قافلہ کا جشن آزادی پڑاؤ اور سید فخرالدین بلے کی شاہکار نظم مٹی کا قرض ( 2 ) دوسری قسط


قافلہ کے جشن آزادی پڑاؤ میں اداکار محمد علی نے وطن عزیز سے متعلق حضرت جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، ابو الاثر حفیظ جالندھری، عطا شاد، سید فخرالدین بلے اور خالد احمد کے کلام سے انتخاب تحت اللفظ میں پیش کرنے سے قبل فرمایا کہ ہماری اور ہمارے بعد آنے والی نسل میں ارض پاک سے ٹوٹ کر محبت کرنے کا جو جذبہ اور ولولہ اور جوش ہے میں نے دنیا کے بیشتر ممالک میں جاکر جائزہ لیا مجھے ایسی حب الوطنی کہیں نظر نہ آئی۔

جناب محمد علی نے اس کے بعد ڈاکٹر محمد اجمل خان نیازی صاحب سے گزارش کی کہ جشن آزادی پڑاؤ کی کارروائی تو جاری ہے مگر میری خواہش ہے کہ اب نظامت کی ذمہ داری آپ سنبھال لیں کیونکہ آپ پاکستان سے ایک ماہ اور دو دن عمر میں چھوٹے ہونے کے باوجود خود کو پاکستان کا ہم عمر گردانتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے کمال عاجزی و انکساری سے محمد علی صاحب کی خواہش کو قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ میرے لیے باعث اعزاز اور صد افتخار ہے۔

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی صاحب نے اپنی گفتگو کے آغاز میں فرمایا کہ محترم سید فخرالدین بلے بھائی باوجود اس کہ قافلہ سالار اور قافلہ پڑاؤ کے مستقل میزبان کی حیثیت سے سب سے پہلے کلام پیش کرنے کی خواہش ظاہر فرمائی ہے لیکن میں کیا کروں خالد احمد میرا سجن ہے بیلی ہے بھائی ہے اور مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے اور مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں حکم دے چکا ہے کہ قافلہ سالار بلے بھائی سے پہلے وہ اپنا کلام پیش کریں گے۔

ظفر معین بلے، سرفراز سید اور کلیم عثمانی بھائی اس بات کے چشم دید گواہ ہیں۔ اس کے بعد اجمل نیازی صاحب نے جناب خالد احمد کی پاکستان کے ساتھ قلبی، ذہنی، قلمی اور روحانی وابستگی بلکہ جنون کو موضوع بنایا اور کہا کہ قائداعظم کا سپاہی اور سچا عاشق خالد احمد دراصل پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ ہے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی نے مزید فرمایا کہ خالد احمد کے ادبی مریدوں کی تعداد میرے شاگردوں کی تعداد سے دوگنا ہے اور میں ہی کیا ظفر معین بلے، قائم نقوی، شہزاد احمد اور ہم میں سے بہت سے متاثرین خالد احمد میں شامل ہیں۔

ابھی اجمل نیازی صاحب کا خطاب جاری تھا اور اس دوران احمد ندیم قاسمی صاحب اور سید فخرالدین بلے صاحب اپنی اپنی نشستوں سے اٹھ کر برادر محترم قبلہ خالد احمد کے پاس گئے انہیں گلے سے لگایا دعائیں دیں اور پھر انہیں اپنے قریب بٹھا لیا۔ جب یہ مرحلہ تمام ہوا تو ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے جناب خالد احمد صاحب کو زحمت کلام دی اور انہوں نے وطن عزیز کے حوالے سے کلام پیش کر کے خوب خوب داد سمیٹی اور پھر حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب کی فرمائش پر جو نظم قائداعظم کے لیے پیش کی۔ وہ بصد احترام نذر قارئین ہے ملاحظہ فرمائیے

نظم: قائداعظمؒ کے لیے
نظم نگار : خالد احمد
ہم آہوئے رم خوردہ تھے
تیز ہوا کے شور سے لرزاں
تند لہو کے زور سے ترساں
اک آہوئے دم خوردہ تھے
غم خوردہ تھے، سم خوردہ تھے
جنگل کی بوجھل تاریکی
بزدل سوچوں کی چادر تھی
ہم آہوئے ستم خوردہ تھے
بجلی کے کوندے کی لپک پر
خوف سے خود ہی سمٹ جاتے تھے
قد سے بڑھ کر، گھٹ جاتے تھے
ہم بادل کی ایک کڑک پر
سوکھ کے پھول، ببول ہوئے تھے
آہو، راہ کی دھول ہوئے تھے
رہ برؒ آیا، رہ گرؒ آیا
تیز نگاہ ستارا چمکا
آخر بخت ہمارا چمکا
ساونتا سانول گھر آیا
پھولوں سے بھی نازک تن تھا
مشعل آنکھیں، راہ نما تھیں
ہر تاریک بدن کا دیا تھیں
گرم نوا تھا، نرم سخن تھا
رنج ہمارا جان لیا تھا
تاریکی کیکر ٹھہرائی
کیکر کے تن آگ لگائی
کیا بھاری احسان کیا تھا
ہم کو، اس نے جان لیا تھا
ہم نے، اسے پہچان لیا تھا

جیسے ہی قبلہ سرکار خالد احمد نے اپنا منظوم خراج مکمل فرمایا تو ہم نے دیکھا کہ محمد علی صاحب اپنی نشست سے اٹھے اور جناب کلیم عثمانی صاحب کو بیٹھے سے اٹھایا اور ان کو ساتھ لے کر سرکار خالد احمد کو جاکر گلے لگایا ان کا ماتھا چوما اور جناب کلیم عثمانی صاحب کے ہاتھوں شاعر پاکستان خالد احمد کو گلدستہ پیش کیا اسی اثنا میں قائم نقوی اور ظفر علی راجا بھی شاہد واسطی کے ہمراہ وارد ہوئے اور با آواز بلند کہا کہ ساڈا پیر، ساڈا مرشد خالد احمد سرکار مکرر، مکرر اور اس طرح جناب خالد احمد صاحب نے یہی نظم قائداعظم کے لیے دوبارہ پیش کی۔

اس کے بعد ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب نے فرمایا کہ میرا دل، میرے دل کی دھڑکن اور میری جان خالد احمد قافلہ پڑاؤ میں مہمان نہیں بلکہ ایک میزبان کی حیثیت سے شرکت کرتے ہیں کیونکہ وہ بلے بھائی کے مجھ سے کم بڑے مداح اور پرستار نہیں ہیں اور یہ جو وہ یہاں آ کر کثرت سے سگریٹ نوشی فرماتے ہیں یہ بھی ان کی ہمارے پیارے فخرالدین بلے بھائی سے محبت کا اظہار ہے اور اس طرح وہ بلے بھائی کو یاد دلاتے ہیں کہ وقت ہوا چاہتا ہے۔

کیونکہ خالد احمد نہیں چاہتے کہ بلے بھائی کی کوئی ایک بھی قضا ہو جبکہ میں کبھی کبھار بلے بھائی ہی کے پیکٹ سے سگریٹ لے کر اس لیے پیتا ہوں تاکہ میری وجہ بلے بھائی کم از کم ایک سگریٹ کم پئیں۔ ڈاکٹر اجمل نیازی نے مزید فرمایا کہ قافلہ پڑاؤ آ کر خالد احمد صاحب اکثر ایسی نشست پر بیٹھنا پسند فرماتے ہیں کہ جہاں سے انہیں دیوار پر آویزاں شاعر کرب آنس معین کا یہ پورٹریٹ اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آئے اس بیان کے بعد اجمل نیازی صاحب نے آنس معین کا یہ پڑھا

حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments