طاہر محمود چوہدری کی قابل اعتراض تحریر اور مدیر کی معذرت


طاہر محمود چوہدری ’ہم سب‘ کے باقاعدہ لکھنے والے ہیں۔ آبائی طور پر گجرات سے تعلق رکھتے ہیں اور میرے اندازے کے مطابق طویل عرصے سے بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان کی بیشتر تحریریں اپنے آبائی شہر کی شخصیات کے بارے میں ہوتی ہیں۔ لب و لہجہ شائستہ اور زبان صاف ستھری استعمال کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ زبان وبیان کی روانی اور دلچسپ بیانات کی کشش میں ان کی سب تحریریں شوق سے پڑھتا ہوں۔ ’ہم سب ‘کے باقاعدہ پڑھنے والے آگاہ ہیں کہ ’ہم سب ‘ کا کل عملہ دو رضاکار کارکنوں پر مشتمل ہے جو جنوری 2016 ء سے رضاکارانہ طور پر اس ویب سائٹ کو اپنا وقت دیتے ہیں۔ یعنی عدنان خان کاکڑ اور نیازمند وجاہت مسعود۔ہم دونوں کو معاش کے لیے مختلف ملازمتیں وغیرہ کرنا ہوتی ہیں۔ اس سے جو وقت بچتا ہے وہ ’ہم سب ‘ کی ادارت میں صرف ہو جاتا ہے۔ اس میں رات دن کی قید نہیں۔جہاں عدنان صاحب کو وقت ملا وہ کچھ تحریریں ایڈٹ کر کے شائع کر دیتے ہیں اور مجھے جو مہلت ملتی ہے وہ اس لاڈ پیار سے پالے ہوئے ادارے کی نذر ہو جاتی ہے۔ ’ہم سب‘ پر لکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور پڑھنے والے مہربان بھی تعداد میں کم نہیں۔ چنانچہ ’ہم سب ‘ کو جاری رکھنا ایک اخلاقی فرض اور اجتماعی ذمہ داری کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

’ہم سب‘ سے پہلے اور بعد میں بہت سے صاحبان نظر اس میدان میں آئے لیکن یہ شعبہ ایسی جفاکشی کا مطالبہ کرتا ہے کہ ذاتی زندگی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ آن لائن جرنلزم سے تعلق رکھنے والے احباب آگاہ ہیں کہ روز مرہ خبروں کی بجائے نقطہ نظر شائع کرنے والی اردو ویب سائٹس پر آمدنی کا کوئی امکان نہیں۔ گاہے گاہے کسی بے خبر مہربان سے یہ طعنہ موصول ہو جاتا ہے کہ ’ہم سب‘ سے لاکھوں ڈالر کمائے جا رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ پلیٹ فارم بھی اب تک ’اہل کمال‘ کے ہتھے چڑھ چکا ہوتا۔
’ہم سب‘ نے پہلے روز سے کچھ اصول طے کر رکھے ہیں۔ کسی تحریر کو مدیران کی رائے سے اختلاف کی بنا پر رد نہیں کیا جائے گا۔ حتیٰ کہ ذاتی تنقید بھی اسی احترام سے شائع کی جائے گی جس تواضع سے ہم خیال تحریریں شائع ہوتی ہیں۔ ملک کے کچھ حصوں میں مقامی زبانوں کے زیر اثر بہت سی تحریروں میں املا، صرف و نحو اور تذکیر و تانیث کی اصلاح کار دارد ہو جاتی ہے۔ جہاں تک ممکن ہو ان تحریروں کو بھی جگہ دی جاتی ہے۔ بہت مرتبہ ایسے لکھنے والوں سے درخواست کی گئی کہ اپنی تحریر کسی مقامی استاد کو دکھا لیا کریں۔ تاہم کسی کی انا آڑے آتی ہے تو کوئی اتنا تردد کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔ بعض مہربان تو غلطیوں کی نشان دہی پر یہ بھی فرما دیتے ہیں کہ اگر ہمیں ہی صحیح زبان لکھ کے بھیجنا ہے تو مدیر کس مرض کی دوا ہیں۔ گویا مدیر نظر کو نذر ، وہم کو وحم اور عوام کے صیغہ تانیث کو تذکیر میں بدلنے پر مامور ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہماری صحافت پر چھبیس مہر یافتہ ریٹائرڈ فوجی افسر دفاعی تجزیہ کار کا روپ لئے نازل ہوئے تھے۔ چھاﺅنی اور شہر کی اقدار ہی نہیں، زبان بھی مختلف ہوتی ہے۔ چنانچہ اب ہم ’عام عوام‘ اور عالمی دنیا جیسے لفظ برداشت کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ ’ہم سب‘ میں عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کو خاص احترام دیا جاتا ہے۔ کسی سیاسی رہنما کے بارے میں بدزبانی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ علمی تحریریں عزت و احترام سے شائع ہوتی ہیں لیکن فرقہ وارانہ مناظروں اور عقائد کے مباحث کا بھاری پتھر چوم کر ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔ دور دراز مقامات خاص طور پر گلگت بلتستان، بلوچستان اور اندرون سندھ سے لکھنے والوں کو خصوصی مقام دیا جاتا ہے۔ تاہم تشدد، لاقانونیت اور نفرت انگیز تحریریں روک لی جاتی ہیں۔
گزشتہ دنوں برادر محترم طاہر محمود چوہدری کی ایک تحریر ’زیر حراست ملزمان پر جنسی تشدد کیوں کیا جاتا ہے؟ پولیس افسران کا موقف‘ کے عنوان سے موصول ہوئی۔ آپ کا نیازمند روزی روٹی کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ برادرم عدنان کاکڑ سے سہو ہوا اور یہ تحریر کالم میں شائع ہو گئی۔ یہ تحریر دستوری، قانونی اور اخلاقی لحاظ سے سخت قابل اعتراض تھی۔ اس میں مبینہ پولیس افسران کی طرف سے ملزمان پر تشدد بلکہ جنسی تشدد کی افادیت بیان کی گئی تھی۔ پاکستان کے دستور اور قانون میں پولیس سمیت کسی سرکاری اہلکار کو کسی شہری پر کسی صورت تشدد کا حق نہیں۔ ملزم جسمانی ریمانڈ پر ہو یا جوڈیشل ریمانڈ میں، سرکاری تحویل میں تشدد بذات خود جرم ہے۔ 2006ء میں پاکستان ایذا رسانی یا ٹارچر کے بارے میں بین الاقوامی معاہدے (CAT) پر دستخط کر کے اس کی توثیق بھی کر چکا ہے۔ کسی ریاستی اہلکار کا کسی شہری پر اعتراف جرم کے لیے یا کسی دوسرے مذموم مقصد مثلاً پیسے بٹورنے کے لیے تشدد کرنا بذات خود قانون کی خلاف ورزی ہے۔ طاہر محمود چوہدری صاحب نے جن پولیس افسروں سے مو¿قف لیا، بذات خود زیر حراست ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے پاکستان ایک متشدد معاشرہ ہے۔ خاص طور پر متوسط یا مراعات یافتہ طبقے کے افراد پولیس تشدد کی تائید کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ معاشرے میں تشدد کو جواز مل جائے تو کوئی شہری تشدد کے امکان سے محفوظ نہیں رہتا۔ سیاسی بنیادوں پر تشدد کیسے ختم ہو گا۔ طاقتور افراد ذاتی مقاصد کے لئے تشدد کیوں اختیار نہیں کریں گے۔ پولیس اور جیل حکام بدعنوانی کے لئےتشدد کیوں نہیں کریں گے۔ ایک دلیل یہ دی گئی کہ ایسا تشدد ان ملزموں پر کیا جاتا ہے جن کے بارے میں یقین ہو کہ انہوں نے جرم کیا ہے۔ لیکن یہ فیصلہ اگر پولیس اہلکار نے کرنا ہے تو عدالتوں کو بند کر دینا چاہیے۔ نطام عدل شہری کے تحفظ کا ذریعہ ہے، اس کی توہین یا ایذا رسانی کا اختیار نہیں۔ غیر ملکی حکمرانوں نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے محکموں کو غیر انسانی سلوک کا اختیار اس لئے دیا تھا کہ اس زمین  کے بیٹے اور بیٹیاں سر اٹھا کے نہ چل سکیں۔ آزادی ہمیںملی نہیں اس لئے ہم آج بھی بے بس رعایا ہیں۔ حسن ناصر، نذیر عباسی اور حمید بلوچ تو کچھ ذمہ دار سیاسی کارکنوں کی جرات کے باعث تاریخ کا حصہ بن گئے۔ ہمارا ایک عام قیدی آج بھی فرانس کے باستیل میں قیدی ہے۔

ہمارے ملک میں کانسٹیبل سے لے کر آئی جی تک کم ہی کوئی پولیس افسر ایسا ملے گا جو تشدد کے حق میں دلائل کی ایک فہرست نہ رکھتا ہو۔ بعض پولیس افسر تو تشدد کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ کچھ کو ماورائے عدالت قتل کا ماہر قرار دیا جاتا ہے۔ تشدد کے حامی پولیس اہلکار آمریتوں کے لئے اثاثہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ انسانی خصائص اور ضمیر سے محروم ہو چکے ہوتے ہیں۔کیا کسی عدالت نے راؤ انوار سے دریافت کیا کہ ایک مہینے سے زائد عرصے تک عدالت میں طلبی کے باوجود کہاں روپوش تھے۔ 1981ء میں بطور کلرک پولیس میں بھرتی ہونے والے راؤ انوار کے اکتوبر 2021 میں نو بینک اکاؤنٹ کیسے وجود میں آئے۔ یہ کراچی کے غریبوں کا خون ہے جسے تشدد کا خوف دلا کر جمع کیا گیا۔

قانون کے ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے کوئی چھبیس برس پہلے مجھے کینیڈا کے ایک پولیس افسر سے اس موضوع پر بات کرنے کا اتفاق ہوا۔ بدقسمتی سے یہ افریقی نژاد پولیس افسر بھی ’غیر معمولی حالات میں‘ تشدد کو جائز سمجھتا تھا۔ قانون کا مقصد جرم کو ختم کرنا ہے لیکن سرکاری تحویل میں تشدد انصاف سے تعلق نہیں رکھتا۔ یہ ریاستی اہلکار کے اختیار اور زیر حراست شہری کی بے بسی کا افسانہ ہے۔ یہ بحث طویل ہو سکتی ہے۔ سرکاری تحویل میں تشدد کے تمدنی اور سیاسی پہلو زیر بحث لائے جا سکتے ہیں۔ یہاں اس کا محل نہیں۔ صرف یہ عرض کرنا مقصد ہے کہ برادرم طاہر محمود چوہدری کی اس قابل اعتراض تحریر کی ’ہم سب ‘ پر اشاعت نے مجھے ذاتی طور پر ندامت اور اذیت میں مبتلا کیا ہے۔ بھائی طاہر محمود سمیت تمام لکھنے اور پڑھنے والوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ معاشرے میں کسی بھی جواز کی آڑ میں تشدد کی کبھی حمایت نہ کریں۔ تشدد معاشرے میں جرم ختم نہیں کرتا بلکہ قانون شکنی، مزید تشدد اور مجرمانہ سرگرمیوں کے منظم نیٹ ورک کو جنم دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments