ہیلی کاپٹر
قصوروار تم خود ہو
کہ یہاں پیدا کیوں ہوئے
پیدا ہو گئے تو جوان کیوں ہوئے
جوان ہوئے تو اُس طرف کیوں گئے
چلے ہی گئے تو سیلابی ریلے میں کیوں پھنس گئے
قصور وار تم خود ہو
اور تمہارے ساتھ بارشیں
اور وہ پانی جو ریلے کی صورت بہ رہا تھا
اور وہ پتھر جو سیلابی ریلے کے درمیان پڑا ہوا تھا
جس پر تم نے کئی گھنٹے پناہ لیے رکھی
اور آسمان کی طرف دیکھتے رہے
اور کسی آہنی پرندے کے پروں کی گڑگڑاہٹ کے منتظر رہے
اور وہ سارے لوگ جو محفوظ جگہوں پہ کھڑے
تصویریں بناتے
اور مدد کے لیے پکارتے رہے،
ٹھنڈے دفتروں میں آرام دہ کرسیوں پہ بیٹھے
میزوں پہ رنگین و تازہ گل دستے سجائے
میٹنگیں کرتے، ٹھٹھے لگاتے
روبوٹوں اور بے حس مشینوں کو کالیں کرتے رہے
قصور وار تم سب ہو
جنہیں اتنا بھی نہیں پتا
کہ یہ یورپ نہیں جہاں
ہزاروں میل دور ایک مکینک زخمی ہوتا ہے تو
ہوائی جہاز اسے لینے پہنچ جاتا ہے
جہاں ایک بوڑھے بیمار کو بر وقت ہسپتال پہنچانے کے لیے
ایف سکسٹین فوراً حرکت میں آ جاتا ہے
کیونکہ زخمی اور بیمار اُن کے شہری تھے
قصور وار تم خود ہو
جو اتنا بھی نہیں جانتے
کہ یہ سرزمین تمہاری ہے لیکن تمہارے لیے نہیں
یہاں ہیلی کاپٹر لیڈر کے لیے ہوتا ہے یا جرنیل کے لیے!
- مجھے یہ نظم نہیں لکھنی چاہیے تھی - 03/09/2023
- ہیلی کاپٹر - 27/08/2022
- مئی میں “دسمبر کی رات” اور کتابوں کی چھانٹی کا غم - 22/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).