باتیں پطرس بخاری کی!


پروفیسر احمد شاہ بخاری (پطرس ) محض ساٹھ سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن اس نسبتاً مختصر عرصہ حیات میں وہ ایسی غیر معمولی اور قابل قدر خدمات انجام دے گئے جنہیں جان کر حیرت گم ہو جاتی ہے۔ وہ جس طرف سے بھی گزرے اپنے انمٹ نقش اپنے پیچھے چھوڑتے گئے۔ جہاں بھی گئے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے گئے۔

پطرس محفل کے آدمی تھے۔ ہر محفل پہ چھا جانا ان کا شوق بھی تھا اور عادت بھی۔ وہ جس بزم میں بھی ہوتے ان کی خواہش ہوتی کہ یہاں صرف ان کی باتیں، انہی کی گفتگو ہی حاصل بزم رہے۔ زندگی کے ہر مرحلے پہ انہیں شوق رہا کہ سرداری کا تاج ان کے سر ہی رہے۔ ان کے قریبی احباب تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ اگر وہ یوں سرفراز نہ رہتے تو وہ شاید خود کشی کر لیتے۔ محفل میں باتوں ہی باتوں میں احباب کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور ان کی چٹکیاں لیتے رہنا تو خیر ان کی ہر محفل میں چلتا رہتا تھا۔

لیکن ان کے دوست احباب ان کے بعض ایسے مشغلے ایسی ’حرکتیں‘ بھی کووٹ کرتے ہیں کہ آپ حیران رہ جائیں کہ یہ سب وہ عظیم انسان کر رہا ہے جو اتنے اہم ترین عہدوں پہ فائز رہا ہے اور ایک زمانہ جس کا مداح ہے۔ ایک ایسی ہی روایت جناب محمد طفیل مدیر ”نقوش“ نے اپنے مضمون میں لکھی جو پطرس نمبر میں چھپا تھا۔ محمد طفیل لکھتے ہیں :

” ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب بخاری آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے انہوں نے ایک گٹار خریدا۔ اور اپنے ایک دوست کو ساتھ لے کر دلی کی نواحی بستیوں میں گھر گھر جا کر یہ صدا دی۔

” بابا اللہ کے نام پر کچھ ملے گا“ ؟
” ہم دونوں بھائی کل رات سے بھوکے ہیں“ ۔
” بھلا کر بھلا ہو گا“
” اپنے بچوں کے صدقے میں ہمیں کھانا کھلا دو۔“
اور معلوم ہے ان کا ساتھی کون تھا؟ سابق گورنر جنرل پاکستان غلام محمد۔

یہ اور اس طرح کے دیگر کئی واقعات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسر بخاری زندگی سے بھر پور لطف اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ وہ جہاں بھی جاتے اس طرح کے مشغلے جاری رہتے۔ ان کی از حد خواہش اور کوشش رہی کہ زندگی میں کوئی حسرت نہ رہ جائے۔ اور دیکھا جائے تو ان کی زندگی میں کوئی حسرت رہی بھی نہیں۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے اندر مزاح لکھنے کا جس قدر ملکہ تھا وہ شاید اسے پوری طرح استعمال نہیں کر سکے۔ انہوں نے بہت کم لکھا۔ اور اس میں سے بھی مزاح کو ان کی تحریروں میں سے بہت کم حصہ ملا۔ مزاح نگاری میں ان کا معیار کیا تھا اس حوالے سے رشید احمد صدیقی نے لکھا کہ پطرس نے سب سے کم ادبی سرمایہ چھوڑا اور سب سے اونچا مقام پایا۔

چنانچہ پطرس اور ان کے احباب صرف علم و ادب کے حوالے سے ہی مشہور نہیں تھے ان دوستوں کی عجیب و غریب شرارتیں بھی زبان زد عام تھیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ایک دفعہ ان کے ایک قریبی ساتھی عابد علی عابدؔ نے بتایا کہ ایک رات میں، حسرتؔ، تاثیر، صوفی اور پطرس موٹر پر گھوم رہے تھے۔ رات اپنے شباب پر آ رہی تھی کہ ہم میں سے کسی نے کہا پیاس لگی ہے۔ لیمونیڈ چاہیے۔ کچھ کچھ دکانیں کھلی تھیں۔ جن میں ایک سگریٹ والا بھی تھا۔ اس کے پاس لیمونیڈ تھی۔

بخاری صاحب نے ان پینے والوں سے پوچھا، ”پیسے ہیں آپ حضرات کے پاس“ ؟ جیبیں ٹٹولیں گئیں تو سب کے پاس کل پونجی سوا چھ آنے نکلی۔ سب موٹر ہی میں بیٹھے رہے۔ پانچ لیمونیڈ کا آرڈر دیا گیا۔ جب سب پی کر ڈکار لے چکے تو بخاری صاحب دکاندار سے کہنے لگے، ”بڑے میاں یہ لوگ شریفانہ لباس میں ضرور ہیں مگر ہیں سب کے سب آوارہ اور اچکے۔ ان کی جیبوں میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ ان لفنگوں کی دوستی میں مجھ جیسے شریف آدمی کا حال بھی پتلا ہو گیا ہے۔

بہرحال! ہم اس وقت آپ کے سوا روپے کے مقروض ہیں۔ اعتبار کر لیں تو یہ رقم کل تک پہنچا دوں گا۔ اور اگر آپ کو میری بات پہ اعتبار نہیں تو یہ میری پینتیس ہزار والی گاڑی آپ کل تک گروی رکھ لیں۔ ہم آپ کو سوا روپیہ دے جائیں گے اور اپنی موٹر لے جائیں گے“ ۔ ابھی دکاندار فیصلہ کر ہی رہا تھا کہ موٹر گروی رکھوں یا اعتبار کرلوں کہ بخاری صاحب نے موٹر سٹارٹ کر لی۔ دکاندار ہکا بکا رہ گیا۔ ضرور سوچتا ہو گا کہ یہ پانچواں بھی اچکا نکلا۔ لیکن اس قصے کا اختتام یوں ہوا کہ اگلے دن یہ رقم سود سمیت دکاندار کو ادا کر دی گئی۔

ایسا ہی ایک اور حیران کن واقعہ ہمیں پطرس کے سوانح حیات پڑھتے ہوئے سامنے آتا ہے اور ہم حیرت میں گم ہو جاتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی فورم پر جہاں اس ”عالمی شہری“ کی دلائل اور ادبی اقوال سے مزین تقاریر کی دنیا بھر میں دھوم مچی رہتی تھی، جن کا شہرہ سن کر لوگ دور دور سے سننے کے لیے آتے تھے وہی پطرس اپنے احباب میں بیٹھا ایسے مشغلوں میں مصروف رہتا تھا کہ جنہیں بچے بھی کرتے ہوئے دوبارہ سوچیں گے۔ لیجیے ایک ایسا ہی قصہ ملاحظہ فرمائیے :۔

پطرس کے مزاج میں اپچ بہت تھی۔ یہ یکسانیت سے بھاگتے تھے۔ اسی بنا پر کالج کے زمانے میں انہوں نے دیا سلائی کی ڈبیاں چرانے کی ایک سوسائٹی بنائی۔ طریقہ واردات یہ تھا کہ دوستوں سے سگریٹ سلگانے کے لیے دیا سلائی مانگتے۔ سگریٹ سلگاتے اور پھر ماچس جیب میں ڈال لیتے۔ شام کو باقاعدہ حساب ہوتا بخاری کی جیب میں سے باقی ممبران سے زیادہ ڈبیاں برآمد ہوتیں یہاں تک کہ یہ اپنے اساتذہ اور پروفیسروں تک کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ بخاری کے جگری دوست عبدالمجید سالکؔ صاحب راوی ہیں کہ ایک بار انہوں نے اپنے ایک پروفیسر سے ماچس مانگی۔ لیکن جیسے ہی ماچس جیب میں ڈالی پروفیسر چلا اٹھا، ”بخاری! خدا کے لیے میری ماچس نہ چراؤ“ بخاری نے ماچس واپس کردی مگر اسی دن سوسائٹی بھی توڑ دی۔ آرٹ کا معیار جو گر گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).