جنوبی پنجاب کا مسئلہ شہباز گل نہیں سیلاب ہے


عوام بالعموم بجلی کے بلوں، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور ہوشربا مہنگائی کو رو رہے ہیں اور جنوبی پنجاب کی جنتا بالخصوص سیلاب کی تباہ کاریوں پر فریاد کر رہی ہے مگر ہماری حکمران اشرافیہ اور میڈیا کا مسئلہ شہباز گل کی گرفتاری ہے۔ ہماری حکمران اشرافیہ کے بیانات سن لیں لگتا ہے کہ جیسے عوام کو درپیش تمام مسائل کو حل کر دیا گیا ہے اب صرف شہباز گل کا مدعا باقی رہ گیا ہے۔ کپتان تو پھر کپتان ہے اپنے چیف آف سٹاف کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ اس سارے معاملہ میں شہباز گل کی سانس لینے کی اداکاری نے مزید رنگ بھر دیا ہے۔ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا جا رہا ہے کہ شہباز گل پر تشدد ہوا ہے جبکہ میڈیکل رپورٹس کہتی ہیں کہ کوئی تشدد نہیں ہوا۔ نان ایشوز کو ایشو بنا کر قوم کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے

کوئی پوچھے کہ عوام کا مسئلہ کیا ہے دو وقت کی روٹی کا حصول ہے یا پھر شہباز گل کی گرفتاری ہے۔ بجلی کے بلوں اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہے یا شہباز گل پر تشدد ایشو ہے۔ جنوبی پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ لاکھوں انسان مسئلہ ہیں یا پھر شہباز گل کا سانس لینے کا ڈرامہ مسئلہ ہے۔ شہباز گل کو تو پھر بھی آکسیجن ماسک لگا ہوا ہے مگر ان لاکھوں سیلاب زدہ متاثرین کا کیا کرنا ہے جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے پیارے پانی میں ڈوب کر اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ حالیہ مون سون سے بلوچستان، جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ انسانی المیہ جنم لے رہا ہے مگر ہماری سیاسی اشرافیہ سیاست کا گھناؤنا کھیل کھیلے جا رہی ہے۔ انتخابات کا وقت دور ہے لہذا عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کی فی الوقت ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے جنتا حالیہ مشکلات اور مصائب کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرے۔

اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو گا کہ عوام کی نمائندگی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس وقت ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کا حصہ ہیں کوئی سیاسی جماعت ایسی باقی نہیں ہے جو ایوان میں موجود ہو اور اقتدار سے باہر ہو اور ستم یہ کہ ان جماعتوں میں سے کوئی بھی جماعت اپوزیشن نہیں کر رہی۔ کوئی بھی عوام کا مقدمہ حکمرانوں کے سامنے نہیں لڑ رہی۔ وفاق سے بے دخل کیا گیا کپتان اس بات پر رو رہا ہے کہ مجھے کیوں نکالا اور کل تک مجھے کیوں نکالا کی گردان کرنے والے اس لیے چپ ہیں کہ ان کو اقتدار مل چکا ہے۔ مگر ان کو پنجاب چھن جانے کا دکھ بے جو بے چین کیے جا رہا ہے۔ اقتدار کی دھینگا مشتی میں اگر کوئی حقیقی معنوں میں رل گیا ہے تو وہ جنتا ہے۔ وہ عوام جس کی خدمت کے وعدے کر کے سیاسی جماعتیں اسمبلیوں میں پہنچتی ہیں اور اقتدار کے مزے لیتی ہیں۔

اس نقار خانے میں بھلے کوئی نا سنے مگر سوال تو کیا جاسکتا ہے کہ کوئی ہے جو عوام کی بات بھی کر لے کوئی ہے جو عوام کا مقدمہ بھی لڑ لے۔ کوئی ہے جو شہباز گل جتنی ہمدردی عوام سے بھی کر لے۔ شہباز گل کی طرح کا آکسیجن ماسک عوام کو بھی لگا دے تاکہ مہنگائی اور سیلاب سے پریشان حال عوام جس کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں کو کچھ وقت کے لیے سکون مل سکے۔ کوئی ہے جو کہے کہ وہ عوام کی خاطر ریلی نکالنے جا رہا ہے۔ کوئی تو ہو گا جو کہے کہ وہ عوام کا مقدمہ لڑے گا عوام کے حق کی بات کرے گا جو عوام کے مسائل کا اجاگر کرے گا۔ اگر کوئی ہے تووہ بولتا کیوں نہیں اس کی آواز کیوں سنائی نہیں دیتی۔

موجودہ ایوانوں میں اپنے اقتدار کی جنگ میں مصروف سیاسی اشرافیہ سے بہتری کی توقع سوائے خود کو دھوکہ دینے کے کچھ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ من پسند ایس ایچ او، پٹواری اور ڈپٹی کمشنر لگوانے کے خواہش مند اراکین اسمبلی عوام کی بات کب کریں گے۔ کیا ایوانوں میں موجود لوگ بہرے ہیں جو ان کو عوام کی چیخ و پکار سنائی نہیں دے رہی کیا وہ گونگے ہیں جو عوام کی ترجمانی نہیں کر رہے۔ سوال یہ بھی تو ہے کہ یہی اراکین اسمبلی آئندہ عام انتخابات میں کس منہ سے عوام کے پاس جائیں گے۔ مزید کون سا جھوٹ باقی ہے جو وہ عوام سے بولیں گے اور اس کے بدلے ووٹ حاصل کریں گے۔ کون سا وعدہ رہ گیا ہے جو انہوں نے عوام سے اب کرنا ہے۔ کون سا سیاسی دھوکہ باقی رہ گیا ہے جو اس بار عوام کھائے گی۔

حکمران اشرافیہ کو خبر ہو کہ عوام کا مسئلہ امریکی سازش نہیں ہے، شہباز گل کی گرفتاری نہیں ہے، رجیم چینج کا فلسفہ نہیں ہے، کپتان کی نا اہل طرز حکمرانی نہیں ہے اور نا ہی سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا نعرہ ہے۔ عوام کا مسئلہ صرف اور صرف دو وقت کی روٹی ہے۔ بجلی کے بل اور ہوشربا مہنگائی مسئلہ ہے۔ جن کے گھر سیلاب میں گر گئے ہیں ان کا مسئلہ چھت ہے۔ وفاق ہوش کے ناخن لے اور بلوچستان کی خبر لے جہاں پر بارشوں نے تباہی مچا دی ہے۔ تخت لاہور کے حاکم آنکھیں کھولیں اور جنوبی پنجاب کی خبر لیں۔ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے اضلاع بے رحم پہاڑی ندی نالوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا سب کچھ پانی میں ڈوب گیا ہے۔ کل تک اپنے گھروں میں باعزت طریقے سے رہنے والے اس وقت سڑکوں کے کنارے پر اپنے بچوں کے ساتھ موجود ہیں۔

ایک قیامت ہے جو سرائیکی وسیب پر گزر رہی ہے۔ جنوبی پنجاب کی سیاسی قیادت آواز بلند کرے اور اپنی سیاسی قیادت کو بتائے کہ یہاں پر حالات اچھے نہیں ہیں۔ لوگوں کی جمع پونجی ختم ہو چکی ہے۔ جنوبی پنجاب کے لوگ قسمت کے نہیں بدانتظامی کے مارے لوگ ہیں۔ سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کی کرپشن کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ جنوبی پنجاب کی قیادت پنجاب اور وفاق کی قیادت کوب اور کرائے کہ یہاں کے لوگوں کا مسئلہ شہباز گل نہیں ہے بلکہ ان کا مسئلہ سر کی چھت، باعزت روزگار اور دو وقت کی روٹی ہے۔ اس لیے خدارا جنوبی پنجاب پر توجہ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments