موسمیاتی تبدیلیاں اور اثرات


دنیا کے سائنسدان اس وقت سر جوڑے موسمی تبدیلی کی وجوہات کی تحقیق میں لگے ہیں۔ گلیشیرز کا پگھلنا، سیلاب، جانوروں کی معدومیت، اور موسمیاتی شدت کا ساری دنیا سامنا کر رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے جہاں بہت سے ممالک کو خطرے میں ڈال دیا ہے، وہیں ترقی پذیر ممالک کے لیے خطرہ نمایاں طور پر بڑھا ہے۔ اس سنگین مسئلے کی وجہ سے جنوبی ایشیا مزید تباہی کا شکار ہو گیا ہے۔ پاکستان ایسے ارضیاتی خطے میں واقع ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کی شدت کو نہ صرف دیکھا جا سکتا ہے بلکہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ انٹگریٹڈ فیز کی درجہ بندی کے مطابق خدشہ ہے کہ جولائی تا نومبر تک 95500 افراد خوراک کی قلت کا شکار ہوسکتے ہیں۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے ) اور وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان کے مطابق، 14 جون سے اب تک کے مجموعی اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے 27، خیبر پختونخوا کے 9، سندھ کے 30 اور پنجاب کے تین اضلاع اس میں 830 اموات ہو چکی ہیں (ان میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے ) ۔ دوسری جانب گلگت بلتستان اور کشمیر میں بالترتیب چھ اور دس اضلاع میں دس ہزار افراد متاثر ہوئے۔ 1348 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ کم از کم 72,500 مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔

اس کے علاوہ 110,440 مویشی ضائع ہوئے ہیں اور 2,800 کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں اور 130 پلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں میں مون سون کی 62 فیصد بارشیں ہو چکی ہیں اور مزید کی پیشن گوئی کی جا رہی ہے۔ حکومت ابھی تک مجموعی نقصان کا تخمینہ، سروے ٹیمیں لگانے میں مصروف ہیں جس کے بعد ریلیف اور معاوضہ دیا جائے گا۔

سیٹلائیٹ ڈیٹا سے دنیا کے تین بڑے شہروں جن میں بھارت کا دہلی، پاکستان کا لاہور اور ارجنٹائن کا بیونس آئرس شہروں کا جائزہ لیا گیا جس سے یہ بات سامنے آئی کہ یہاں کے درجہ حرارت کے بڑھنے کی وجہ ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہے۔ دنیا بھر میں نامیاتی فضلہ مثلاً بڑے شہروں میں آلودگی کا سب سے بڑا سبب کوڑے کے ڈھیر اور ان کو تلف کرنے کے اقدامات کی کمی ہے۔ جہاں گلیوں، بازاروں اور محلوں میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں جنہیں جب مرضی آگ لگا دی جاتی ہے بنا سوچے سمجھے کہ اس سے فضا میں کتنی آلودگی پھیل رہی ہے جو کہ انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔

اسی طرح، فصل کاٹنے کے بعد باقیات، خوراک، لکڑی، کاغذ، آءل اینڈ گیس سٹمز اور ایسا ملبہ جو زمین کو بھرنے کے کام آتا ہے، ہوا میں میتھین گیس کے اخراج کا باعث بن رہا ہے۔ بین الاقوامی انرجی ایجنسی کے مطابق چین اور بھارت میں سب سے زیادہ میتھین گیس کا اخراج ہو رہا ہے۔ میتھین گیس گرین ہاؤس گیسوں میں گیارہ فیصد حصہ رکھنے کے باوجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نسبت 80 فیصد زیادہ خطرناک اثرات چھوڑتی ہے۔

شہروں میں بڑھتی آبادی، سیمنٹ کی عمارتوں میں اضافے کے لیے درختوں کی کٹائی، گاڑیوں کی بھرمار اور دھواں، ناقص سیوریج سسٹم، پینے کے صاف پانی کی قلت اور جا بجا کوڑے کے ڈھیروں نے نہ صرف انسانوں کا سانس لینا دوبھر کر دیا ہے بلکہ بہت سی بیماریوں کو بھی جنم دیا ہے۔

موسمی اثرات اور وجوہات:

لوگوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی، مذہبی اور لسانی اقلیتوں کی پہلے سے معاشی پسماندگی، کم عمری کی شادیاں، بچوں کی ولادت، نوجوانوں کی کثیر تعداد کی بے روزگاری، گھریلو تشدد، لاقانونیت اور اس پر موسمی تبدیلیوں، لینڈ سلائیڈنگ، گلیشیئرز کے پگھلنے، بارشوں اور سیلاب میں تیزی نے لوگوں کو مزید پسماندگی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ دنیا میں موسمی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے دس ممالک میں پاکستان آٹھویں نمبر ہے یعنی پاکستان کی آبادی ان میں شمار ہوتی ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

گلیشیئرز ملک میں دریاؤں کے لیے پانی کا ذریعہ ہیں جن کی بدولت زرعی پیداوار اور پانی کی کمی پاکستان میں خوراک کی کمی کا سبب بن سکتی ہے۔ مزید براں قدرتی آفات کے امکانات کو بڑھانے اور پاکستان میں موسمی واقعات کو تیز کر سکتی ہیں۔ پاکستان کو پانی کی کمی کے سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود ملک میں اوور فلو پانی کے ٹینکوں سے پانی نکلنا ایک عام سی بات ہے۔ باغات کو پانی دیتے وقت، کاریں دھونے اور گھروں کو دھوتے وقت بہت کم لوگ پانی کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی خوراک کے نظام کو کئی طریقوں سے متاثر کر سکتی ہے : جس میں فصل کی پیداوار پر براہ راست اثرات شامل ہیں (مثال کے طور پر ، بارش میں تبدیلی جو خشک سالی یا سیلاب کا باعث بنتی ہے، یا گرم یا ٹھنڈا درجہ حرارت بڑھتے ہوئے موسم کی لمبائی میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے ) ۔ پاکستان جس کا 40 فیصد دار و مدار زراعت پر ہے۔ یو این ای پی کی اسٹڈی 2000 ءکے مطابق درجہ حرارت اور بارش میں بتدریج اضافہ زراعت کی پیداوار کو منفی طور پر متاثر کرے گی۔ اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں انفراسٹرکچر چیلنج سے نمٹنے کے لیے وسائل کافی نہیں ہیں۔

پاکستان میں جنگلات کی تیزی سے کٹائی خصوصاً ساحلی علاقوں میں مینگروز کے جنگلات میں کمی، خطرے کی جانب ایک اور قدم ہے۔

جنگلات خوبصورتی، جانوروں کی خوراک، موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے والا قدرتی انتظام اور ایندھن کی لکڑی ہے۔ جنگلات زراعت اور کاشت کاری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کا 25 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں صرف 5.7 فیصد اراضی، یا تقریباً 4.54 ملین ہیکڑز جنگلات پر مشتمل ہیں۔ 2020 میں ہی پاکستان نے تقریباً 69.2 ایکٹر پر مشتمل جنگلات گنوا دیے جو کہ 19.6 کلو ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے برابر تھے۔ اس کے علاوہ جنگلات کا جلنا ہوا میں آلودگی کا باعث بن رہا ہے اور ایندھن کی لکڑی کا فقدان بڑھ رہا ہے۔

موسمی تبدیلیوں کا انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر اثر:

موسمیاتی تبدیلیوں کا انسان کی ذہنی صحت سے گہرا تعلق ہے ایسے علاقے جہاں ہر سال سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور طوفانی بارشوں کی وجہ سے لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں ان میں نفسیاتی امراض جن میں ڈپریشن بے چینی، چڑچڑا پن، بے خوابی، بے گھر ہونے، خوراک اور پانی کی قلت کا خوف، بے روزگاری۔ گھریلو تشدد، ، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کی کمی سے اموات میں اضافہ کیا ہے۔ اسی طرح (گرمی سے متعلق) ، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں مثلاً ملیریا، ڈینگی، خارش، معدے اور انتڑیوں میں انفیکشن، جبکہ فضا میں آلودگی شہروں میں بڑھتی ٹریفک، ملوں اور فیکٹریوں کا دھواں جن سے سانس، ، گلے کی خرابی، آنکھوں کے امراض لوگوں میں بڑھے ہیں۔

بڑھتی آبادی، وسائل کی کمی اور موسمی تبدیلیوں نے جہاں اور بہت سے نقصانات کیے ان میں سے ایک گزشتہ چار سالوں میں (انسانی حقوق کے اعداد و شمار کے مطابق) خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات ہیں جن میں 2019 سے لے کر 2022 تک 14000 ریپ کے واقعات جبکہ جنسی ہراسانی اور تشدد کے واقعات 16000 تک تجاوز کر گئے۔ اس میں وہ واقعات شامل نہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔ مگر حکومت اس بارے میں کوئی موثر اقدامات لینے سے قاصر رہی۔

حکومتی اقدامات:

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے ) کا ادارہ 2007 میں بنایا گیا۔ اس ادارے کے بنیادی فرائض میں سے ایک بحران کے انتظام اور آفات زدہ علاقوں میں کیے جانے والے امدادی کاموں سے متعلق پالیسیاں بنانا اور ان پر عمل درآمد کرنا ہے۔

فراجس کا مقصد قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پالیسیاں بنانا، بروقت لوگوں کی ریلیف کا کام سر انجام دینا پاکستان اکنامک سروے 2019۔ 2020 کے مطابق 2017 کی مردم شماری (افراد شماری) کے مطابق پاکستان کی آبادی 77.207 ملین ہے جو 2030 تک 282.81 ملین ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان کو 2030 تک ایس ڈی جی کے اہداف کو پور کرنے کے لیے سالانہ 450 بلین روپے کی ضرورت ہو گی جس میں پبلک سیکٹر شعبے کی مجموعی ترتیب 143 ارب روپے اور صرف پانی اور صفائی کے نظام کے لیے ہی تقریباً 449 ارب روپے سالانہ درکار ہوں گے۔ جبکہ ( 2020 ) تک پاکستان سالانہ 61 ارب روپے خرچ کر رہا تھا۔

2012 میں بھی حکومتی سطح پر قومی موسمیاتی پالیسی ترتیب دی لیکن صد افسوس کہ سیاسی عدم دلچسپی کی بنا پر اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ گزشتہ حکومت نے درخت لگانے کی مہم بھی شروع کی لیکن ان درختوں کو بڑھنے کے لیے وقت درکار ہو گا جبکہ ہم آج سنگین موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہیں۔

حکومت پاکستان کو چاہیے کہ پانی کے ذخائر کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے عوامی آگاہی مہم کا آغاز کرے

بارشوں اور سیلابوں کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے مزید ڈیم تعمیر کر کیے جائیں تاکہ کم سے کم انسان کا جانی و مالی نقصان ہو۔

شہریوں اور دیہاتوں میں سیوریج کے نظام، تعلیم اور صحت کی سہولیات کو بہتر بنایا جائے۔ بچوں کو تعلیمی اداروں میں ان موضوعات پر تربیت دی جائے۔

انسانی جان و مال کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لہذا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہتر تربیت اور قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

صفائی پر کس قسم کا سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے کوڑا جلانے پر پابندی اور جرمانہ رکھا جائے۔ ایسی تمام گاڑیوں، فیکٹریزز اور ملوں پر جرمانہ لگا یا جائے جو فضا میں آلودگی بڑھا رہے ہیں

خواتین اور بچوں کے تحفظ لیے بنائے گئے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے اور مجرموں کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی بدولت آنے والے آفات سے بچنے کے لیے صحت کے کارکنان اور نوجوانوں کے لیے تربیتی پروگرام منعقد کیے جائیں تاکہ بہتر طریقے سے ریلیف کا کام کیا جا سکے اور بروقت لوگوں کو آگاہی دی جا سکے۔

حکومت موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے پالیسی بناتے وقت سماجی، معاشی اور نفسیاتی ماہرین کو شامل کیا جائے تاکہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بہتر اقدامات کیے جاسکیں۔

قومی نصاب میں ایسے مضامین شامل کیے جائیں اور قدرتی آفات سے بچنے کی بچوں کو عملی تربیت دینے کا اہتمام کیا جائے۔

ساحلی علاقوں میں مینگروز کے جنگلات میں اضافہ کیا جائے تاکہ ساحلی کٹاؤ، لہروں کے عمل اور ان کی توانائی توڑنے، آلودگی کو کم کرنے اور ماہی گیروں کی روزگار جو کہ ان کی کمی سے خطرات کا شکار ہے، بچا جا سکے۔

عوام میں درخت لگانے کی مہم شروع کی جائے تاکہ گرمی کی حدت کو کم کیا جا سکے اور جنگلات کی کٹائی پر پابندی لگائی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).