے نشے میں سرمست دونوں کوریا و ویتنام سے لے کر کیوبا و افغانستان تک سب کو چیونٹیوں کی طرح روندتے رہے۔ یہ چپقلش کئی دہائیوں تک جاری رہنے کے بعد جب سوویت یونین کی شکست پر منتج ہوئی تو امریکہ دنیا کے نقشے پر سوپر پاور بن کر ابھرا۔ اور نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے ایک ایسے بین الاقوامی نظام کی بنیاد رکھی جو ان کے ہی طے شدہ لبرل اصولوں پر مبنی تھا اور ان کے مفادات کے حصول میں ایک اعلی کار کا کام دیتا رہا۔

9 ستمبر کے تاریخی واقعہ نے نئی صدی کے بین الاقوامی سیاسی منظر نامے کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ امریکہ نے اس واقعہ کو جواز بنا کر دنیا میں ’وار آن ٹیرر‘ کے نام سے وہ حشر برپا کیا جو تاحال جاری و ساری ہے۔ عالم اقوام کے سامنے، ”یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا مخالف“ کا آپشن رکھ کر طاقت کے بل بوتے پر دنیا کے بیشتر اقوام اپنے ساتھ ملائے اور افغانستان و ایران سے لے کر مشرق وسطی تک اپنے غیض و غضب کا ایسا مظاہرہ کیا کہ انسانی تاریخ کا سیاہ باب بن کر گیا۔ کھربوں ڈالرز کے مالی نقصان کے ساتھ ساتھ لاکھوں قیمتی جانوں کو اپنے ذاتی اور قومی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔

امریکہ آج بھی عصر حاضر کے سیاسی شطرنج کا بے تاج کھلاڑی ہے۔ عالم اقوام کے بیشتر ممالک کی ڈوریں آج بھی امریکہ کے ہاتھوں میں ہیں۔ یوکرائن میں جاری جنگ کی اسباب کا بغور جائزہ لیا جائے تو امریکہ اور اس کے حواریوں کو نردوش نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ روس کے بار بار تنبیہ کے باوجود بھی امریکہ اور ان کے حواریوں کا یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت کے لئے بضد رہنا جنگ کی سب سے بڑی وجہ بنی۔

یہ بین الاقوامی سیاسیات کے اولین تقاضوں میں سے ہے کہ کوئی بھی طاقتور ریاست اپنی سرحدوں پر کسی دوسرے طاقت ور ریاست کی بلا وجہ مداخلت اور دست اندازی برداشت نہیں کرتا۔ 1962 کے کیوبن میزل کرائسیس سرد جنگ کا سب سے متنازعہ واقعہ گردانا جاتا ہے کیونکہ اس میں امریکہ اور روس جوہری جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ اس چپقلش کی بنیادی وجہ سوویت یونین کا کیوبا میں جوہری ہتھیاروں کا نسب کرنے کی کوشش اور امریکہ کا اس کے خلاف ردعمل تھا کیونکہ ہر طاقتور ریاست کی مانند یہ امریکہ کے لیے ناقابل برداشت امر تھا۔ اب روس یوکرائن تنازعہ میں امریکہ وہی کردار ادا کر رہا ہے جو کئی دہائیاں پہلے سوویت یونین نے کیوبن میزل کرائسیس کے موقع پر ادا کیا تھا۔

خطے میں جاری روس یوکرائن جنگ کے علاوہ یہاں کے بساط شطرنج کے دو اہم مہریں سویڈن اور فن لینڈ بھی امریکہ کے ہاتھوں میں ہیں۔ سویڈن اور فن لینڈ بھی نیٹو میں شمولیت کے امیدوار ہیں جب کہ روس نے ان کی شمولیت بھی پر نالاں ہے۔ روس نے اس حوالے سے دونوں ممالک کو خبردار کیا ہے اور نیٹو کو بھی یہ عندیہ دیا ہے کہ مذکورہ بالا ممالک کی نیٹو میں شمولیت کی صورت میں ان کا ردعمل یوکرائن سے بھی زیادہ شدید اور خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس تمام تر صورتحال کے باوجود بھی امریکہ مذکورہ بالا ریاستوں کے نیٹو میں شمولیت کے لئے بضد ہیں بلکہ اس حوالے سے قانون سازی بھی کر چکا ہے۔ جس کا نتیجہ ایک اور جنگ کی صورت میں ناگزیر نظر آتا ہے۔

امریکہ جنوب مشرقی ایشیا میں بھی سرگرم ہے۔ اور کئی دہائیوں سے جاپان اور دیگر حواریوں کے ساتھ مل کر چین کی ابھرتی قوت کا احاطہ کرنے میں مشغول عمل ہے۔ چین امریکہ تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ تھے لیکن ٹرمپ دور کے چین مخالف اقتصادی اور تجارتی جنگ نے دونوں ریاستوں کے تعلقات انتہائی نچلے سطح تک پہنچا دیے ہیں۔ رہی سہی کثر گزشتہ دنوں امریکہ کی نینسی پیلوسی کے تائیوان دورے نے پوری کردی۔ اس دورے نے جلتی پہ تیل کا کردار ادا کیا ہے کیونکہ چین کی بار بار تنبیہ کے باوجود بھی امریکہ کا یہ اقدام خطے کے سیاسی ماحول کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ چین نے ردعمل کے طور پر تائیوان کی سرحدوں پر فوجی مشقوں کا آغاز کر لیا ہے جو کبھی بھی یوکرائن کی مانند ایک مکمل جنگ کی صورت لے سکتا ہے۔

امریکہ دنیا کے بیشتر علاقوں کی طرح مشرق وسطی کی سیاسی سرگرمیوں کا بھی ایک اہم سٹیک ہولڈر ہے۔ خطے کی سیاسی پیچ و خم کو سمجھتا بھی ہے اور قابو بھی کرتا ہے۔ باوجود اس کے کہ سعودی عرب اور اسرائیل خطے کی بدترین انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہے لیکن چونکہ ایران اور ان کے حواریوں پہ نظر رکھنے اور ان کا احاطہ کرنے میں معاونت فراہم کرتے ہیں تو امریکہ ان کی ہر ممکنہ سیاسی سفارتی اور دفاعی پشت پناہی کرتا ہے۔

امریکہ سے اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں سعودی عرب آج بھی سب سے اوپر ہے۔ جنگ امریکہ کے لئے ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ امریکہ کا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس جنگ کی آڑ میں سالانہ کھربوں ڈالرز کا اسلحہ بنا کر بیچتا ہے اور منافع کماتا ہے۔ امریکہ سعودی گٹھ جوڑ سے امریکہ کا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اور سعودی عرب کے سیاسی عزائم تو پنپ رہے ہیں لیکن خطے کا سیاسی ماحول بدستور کشیدہ ہے اور کشمکش کا شکار ہے۔

امریکہ عصر حاضر کے سیاسی اکھاڑے کا بے تاج بادشاہ صحیح لیکن بین الاقوامی سیاسی شطرنج پہ ابھرتے طاقتور مہرے، چین اور روس اس کی آنکھوں میں کانٹوں کی طرح کھٹک رہے ہیں۔ ابھرتا چین اور روس بین الاقوامی سیاسی طاقت کے توازن اور امریکہ مخالف سیاسی مہم جوئی میں پیش پیش ہیں۔ اور دونوں خطے میں امریکہ کے بے دریغ سیاسی اثر و رسوخ کی راہ میں رکاوٹ کے لئے دست اول کے سپاہیوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سیاسیات کے اصولوں میں طاقت بھلے ہی عروج و فتح یابی کا معیار صحیح لیکن قانون فطرت ہے کہ اقوام کا عروج و زوال دیرپا تو ہو سکتا ہے لیکن ابدی و ازلی ہر گز نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments