قافلہ کا جشن آزادی پڑاؤ اور سید فخرالدین بلے کی شاہکار نظم ”مٹی کا قرض“ ( 4 )


جب جناب اختر حسین جعفری اپنا کلام سنا چکے تو اشفاق احمد خاں صاحب نے اختر حسین جعفری صاحب کی جاندار اور جذبہ ء حب الوطنی سے بھرپور شاعری سے ہی سرا ملاتے ہوئے حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت کے چند پہلوؤں کے حوالے سے گفتگو فرمائی اور ان کے بعد علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ صاحب نے بھی تحریک پاکستان میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا کردار کو اپنی گفتگو کا موضوع بنایا۔ محترمہ بانو قدسیہ آپا اور محترمہ صدیقہ بیگم نے تحریک پاکستان میں خواتین کے کردار کے تناظر میں بہت خوبصورت اور معلومات سے بھرپور گفتگو فرمائی۔

محترمہ بشری رحمن صاحبہ نے بھی گفتگو میں بھرپور حصہ لیا اور اس خاص موقع کی مناسبت سے کلام بھی پیش کیا۔ اس کے اداکار محمد علی صاحب نے ماحول پر چھائی ہوئی سنجیدگی اور رنجیدگی کو ختم کرنے کے لیے ہجرت سے جڑے چند ایسے واقعات سنائے کہ جو تھے تو سنجیدہ نوعیت کے مگر مزاح کے تاثر سے بھرپور۔ سینئر صحافی، شاعر اور اخبار جہاں کے ادبی رپورٹر اور کالم نگار اسرار زیدی صاحب نے قیام پاکستان میں قلم کاروں کی خدمات کے موضوع پر اظہار خیال فرمایا۔

اس کے بعد ڈاکٹر محمد اجمل خان نیازی صاحب نے جناب احمد ندیم قاسمی صاحب سے بصد احترام قافلہ پڑاؤ کی کارروائی مزید آگے بڑھانے کے لیے کچھ ان الفاظ میں اجازت طلب کی کہ قاسمی صاحب اگر آپ اجازت دیں تو اب میں قافلہ سالار جناب سید فخرالدین بلے صاحب کو زحمت کلام دوں۔ اس کے جواب میں احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا جی جی ضرور آپ زحمت کلام دیجے اور فرمائش کرنے کے لیے میں، محمد علی صاحب، جناب کلیم عثمانی صاحب، اختر حسین جعفری صاحب اور آپ سب تو موجود ہیں ہی۔ لہذا میری خواہش ہے کہ سید فخرالدین بلے صاحب سب سے پہلے تو

آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر

نظم۔ چھ ستمبر عطا فرما دیں اور اس کے بعد نظم مٹی کا قرض اور اس کے بعد آپ سب کی جو جو بھی فرمائش ہو لیکن اس سے قبل کہ آپ سید فخرالدین بلے کو زحمت کلام دیں، میں سید فخرالدین بلے صاحب کا ایک قطعہ پیش کردوں کہ جو میں نے کسی سیاسی تجزیے میں پڑھا تھا ملاحظہ فرمائیے

جان گئے ہیں جب سے درباں سلطانی کے راز
زاغ و زغن کے نرغے میں ہیں شاہین و شہباز
بھٹک رہا ہے صحرا صحرا قافلہ ء جمہور
شامل ہے آواز جرس میں بوٹوں کی آواز
سید فخرالدین بلے
(نوٹ: برسوں بعد یہی قطعہ آواز جرس کی زینت بھی بنا: مطبوعہ اگست 1995
جلد 7، شمارہ 30 )

اس کے ڈاکٹر اجمل نیازی نے سید فخرالدین بلے صاحب کو زحمت کلام دی تو انہوں نے کمال انکساری اور عاجزی سے فرمایا کہ احمد ندیم قاسمی صاحب نے جو حکم فرمایا ہے اسی کے مطابق پہلے پیش خدمت ہے نظم چھ ستمبر

نظم۔ 6۔ ستمبر: آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر
(ایک نظم 65 کی پاک بھارت جنگ پر )
نظم نگار :۔ سید فخرالدین بلے
چھ ستمبر کی سحر لائی تھی ظلمت کا پیام
وحشت و حیوانیت کا بربریت کا پیام
بھارتی سینا نے شب خوں مار کر لاہور پر
اہل ایماں کو دیا قرب قیامت کا پیام
۔
دھن پہ توپوں کی اہنسا کے بھجن گاتے ہوئے
سوتے شہروں پر بموں کے پھول برساتے ہوئے
رات کو پچھلے پہر ”پربھات پھیری“ کے لئے
سورما! آئے لہو اشنان کرواتے ہوئے
۔
امتیاز حق و باطل کو مٹانے کے لئے
آٹھ صدیوں کا ہر اک قرضہ چکانے کے لئے
بھارتی اور جنگ بازی توبہ توبہ ’رام رام
آئے تھے وہ پاک بھارت کو ملانے کے لئے
۔
شرمیں پنہاں خیر تھا اور حق کی عظمت کا پیام
جرات و پامردمی و عزم و شجاعت کا پیام
شکر ہے رب کا ہمیں بھارت کے اس شب خون سے
مل گیا بیداری و تنظیم ملت کا پیام
۔
اپنی کثرت اور طاقت پر وہ نازاں تھے ادھر
اہل ایماں بے نیاز ساز و ساماں تھے ادھر
دیدنی تھا درحقیقت منظر میدان جنگ
وہ بھی حیراں تھے ادھر اور ہم بھی حیراں تھے ادھر
۔
ٹینکوں کے سامنے ہم ہو گئے سینہ سپر
ہر جواں باندھے ہوئے تھا جان دینے پر کمر
منظر کرب و بلا تھا شہر میں اقبال ؒ کے
اڑ رہا تھا رفعتوں پر پرچم خیرالبشر
۔
پی رہے تھے حق کے متوالے شہادت کے سبو
راہ حق میں جان دے کر ہو رہے تھے سرخرو
سرزمین پاک کے جانباز، حق کے پاسباں
پڑھ رہے تھے کلمۂ حق خون سے کر کے وضو
۔
مصطفی و مرتضیٰؓ و فاطمہؓ کے نورعین
منتظر تھے حوض کوثر پر شہیدوں کے حسینؓ
آ رہی تھی سبز گنبد سے ندائے الجہاد
غزوۂ لاہور تھا ہمرشتۂ بدر و حنین
۔
ہاتھ میں لے کر اٹھے تھے ہم صداقت کا علم
خود ارادی اور انسانوں کی عظمت کا علم
دیکھ لیں اہل نظر اب بھی شفق کے رنگ میں
اڑتے ہیں شام و سحر شوق شہادت کے علم
۔
ان کے بکتر بند دستوں، ٹینکوں کی دھجیاں
ہر طرف بکھری پڑی تھیں ”ہنٹروں“ کی دھجیاں
معجزہ اک ہو رہا تھا ہر محاذ جنگ پر
اڑ رہی تھیں چودھری کے ”ارجنوں“ کی دھجیاں
۔
شانتی کی بھیک ڈر کر مانگتی سینا کا حال
سر پہ رکھ کر پاؤں رن سے بھاگتی سینا کا حال
سامراجی نا خداؤ آؤ آ کر دیکھ لو
اپنے آلات حرب اور بھارتی سینا کا حال
۔
یدھ کرتے ہی ظفر مندی کے دعوے کیا ہوئے
ہند میں لاہور پر قبضے کے چرچے کیا ہوئے
بھارتی آکاشوانی آج کیوں خاموشی ہے
بج رہے تھے چھ ستمبر کو جو ڈنکے کیا ہوئے
۔
اپنی پسپائی سے ”رن کچھ“ میں تو پچھتائے تھے تم
اب بتاؤ کس کی شہ تھی؟ کس پہ اترائے تھے تم
بھول کر تاریخ اپنی جنگ کرنے کے لئے
سورماؤ! یہ بتاؤ کس لئے آئے تھے تم
۔
جیتنے آئے تھے تم جب ارض پاکستان کو
رو رہے تھے کس لئے پھر چھمب و راجستھان کو
اپنی کثرت اور ہتھیاروں پہ تھا جب تم کو مان
یدھ میں پھر کیوں بچاتے پھر رہے تھے جان کو؟
۔
حق کی خاطر کھیل جائیں گے ہم اپنی جان پر
بچہ بچہ جان دے دے گا وطن کی آن پر
چھمب، واہگہ اور چونڈہ کے شہیدوں کی قسم
آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر
نظم۔ 6۔ ستمبر: آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر
(ایک نظم 65 کی پاک بھارت جنگ پر )
نظم نگار :۔ سید فخرالدین بلے

شرکائے قافلہ پڑاؤ نے اس شاہکار نظم پر بھرپور داد دی، سبحان اللہ سبحان اللہ، اللہ اکبر، اللہ اکبر، مکرر مکرر، پھر سے عطا ہو کی آوازوں سے ہال گونج اٹھا۔ سید فخرالدین بلے صاحب نظم کا ایک اک بند تین تین، چار چار مرتبہ پڑھنے پر مجبور ہو گئے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی، علامہ سید غلام شبیر بخاری اور جناب اشفاق احمد صاحب نے بیک زبان کہنا شروع کر دیا کہ اج تے ہو گئی بلے بلے، اج تے ہو گئی بلے بلے۔ بلکہ اشفاق احمد خاں صاحب نے تو یہ تک فرمایا کہ

جے میں ویکھاں اوہدے ولے، بلے، بلے، بلے

اداکار محمد علی صاحب اور شرکائے قافلہ نے اشفاق احمد صاحب کی تائید فرمائی۔ احمد ندیم قاسمی صاحب، اختر حسین جعفری صاحب، شہزاد احمد صاحب اور جناب خالد احمد صاحب نے داد دینے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments