پشاور میں پولیس حراست میں ہلاکتوں کے بڑھتے واقعات اور پولیس رویے پر اٹھتے سوالات

عزیز اللہ خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور


جیل
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کے مچنی تھانے میں اپنی بیوی کے مبینہ قتل کے الزام میں گرفتار ایک نوجوان کی حوالات میں ہلاکت پر اس کے خاندان والے سراپا احتجاج ہیں اور اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

دو روز قبل پشاور کے مچنی تھانے کی حوالات سے نوجوان ضیا الرحمان کی پھندا لگی لاش ملی تھی۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ نوجوان نے حوالات میں خودکشی کی ہے جبکہ والدین کو پولیس کے بیان پر یقین نہیں ہے۔

نوجوان پر بیوی کے قتل کا الزام کیوں لگا تھا؟

خیبر پختونخوا پولیس کی رپورٹ کے مطابق 22 سالہ ضیا الرحمان پر اُن کی ساس اور سسر نے اپنی بیٹی کے قتل کا الزام عائد کیا تھا جبکہ ملزم ضیا الرحمان کے پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق اُن کی بیوی نے خودکشی کی تھی۔

پولیس کے مطابق ضیا الرحمان اور ان کی بیوی روزی کی شادی رواں سال مارچ میں ہی ہوئی تھی۔

ایس ایس پی کاشف عباسی نے بتایا کہ 13 اگست کو روزی کی والدہ اور والد تھانے میں آئے تو انھوں نے اپنی بیٹی کے قتل کی رپورٹ درج کرائی اور مجسٹریٹ کے سامنے بیان ریکارڈ کروایا کہ اُن کی بیٹی نے خود کشی نہیں کی بلکہ اسے قتل کیا گیا ہے۔

روزی کی والدہ نے اپنے داماد ضیا الرحمان پر بیٹی کے قتل کا الزام عائد کرتے ہوئے پولیس اور مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا تھا کہ ان کی بیٹی اور داماد میں گھریلو ناچاقی کے باعث وہ شہر کے مضافاتی علاقے شکئی ہندکیان میں موجود ان کے گھر سے بیٹی لینے گئی تھیں۔

روزی کی والدہ نے پولیس بیان میں کہا کہ وقوعہ کے روز ان کے سامنے ان کی بیٹی اور داماد میں پانی دینے کے معاملے میں تلخ کلامی ہوئی تھی۔

جیل میں قیدی

ان کا کہنا تھا کہ اُن کے سامنے اُن کی بیٹی کی ساس، سسر اور داماد نے بیٹی پر ہاتھ اٹھایا اور انھیں فوراً وہاں سے جانے اور جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔ روزی کی والدہ کا کہنا تھا وہ اس وقت بیٹی کے گھر سے چلی آئیں مگر بعد میں انھیں بیٹی کی خودکشی کی اطلاع موصول ہوئی جس پر انھوں نے بیٹی کے قتل کا مقدمہ درج کروا دیا۔

ملزم ضیا الرحمان کے والد کا احتجاج

تھانے میں ملزم ضیا الرحمان کی ہلاکت کے بعد ان کے والد گوہر اور اہل علاقہ نے ورسک روڈ پر احتجاجی مظاہرہ کیا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ انھیں انصاف چاہیے۔

گوہر نے مظاہرے کے دوران صحافیوں کے سامنے دعویٰ کیا کہ اُن کی بہو نے خودکشی کی تھی جبکہ پولیس نے اس کے قتل کے الزام میں اُن کے بیٹے، بیوی اور ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے بیٹے کو گرفتار کر لیا تھا۔

انھوں نے پولیس حراست میں بیٹے کی ہلاکت کے معاملے پر پولیس پر مخالفین کے ساتھ مل کر ان کے خاندان کے خلاف ظلم کرنے کا الزام عائد کیا۔

جبکہ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور اصل وجوحات سامنے آ جائیں گی۔

پولیس حوالات میں ہلاکت کیسے ہوئی؟

پولیس کے مطابق ملزم ضیا الرحمان نے اپنے خلاف ملنے والے ثبوتوں اور بیوی کے قتل کے انجام کے خوف سے حوالات میں ہی پھندا لگا کر خودکشی کی ہے۔

ایس ایس پی پشاور پولیس کاشف عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم نے حوالات کے ٹائلٹ میں گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’ہم عادی معاشرے کے باسی ہیں، محض تماشائی‘

اتر پردیش میں پولیس حراست میں ایک مسلم نوجوان کی موت: معاملہ کیا ہے؟

پولیس حراست میں ملزم کی ہلاکت: ’میرا بیٹا قصور وار تھا تو عدالت میں پیش کرتے‘

پاکستانی جیلوں میں سزائے موت کاٹنے والی خواتین پر کن الزامات کے تحت مقدمات ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے فوری بعد جوڈیشل مجسٹریٹ کو بلا کر جوڈیشل انکوائری شروع کر دی گئی ہے جبکہ اس واقعے کی محکمانہ انکوائری بھی کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد تھانے کے ایس ایچ او، ہیڈ محرر اور تین دیگر اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ انکوائری رپورٹس میں سب کچھ واضح ہو جائے گا کہ ملزم ضیا الرحمان کی موت کیسے ہوئی ہے۔

پشاور کا مچنی تھانہ اس وقت جس عمارت میں موجود ہے وہاں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ نصب نہیں کیونکہ اسے حال ہی میں یہاں منتقل کیا گیا ہے جبکہ پشاور کے دیگر تھانوں میں سی سی ٹی وی کیمرے اور جان بچانے والی ادویات سمیت دیگر تمام بنیادی ضروریات دستیاب ہیں۔

جیل میں قیدی

یہ پولیس حراست میں ہلاکت کا پہلا واقعہ نہیں!

گذشتہ چند برسوں میں ضیا الرحمان وہ پہلے نوجوان نہیں جو پشاور پولیس کی تحویل میں ہلاک ہوئے ہیں۔ سنہ 2018 کے بعد سے صوبائی دارالحکومت میں پولیس حراست میں ہلاکتوں کے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں تاہم ان میں کم ہی ایسا ہوا ہے کہ ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہو۔

نیوز رپورٹس کے مطابق سنہ 2018 سے اب تک پشاور کے مختلف تھانوں میں پولیس کی تحویل میں کم سے کم چھ ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں ملزمان کی ہلاکت مبینہ تشدد سے ہوئی۔

ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہونے والے واقعات کے مطابق پشاور کے آغا میر جانی پولیس تھانے میں 26 نومبر 2018 کو فدا محمد نامی ملزم ہلاک ہو گیا تھا جس کا الزام تھانے کے ایس ایچ او پر عائد ہوا۔ بعد میں ایس ایچ او اور ملزم کے اہلخانہ کے درمیان صلح ہو گئی تھی۔

اسی طرح ستمبر 2019 میں ٹاؤن پولیس تھانے میں عمران اللہ نامی شخص کی ہلاکت کی اطلاع موصول ہوئی تھی۔ رپورٹس کے مطابق جوڈیشل انکوائری میں معلوم ہوا تھا کہ ملزم منشیات کا عادی تھا اور وہ طبعی موت کا واقعہ تھا۔

اکتوبر 2019 میں بھی پشاور کے خان رازق پولیس تھانے میں چوری کے الزام میں زیر حراست ملزم اجمل شاہ کی ہلاکت سامنے آئی تھی۔ ملزم پر پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ایک نرس کا پرس چرانے کا الزام تھا اور پولیس کے مطابق ملزم عادی چور تھا۔ ملزم کی ہلاکت بھی پولیس تھانے میں اچانک طبیعت خراب ہونے کے باعث ہوئی تھی اور پولیس نے موقف اپنایا تھا کہ ملزم کو دل کا دورہ پڑا تھا۔

اس واقعے کے بعد پولیس حکام نے تمام تھانوں میں فوری طور پر جان بچانے والی ادوایات کی فراہمی، سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اور دیگر فوری نوعیت کے اقدامات تجویز کیے تھے تاکہ پولیس کی تحویل میں ہلاکت کی واقعات معلوم ہو سکیں۔

پشاور

مارچ 2021 میں کم عمر طالب علم شاہ زیب کی ہلاکت پولیس تھانہ غربی میں ہوئی تھی۔ پولیس کے مطابق ملزم نے خودکشی کی تھی۔ ملزم کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ ساتویں جماعت کا طالبعلم تھا اور پشاور کے علاقے صدر میں کسی سے جھگڑے کے الزام میں زیر حراست تھا۔ اس واقعے کے بعد تھانے کے عملے کو معطل کر دیا گیا تھا۔

اسی طرح جون سنہ 2021 میں پشاور کے تھانہ تہکال میں ایک نوجوان کی پولیس کے خلاف بیان کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس پر اسے گرفتار کیا گیا تھا اور پھر اس پر دورانِ حراست تشدد کی ویڈیو سامنے آئی تھی۔

اس ویڈیو میں پولیس اہلکاروں کے تشدد کے دوران ملزم ردیع اللہ عرف عامر اعتراف جرم کرتا دیکھا جا سکتا ہے۔

پولیس کیا کہتی ہے؟

پشاور کے سی سی پی او اعجاز خان نے بی بی سی کو بتایا کہ 2018 سے اب تک اگرچہ حوالات میں ہلاکتوں کے چھ واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں لیکن ان میں سے تین واقعات میں پوسٹ مارٹم کے مطابق ملزمان کی طبعی موت واقع ہوئی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر حوالات میں کسی کو دل کا دورہ آتا ہے یا پہلے سے اسے کوئی عارضہ لاحق ہے جس سے موت واقع ہوتی ہے تو اس میں پولیس کا کیا قصور ہے۔

سی سی پی او نے کہا کہ اس کے علاوہ ایک واقعے میں انکوائری کمیٹی نے پولیس اہلکاروں کو تمام الزامات سے بری کر دیا تھا جبکہ ایک واقعے میں پولیس اہلکاروں اور ملزم کے رشتے داروں کے درمیان راضح نامہ ہو گیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ مچنی تھانے کے واقعے میں جوڈیشل انکوائری فوری طور پر شروع کر دی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments