ہم کہ ٹھہرے اجنبی…


انسان اپنی زندگی میں کئی طرح کی ’پہلی محبت‘ کرتا ہے۔ موسیقی میں میری پہلی محبت نیرہ نور تھیں۔ ان کے انداز، آواز، گائیکی اور ادائیگی کے ایک ایک انگ میں بے انتہا محبت تھی۔ اعتراف کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ میں نے پہلے نیرہ کے گائے ہوئے گیتوں، غزلوں اور نظموں سے محبت کی اور پھر ان سب کی وجہ سے اپنی پہلی محبت کی۔
زمانہ قبل از یو ٹیوب میں اپنے پسندیدہ گلوکاروں کے ائٹمز کی ریکارڈنگز کو ڈھونڈنا کتنا جان جوکھوں کا کام ہوتا تھا اس کا ادراک زمانہ بعد از یوٹیوب آنے والی جنریشنز کبھی نہیں کر سکتیں۔ کبھی لاہور کے فورٹریس سٹیڈیم میں واقع ’آف بیٹ‘ ، کبھی کہیں ’دی ردھمز‘، تو کبھی فیصل آباد کے رحمت گراموفون سے کیسٹس پر ان کی گائی کوئی غزل یا گیت ڈھونڈا جاتا اور پھر مشہور جاپانی کیسٹ کمپنی ٹی ڈی کے کیسٹوں پر ریکارڈ کرایا جاتا۔ مجھے یاد ہے نوے کی دہائی میں نیرہ کا گایا ہوا البم ’نیرہ سنگز فیض‘ کہیں سے نہیں مل رہا تھا تو کسی نے بتایا مال روڈ لاہور پر واقع ’ای ایم آئی کمپنی‘ جو بند ہونے کے قریب تھی وہاں سے ملے گا اور وہ کیسٹ میرے پاس آج بھی نیرہ نور سے پہلی محبت کی ایک نشانی کے طور پر موجود ہے۔
اسی والیم میں انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں لکھی گئی فیض صاحب کی شاہکار غزل ہم کہ ٹھہرے اجنبی۔ گائی اور جدائی کے اس عظیم نوحے کو امر کر دیا۔ نیرہ نور نے اپنے مشہور گیتوں اور غزلوں کے بہت بعد میں پاکستان ٹیلیویژن کے ایک ڈرامے کی پس منظر موسیقی کے طور پر احمد فراز کی ایک انتہائی خوبصورت نظم ’خواب مرتے نہیں۔ ‘ بھی گائی جس کا شاید بہت لوگوں کو علم نہیں۔ انہوں نے اس نظم کو اپنے روایتی نرمیلے انداز سے شروع کر کے اپنی آواز کے قدرتی زیروبم کو استعمال کرتے ہوئے اونچے سروں میں لے جا کر ختم کیا۔ شاید فراز کی پاور فل شاعری کا حق گائیکی میں اس سے زیادہ ادا نا ہو سکے۔
میں نے اس نظم کو بہت ڈھونڈا لیکن جب ہر طرف سے ناکامی ہوئی تو ٹیلی ویژن کے ایک پروڈیوسر کی منت کر کے ان سے ریکارڈنگ کاپی کی اور پھر بہت بعد میں یہ سماجی ویب سائٹس پر بھی دستیاب ہو گئی۔ ایک بار راولپنڈی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں پروگرام کے دوران میں نے ان کو کئی بار خواب مرتے نہیں سنانے کی فرمائش کی اور وہ ہر بار جواب دیتیں یہ لائیو گانا مشکل ہے۔
آپ سب کو قومی ٹی وی کا مشہور زمانہ ڈرامہ تیسرا کنارہ یقیناً یاد ہو گا جس میں راحت کاظمی اور ساحرہ کاظمی ہیرو اور ہیروئن تھے نیرہ نے اپنی سب سے مقبول نظم کبھی ہم خوبصورت تھے، جسے احمد شمیم نے لکھا، اسی ڈرامے کی پس منظر موسیقی کے طور پر گائی تھی اور اسے اپنی آواز سے امر کر دیا۔ اس نظم کو جب بھی سنا، آنکھوں میں پانی آیا۔ ہم سب جو ان کی گائیکی کے دیوانے ہیں وہ تو شاید کبھی خوبصورت رہے ہوں گے لیکن نیرہ نور خود ہمیشہ ہمارے دلوں میں ایسے ہی خوبصورت رہیں گی۔
یاد آیا ایک بار ان کی گائی ایک شاندار غزل ’اے عشق ہمیں برباد نہ کر‘ سنتے ہوئے ایک دوست نے کہا ’موسیقی واقعی روح کی غذا ہے‘ میں نے جواباً برجستہ کہا ’اصل میں روح، موسیقی کی غذا ہے!‘
نیرہ نور اس دنیا سے رخصت تو ہوئیں لیکن جاتے ہوئے میری زندگی کی پہلی محبت بھی اپنے ساتھ لے گئیں۔

خرم مہران
Latest posts by خرم مہران (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments