نواز شریف کی ممکنہ واپسی: سزا یافتہ سیاستدان جیل سے باہر کیسے رہ سکتا ہے؟

اعظم خان - بی بی سی اردو، اسلام آباد


پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی کی خبریں ایک بار پھر گرم ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر جاوید لطیف نے اپنی ایک حالیہ پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا ہے کہ نواز شریف اگلے ماہ یعنی ستمبر میں پاکستان واپس آ ر ہے ہیں۔

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم علاج کی غرض سے سنہ 2019 میں برطانیہ چلے گئے تھے اور پانامہ ریفرنسز میں عدالت کی طرف سے دی گئی چار ہفتے کیں مدت میں وہ واپس نہیں آئے، جس کے بعد ان کے ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کر دیے گئے۔

اب ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف واپس آکر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں گے یا پھر پہلے انھیں قانونی جنگ کا سامنا ہو گا۔

اس کا بہت سادہ سا جواب تو ان کے ماضی میں وکیل رہنے والے خواجہ نوید یہ دیتے ہیں کہ ایک عام ملزم کو تو ان حالات میں ایئرپورٹ سے ہی گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ خواجہ نوید پرویز مشرف کی طرف سے قائم کیے گئے طیارہ ہائی جیکنگ مقدمے میں نواز شریف کے وکیل بھی رہ چکے ہیں۔

خواجہ نوید کے مطابق نواز شریف ابھی سزا یافتہ سیاسی رہنما ہیں اور انھیں مفرور بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ خواجہ نوید کے مطابق اب ایسے میں انھیں ملک واپسی کے لیے قبل از گرفتاری ضمانت حاصل کرنی ضروری ہو گی۔

ان کے مطابق بصورت دیگر جیسے ہی وہ واپسی پر ایئرپورٹ اتریں گے تو ایف آئی اے ان کے پاسپورٹ پر ٹھپہ لگانے کے ساتھ ہی انھیں گرفتار کرنے کی بھی پابند ہو گی۔

ان کے مطابق حال ہی میں انھوں نے اپنے ایک مؤکل حبیب جان کی برطانیہ سے پاکستان آنے کے لیے قبل از گرفتاری ضمانت کے ذریعے ممکن بنائی۔

لاہور ہائی کورٹ بار سے تعلق رکھنے والی وکیل صباحت رضوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ہمارے ہاں سیاسی رہنماؤں کے لیے ایسی فضا پہلے تیار کی جاتی ہے کہ نہ صرف ان کی واپسی ممکن ہو سکے بلکہ وہ آسانی سے ملک میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔

ان کے خیال میں کسی بھی عام ملزم کی طرح قانون کے تحت تو نواز شریف کو عدالت کے سامنے سرینڈر کرنا پڑے گا اور پھر ایک طویل قانونی جنگ لڑنی ہو گی اور ہر بار پیشیاں بھی بھگتنی ہوں گی۔

خواجہ نوید کے مطابق نواز شریف کو جو سزا ہوئی تھی وہ معطل ہوئی تھی اور پھر وہ عدالت کی اجازت سے ملک سے باہر گئے تھے۔ تاہم ان کے مطابق اب وہ زیادہ عرصہ باہر رہنے کی وجوہات دیں گے اور عدالت کی تسلی کروائیں گے کہ وہ صحت کے مسائل کی وجہ سے دی گئی مدت کے اندر واپس نہیں آ سکے۔

میاں شہباز شریف

راولپنڈی بار سے تعلق رکھنے والی وکیل فرح ناز کہتی ہیں کہ نواز شریف ایک قانونی پلان کے ساتھ ہی باہر گئے تھے اور اب واپسی کے لیے بھی انھیں ایک قانونی پلان بنا کر ہی آنا ہو گا۔

تاہم ان کے مطابق اس وقت ملک میں جس طرح کے حالات ہیں ان کی شاید جلد واپسی ممکن نہ ہو کیونکہ جن ججز نے انھیں تاحیات نااہل قرار دیا تھا ان کا فیصلہ ابھی بھی مؤثر ہے۔

فرح ناز کے مطابق نواز شریف کے لیے قانونی طور پر طویل عرصہ برطانیہ میں رہنے کا بھی جواز نہیں ہے یہی وجہ کہ اب ان کے ملک واپسی کے پلان پر بات ہو رہی ہے۔

خیال رہے کہ تحریک انصاف کے چند رہنماؤں نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف کے ستمبر میں برطانیہ میں قیام کی قانونی مدت میں توسیع نہیں کی جا رہی ہے اس وجہ سے اب وہ پاکستان واپسی کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

فرح ناز کے خیال میں نواز شریف کو قانونی کے ساتھ ساتھ سیاسی چیلنج بھی درپیش ہے۔ ان کے خیال میں نواز شریف ملک کی سیاست میں حصہ لینے کی وہ اہلیت اور شہرت نہیں رکھتے جو اب عمران خان کو حاصل ہو چکی ہے۔

ان کے مطابق پنجاب میں ضمنی انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت بھی قائم کر چکی ہے۔

وکیل کوثر ڈاھا اور شائستہ تبسم کے مطابق جب عدالتوں سے میرٹ پر ریلیف مل جاتا ہے تو پھر کوئی بھی سیاسی رہنما ملکی سیاست میں حصہ لینے کا اہل ہوتا ہے۔ ان کے مطابق اس کی حالیہ مثال تو خود سابق وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز ہیں، جن کے خلاف نہ صرف فیصلے آئے ہیں بلکہ جیل بھی ہوئی مگر اب وہ ضمانت پر ہوتے ہوئے بھی سیاست میں پوری طرح سرگرم ہیں۔

مریم نواز

صباحت رضوی کے مطابق ملک میں بہت سے نئی قانونی روایات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں، ایسے فیصلے بھی آتے ہیں جنھیں نئی نظیر کے طور پر پکارا جاتا ہے۔ ان کے خیال میں جس طرف سیاسی ہواؤں کا رخ ہوگا، قانون بھی اپنا رستہ اسی رخ پر بنا لے گا۔

یہ بھی پڑھیے

نیب ریفرنسز کب کیا ہوا؟

نواز شریف کی واپسی: حکومت شہباز شریف کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتی ہے؟

نواز شریف کی ویکسینیشن کا معاملہ: ’کئی ماہ سے ڈیٹا چوکیدار اور وارڈ بوائے رجسٹر کر رہے تھے‘

نواز شریف: پاسپورٹ کی تجدید نہ ہونے سے حکومت کو کیا فائدہ اور سابق وزیراعظم کو کیا نقصان ہو گا؟

شائستہ تبسم کے مطابق نواز شریف عدالت کی اجازت سے باہر گئے۔ اب انھیں واپسی پر سب سے پہلے وارنٹ گرفتاری منسوخ کروانے ہوں گے اور پھر ضمانتی مچلکے جمع کروانے ہوں گے۔

ان کے مطابق سابق وزیراعظم کی ضمانت پہلے میرٹ پر ہو چکی ہوئی ہے۔

کوثر ڈاھا کے خیال میں اس وقت ملک میں نواز شریف کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے اور اگر واپسی پر انھیں جیل بھی جانا پڑتا ہے تو یہ ان کے لیے سیاسی طور پر فائدہ مند ہو گا۔

یاد رہے کہ نواز شریف کے باہر جانے سے قبل موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے بیان حلفی دیا تھا کہ ان کے بھائی اور سابق وزیراعظم چار ہفتوں کے اندر وطن واپس آ جائیں گے۔ تاہم نواز شریف جب واپس نہیں آئے تو اس وقت کی تحریک انصاف کی حکومت نے ان کی برطانیہ سے حوالگی کا مطالبہ کیا۔

قانونی ماہرین کے مطابق چونکہ پاکستان کا برطانیہ کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے تو یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی حکومت نواز شریف کو واپس لے کر آنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔

میاں شہباز شریف نے اپنے بیان حلفی میں کیا کہا تھا؟

شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ میں میاں نواز شریف کو بیرون ملک بھیجے جانے پر ان کی واپسی سے متعلق جو بیان حلفی دیا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ ان کے بڑے بھائی میاں نواز شریف چار ہفتوں کے لیے علاج کی غرض سے بیرون ملک جا رہے ہیں اور یہ کہ اگر اس عرصے کے دوران نواز شریف کی صحت بحال ہو گئی اور ڈاکٹروں نے انھیں پاکستان جانے کی اجازت دے دی تو وہ وطن واپس آ جائیں گے۔

لاہور ہائی کورٹ

لاہور ہائی کورٹ میں میاں شہباز شریف کی جانب سے جمع کرایا جانے والا بیان حلفی

اس کے علاوہ اس بیان حلفی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس عرصے کے دوران میاں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس لندن ہائی کمیشن کی مصدقہ تصدیق کے بعد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو بھیجی جائیں گی۔

میاں شہباز شریف کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں دیے گئے اس بیان حلفی میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر کبھی وفاقی حکومت کے پاس مصدقہ اطلاعات ہوں کہ میاں نواز شریف صحت مند ہونے کے باوجود لندن میں مقیم ہیں تو برطانیہ میں مقیم پاکستانی ہائی کمیشن کا کوئی اہلکار اس ضمن میں میاں نواز شریف کے معالج سے مل کر ان کی صحت کے بارے میں دریافت کر سکتا ہے۔

اس وقت میاں شہباز شریف کے علاوہ میاں نواز شریف کا بیان حلفی بھی عدالت میں جمع کروایا گیا تھا جس میں انھوں نے یہ کہا تھا کہ وہ اپنے بھائی کی طرف سے دیے گیے بیان حلفی کی پاسداری کرنے کے پابند ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments