’‘ ان کے چہروں پر بھوک ہوتی ہے، بداعتمادی ہوتی ہے، جیسے وہ خلا میں لٹکے ہوئے ہوں، وہ جو سب سے زیادہ طاقتور سمجھے جاتے ہیں، وہ دن بدن کمزور ہو رہے ہیں، عفریت جو انہوں نے پیدا کیا تھا کہ وہ دوسروں کو کھا جائے، اب ان کی طرف بڑھ رہا ہے ”۔ جن بوتل سے باہر آ چکا ہے اور وہ عدلیہ اور افواج پاکستان کو کھلم کھلا للکار رہا ہے۔ سر عام یہ کہا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت 25 کلو میٹر تک محدود ہو گئی ہے۔ پاکستان کی وفاقی اکائیوں کو باندھ کر رکھنے والی چھتر چھایا افواج پاکستان ہیں۔ یہ ایک بلینکٹ ہے جس نے پورے پاکستان کو ڈھانپا ہوا ہے اگر یہ بلینکٹ ختم ہو جائے تو پاکستان کو بکھرنے میں کتنی دیر لگے گی؟

بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ایک نعرہ لگا تھا علیحدگی کا، ٹرینیں روک لی گئی تھیں یہ ہے دوسری پرت جو پاکستان کو جوڑے ہوئے ہے اگر اس کو یعنی ذرائع رسل و رسائل کو سندھ میں نفرت، غصے اور انتقام میں منقطع کر دیا جاتا ہے۔ عین اس وقت پنجاب کی پبلک ’‘ نہ کھپے ”کا نعرہ بلند کر رہی ہو گی۔ کون سی پبلک ؟ سیلاب میں گھری ہوئی پبلک ، ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی پبلک، نفرت میں ڈوبی ہوئی پبلک اور غصے میں بپھری ہوئی پبلک؛ان حالات میں کیا اس سماج کو بکھرنے سے کوئی روک پائے گا؟

پبلک کی نفرت کم کرنے کے لیے اگر وفاقی حکومت ٹیکس اکٹھا کرنے سے انکار کر دے تو کون سی ایسی مشین ہے جو اپنا کام کرنا بند کر دے گی؟ وہی جس پر سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے۔

سوویت یونین کے ساتھ کیا ہوا تھا؟

ایک طرف لوگوں پر بڑھتا ہوا ٹیکسوں کا بوجھ تھا دوسری طرف ڈبل روٹی ناپید تھی۔ سب سے بڑی مشین نے چلنا بند کر دیا تھا۔ نتیجتا ًسب سے پہلے لتھوانیا پھر مالدووا، استونیا، لٹویا، آرمینیا، اور جارجیا نے علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔ گورباچوف کے پاس کیا جواز رہ گیا تھا کہ وہ ان ریاستوں کی پبلک کے اس فیصلے کو رد کر سکے؟ اگرچہ وہ عیسائی ریاستیں تھیں وہ سوویٹ یونین سے علیحدہ ہو گئیں۔ پھر ہاؤس آف کارڈز گرنے لگا۔

گورباچوف کے مستعفی ہونے کے بعد سوویت یونین ختم ہو گیا۔ پھر بچ جانے والی ریاستوں کے اتحاد میں سے آذربائیجان نے علیحدگی کا اعلان کر دیا یہ مسلمان ریاست تھی اب اس کی علیحدگی کے فوری بعد باقی ریاستیں تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، قازقستان وغیرہ علیحدہ ہو گئیں۔ سوویٹ یونین دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں تحلیل ہو گیا اور یوں ایک سپر پاور اور دنیا کی دوسری بڑی اکانومی اپنے ہی بوجھ تلے دب کر ختم ہو گئی۔

پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

عمران خان نے کہا تھا تین ٹکڑے ہو جائیں گے تو ٹھیک ہی کہا ہو گا۔ شاید یہ پلان کا حصہ ہو، شاید حالات کا شاخسانہ، شاید امیج بلڈنگ۔ بڑھتی ہوئی موجودہ پولرائزیشن میں اگر سندھ علیحدگی کا مطالبہ کر دیتا ہے، کراچی اگر کچھ مزاحمت کرے تو کرے باقی سندھ ٹرینوں کو روک کر کھڑا ہو جائے گا، ان حالات میں جہاں ہم پنجاب والوں کا سانس بھی کراچی سے آ رہا ہو، تیل کراچی سے، گیس کراچی سے اور باقی اشیاء کراچی سے ہمارا کیا بنے گا؟

صرف ریل کو بند کرنے کی دیر ہے فوج اور بپھری ہوئی پبلک آمنے سامنے ہوں گے۔ فوج کو ایک مہرے شہباز گل کے منہ سے حکم عدولی کا کہلوا دیا گیا ہے۔ اب ان فوجیوں کی شعوری یا لاشعوری طور پر انکار کرنے کی دیر ہے سندھ کو پاکستان کے ساتھ باندھ کر رکھنے والی چھتر چھاؤں ختم ہو جائے گی۔ اس دوران پنجاب بھی سندھ کے ساتھ ہی ڈیہہ جائے گا۔ یہ تو ہوئے دو حصے باقی خیبر پختون خواہ اور بلوچستان یہ ہو گا تیسرا حصہ۔

پچیس کلو میٹر تک محدود حکومت کا شوشہ پہلے ہی چھوڑ دیا گیا ہے، یہ فوج اور یہ ٹرین وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں۔ وفاق کی اس بھاری مشین کو چلانے کے لیے ٹیکس درکار ہیں اور ٹیکس کولیکشن کا شعبہ بھی وفاق کے پاس ہے۔ جتنا زیادہ وہ ٹیکس کا بوجھ پبلک پر ڈالیں گے اتنی ہی نفرت کو انھیں سہنا پڑے گا۔ اختلافی آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ان حالات میں کیا پچیس کلو میٹر تک محدود وفاقی حکومت، پاکستان کی اکائیوں کو باندھ کر رکھ پائے گے؟

وفاقی حکومت تو پہلے ہی نفرت کا شکار ہے معاشی ابتری کے اس دور میں وہ مزید نفرت کا شکار ہوتی چلی جائے گی اور یوں اس کا اختیار ختم ہوتا چلا جائے گا یوں یوں وفاقی حکومت کا اختیار ختم ہوتا جائے گا توں توں ہمارا سماج بکھرتا چلا جائے گا۔ نعوذ باللہ من ذالک، میرے منہ میں خاک۔

سیلاب سب کچھ بہا کر لے گیا، ہر چیز تہہ و بالا ہو گئی۔ ڈیم ٹوٹ رہے ہیں، آبادیاں ملیا میٹ ہو رہی ہیں، انفراسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے ؛کہاں ہے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی؟

وفاقی حکومت کے خلاف نفرت بڑھانے کے اسباب مسلسل پیدا کیے جا رہے ہیں، پراپیگنڈا مہم الگ ہے، حکومت کو محدود سے محدود تر کیا جا رہا ہے، آئی ایم ایف سے معاہدے ختم کیے جا رہے ہیں تاکہ وفاقی حکومت ٹیکسوں کا مزید بوجھ پبلک پر ڈالے یا پھر ملک دیوالیہ ہو جائے۔ کیا ایک دیوالیہ ملک اپنی اصلی ہیئت میں قائم رہ سکتا ہے؟

اس دفعہ کوئی زرداری نہیں ہو گا جو ’‘ پاکستان کھپے ”کا نعرہ لگائے گا الٹا پنجاب ’‘ نہ کھپے نہ کھپے“ کا نعرہ لگا رہا ہو گا۔ اب بھی وقت ہے اس جن کو بوتل میں بند کر دیں۔ لیکن اس جن کو بند کون کرے گا؟ جنہوں نے اس جن کو پیدا کیا ہے کیا وہ اس جن کو واپس بوتل میں بند کر پائیں گے؟ اگر اس جن کو بند نہیں کیا جاتا تو اس جن کو پیدا کرنے والے خود نفرت کی زد میں ہوں گے کیونکہ لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ اس سوغات کو لانے والے مجرم ہیں۔

انہیں تو کئی دہائیوں تک اقتدار درکار تھا جس کے لیے اس مونسٹر کو پیدا کیا گیا تھا۔ جو پلان ترتیب دیا گیا تھا اس کی بنیاد صرف اور صرف ہوس اقتدار تھی باقی سب پارٹس اینڈ پارسل ہیں۔ یہ موسنٹر اور اس کے تخلیق کار اس گرینڈ ڈیزائن کا حصہ ہیں۔ یہ کیسی پروپورشن ہے کہ اگر تخلیق کار حاوی ہو جاتے ہیں تو مونسٹر بھی اقتدار میں آ جائے گا اگر مونسٹر اقتدار میں آ جاتا ہے تو تخلیق کار بھی اپنی مسند پر براجمان ہو جائیں گے۔

باقی رہ گئی عظمی، چونکہ یہ ان کی ہی لے پالک ہے اقتدار کے کھیل میں ان کی ساجھے دار ہے۔ پہلے تو کچھ نہ کچھ بھرم رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی اب اس تردد کو بھی بلائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ واضح طور پر تفریق پیدا ہو چکی ہے عظمی اور ’‘ جوتے ”بطور ادارہ دونوں عمران خان کے نشانے پر ہیں۔ عظمی وہ جو کپڑے اتار چکی ہے اور جوتے وہ جن کی پالش اترنا شروع ہو چکی ہے۔ بکھرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔

سیلاب کے اثرات شہروں تک پہنچنا شروع ہو گئے ہیں سیلاب سے لوگوں کو بچانے کی بجائے لوگوں میں نفرت کی آگ کو مسلسل بڑھایا جا رہا ہے، ایسی خلیج پیدا کی جا ہی ہے جسے پاٹا نہ جا سکے۔ یہ اقتدار کا ظالم کھیل ہے، پاکستان کی سالمیت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک کو انارکی کے دروازے پر لا کر کھڑا کر دیا جائے تا کہ بہتر سودے بازی کی جا سکے۔ وہ جوا کھیل رہے ہیں۔ اس جوئے میں ہارنے کی قیمت پاکستان ہے۔ لنگوٹ ہوا میں اڑ رہا ہے، غلاظت ہمارے اوپر گر رہی ہے، مانسٹر کے پاؤں ہماری گردن تک پہنچ رہے ہیں، ابھی سانس گھٹنا شروع ہوا ہے، موت واقع ہونے جا رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ پاکستان اپنی آخری ہچکیوں کی طرف بڑھے اس مونسٹر اور اس کے تخلیق کاروں کو بوتل میں واپس بند کرنا ہو گا ورنہ پاکستان کے ختم ہونے میں کوئی دیر نہیں ہے۔

پاکستان کھپے