اقبال کا تصورِ عشق


مسلمانوں کے ہاں صدیوں سے عشق کی دو اصطلاحیں رائج ہیں عشق حقیقی اور عشق مجازی۔ عاشق حقیقی سے مراد وہ عشق لیا جاتا ہے جو پاک ہو اور اس کے اندر جنسیت کا کوئی شبہ نہ ہو۔ یعنی خدا تعالیٰ کی ذات سے عشق۔ کلاسیکی شاعری میں عشق سے مراد عاشق اور محبوب کے درمیان تعلق کا ہونا ہے۔ اس میں ہجر و وصال کے قصوں کا بیان تھا۔ رونے دھونے کا عمل تھا۔ نالے اور آہوں کا بیان تھا اور مایوسی کا عنصر تھا۔

علامہ اقبال کے ہاں عشق کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ انھوں نے عقل کے مقابلے میں عشق کو اہمیت دی ہے۔ عشق کے متعلق اقبال نے جو کچھ کہا اگر اسے جمع کیا جائے تو ایک پورا دفتر بن سکتا ہے۔ صوفیا نے عشق سے مراد خلوت لیا ہے یعنی یہ صرف خلوت میں ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ صورت حال رہبانیت کی طرف چلی جاتی ہے۔ اور اسلام میں اس سے منع کیا گیا ہے۔

علامہ محمد اقبال کے نزدیک عشق کی بہترین مثال رسول نبی کریم کی زندگی ہے۔ جس میں خلوت اور جلوت کا توازن پایا جاتا ہے۔ علامہ کی زندگی میں عشق مجازی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ عہد جوانی میں ان کے ہاں اس کے کچھ اثرات ملتے ہیں لیکن وہ بہت کم ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اقبال کسی فرد کے عشق میں کبھی آئے ہی نہیں کہ وہ اس کے غم میں آہیں بھرتے۔ ان کے نزدیک یہ عشق نہیں جسمانیت کی پیدا کردہ ہوس ہے۔

اس بارے میں اقبال کہتے ہیں :۔
اے درد عشق! ہے گہر آبدار تو
نہ محرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو
پنہاں تہ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفل نو کی نگاہ ہے
یہ دور نکتہ چیں ہے کہیں چھپ کے بیٹھ رہ
جس دل میں تو مکیں ہے وہیں چھپ کے بیٹھ رہ

”بانگ درا“ میں ایک نظم ”پیام عشق“ کے عنوان سے ہے، اس میں اقبال کا نظریہ عشق نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتا ہے :۔

سن اے طلبگار درد پہلو میں ناز ہوں تو نیاز ہو جا
میں غزنوی سومنات دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہو جا

”پیام مشرق“ میں ایک نظم ”عشق“ کے عنوان سے ہے، اس میں نظر آتا ہے کہ عقل بہت زیادہ کوشش کے باوجود زندگی کا کوئی راز عیاں کرنے سے قاصر ہے۔ اور بالآخر عشق اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ نظم ”نقش فرنگ“ میں بھی اقبال نے اس کی وضاحت کی ہے کہ عقل انسانوں کو گمراہ کرتی ہے اور مادہ پرست بنا دیتی ہے۔ زندگی کی گہرائیاں اس کی دسترس سے باہر نہ تھیں لیکن اس نے اپنے آپ کو محدود کر لیا۔ عقل اگر نفس انسانی کی گہرائیوں کا جائزہ لیتی تو عرفان نفس کے ساتھ عرفان رب بھی اس کو حاصل ہو سکتا تھا۔ عقل کی اس تنگ روی اور عشق کی مداحی میں اقبال کے کلام کا ایک کثیر حصہ ہے۔

اقبال کے نزدیک کائنات کی ساری رونق عشق ہی کے دم سے ہے ورنہ اس سے پہلے اس کی فضا بے جان اور بے کیف تھی۔ اس کا تذکرہ یوں کرتے ہیں :۔

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدہ تصورات
عشق کی ایک جست نے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں

علامہ اقبال کا تصور عشق بہت مضبوط ہے۔ ان کے نزدیک کائنات کا دار و مدار عشق پر ہے۔ عشق کے بغیر کسی چیز کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ بقول اقبال:۔

مرد خدا کا عمل عشق سے ہے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پہ حرام
(بال جبرئیل)
زندگی را شرع و آئیں است عشق
اصل تہذیب است، دین است عشق
(جاوید نامہ)

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عشق کے بارے میں یہ رائے اردو اور فارسی کے بیشتر شاعروں کے ہاں موجود ہو۔ لیکن اقبال کا معاملہ دوسروں سے بہت الگ ہے۔ دوسروں کے ہاں یہ صورت حال ہے کہ دل پر جو کچھ گزری یا ذہن کی ایک خاص حالت میں محبت کو جس طرح محسوس کیا بالکل اسی طرح بیان کر دیا۔ لیکن یہ کیفیات چونکہ لمحاتی ہوتی ہیں اور وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں، اس لیے اثر اور تاثر کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔

ایسی صورت میں انھیں عشق سے متعلق منتشر خیالات کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔ ان میں کسی وحدت فکر کی تلاش تو بے سود ہی ہو گی۔ اس کے برعکس اقبال کا تصور عشق اس قسم کے حاصل و مقصود سے لاتعلق ہے۔ ان کا تصور عشق دوسرے شعرا کے متصوفانہ یا رسمی عشق سے بالکل مختلف ہے۔ عشق ان کے یہاں زندگی کا ایک زبردست محرک عمل ہے۔ جو ایک طرف تسخیر فطرت میں انسان کی مدد کرتا ہے دوسری طرف اسے کائنات کے ساتھ متحد رکھتا ہے۔

عشق کی بدولت آدمی میں آزادی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور ساری بندشیں اس کے سامنے کمزور اور بے وقعت ہو جاتی ہیں۔ حقائق کا راز اس پر عیاں ہو جاتا ہے اور تمام علوم اس کے غلام بن جاتے ہیں۔ بقول اقبال:۔

من بندہ آزادم عشق است امام من
عشق است امام من عقل است غلام من

علامہ اقبال نے اپنی شاہکار نظم ”مسجد قرطبہ“ کا ایک حصہ عشق کے لیے مخصوص کیا۔ نظم کے آغاز میں انھوں نے روز و شب کے حادثات کا تذکرہ کیا ہے۔ اور پھر اس بات کی وضاحت کی ہے کہ دنیا اور اس سے منسلک ہر چیز فانی ہے۔ کسی بھی چیز کو بقائے دوام حاصل نہیں۔ یہ تمام کارجہاں بے ثبات ہے۔ اور پھر آگے بتایا ہے کہ اس جہاں میں اگر کسی چیز کو بقا حاصل ہے تو وہ عشق ہے۔ جو ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے۔ اس کا تذکرہ یوں کرتے ہیں :۔

مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو!
عشق خود اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
(مسجد قرطبہ)

اور پھر اقبال نے اس عشق کا ذکر کیا ہے جس سے وہ خود منسلک تھے۔ اور جو تمام شعرا کے نظریہ عشق سے منفرد ہے۔ یعنی حضور نبی کریم کی ذات سے عشق۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کا تصور عشق پر یقین نظر آتا ہے۔ اس میں مایوسی اور نا امیدی نام کی کوئی چیز نہیں۔ بقول اقبال:۔

عشق دم جبرئیل، عشق دل مصطفی
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاس الکرام
عشق فقیہ حرم، عشق امید جنود!
عشق ہے ابن السبیل، اس کے ہزاروں مقام

اقبال نے عشق کے بارے میں جو کچھ کہا وہ قلب کی لمحاتی کیفیات کے زیر اثر نہیں کہا بلکہ ایک نظام فکر کے تحت کہا۔ اقبال وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اردو شاعری کے قدیم نظریہ عشق سے بغاوت کی۔ مریضانہ خیالات اور منفی تصور عشق کے مقابلے میں زندگی اور عشق کا ایک بھر پور تصور پیش کیا۔ بقول اقبال:۔

عشق کے مضراب سے نغمۂ تار حیات
عشق ہے نور حیات، عشق ہے نار حیات

تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ کلاسیکی شاعری میں عشق کا جو تصور تھا اقبال نے اس سے انحراف کیا اور بدلے میں ایک بھرپور اور جاندار عشق کا تصور دیا۔ جس میں آہیں اور مایوسی کو دخل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments