کیا سیلاب واقعی گناہوں کی سزا ہیں


کہتے ہیں کہ سقراط نے جب زہر کا پیالہ پی لیا تو اس کے شاگرد کریٹو نے پوچھا کہ اے استاد بتا کہ ہم آپ کی تجہیز و تکفین کن رسومات کے مطابق کریں۔ سقراط ہنسا اور بولا میری ”تجہیز و تکفین“ اور پھر سنجیدہ ہو کر کہنے لگا کہ کریٹو میں نے تم لوگوں کو تمام عمر سمجھایا کہ لفظوں کو ان کے صحیح معنوں میں استعمال کیا کرو مگر معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے کریٹو یاد رکھو کہ لفظوں کا غلط استعمال سب سے بڑا گناہ ہے۔

آج کل پاکستان کے تمام علاقوں بالخصوص خیبر پختونخوا، جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کے مختلف اضلاع میں شدید قسم کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ دوسری طرف مذہبی سکالر منتخب نمائندگان اور آئمہ کرام خطبات کے دوران، ٹیلی ویژن پر اور سوشل میڈیا پراس بات کا برملا اظہار کر رہے ہیں کہ سیلاب کے آنے کی وجہ لوگوں کے گناہ ہیں۔ ان گناہوں سے توبہ کی جائے اور اتنے وظائف اور استغفار کی تسبیح پڑھ کر گناہوں کا کفارہ کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔

اس طرح کے بیانات اور خیالات کا منظر عام پر آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی مسلم دنیا میں اس طرح کے خیالات اور تصورات پائے جاتے رہے ہیں۔ بلکہ مغربی دنیا خود پانچویں صدی اور پندرہویں صدی کے درمیانی زمانہ میں معاشرتی اور تہذیبی سرگرمیوں کے لحاظ سے انتہائی پستی کا شکار رہی ہے۔ سولہویں صدی مغرب کی تاریخ میں ایک اہم صدی کے طور پر جانی جاتی ہے جس میں ترقی پسند اور سیکولر خیالات کا بول بالا ہوا۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے جس مذہب کے عظیم دانشوروں اور سکالرز جیسے الکندی ابوبکر رازی بو علی سینا ابن ہشام خوارزمی البیرونی اور ابن رشد کی وجہ سے مغرب ترقی پسند اور سیکولر خیالات اور نظریات کا گہوارہ بنا اسی مذہب کے پیروکار اور دانشور اکیسویں صدی میں وہی باتیں دہرا رہے ہیں جو یورپ ان کے اسلاف کی وجہ سے پندرہویں صدی عیسوی میں متروک کر چکا ہے۔

اب سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیلاب اور قدرتی آفات کا آنا انسانوں کے گناہوں کی وجہ سے ہے یا معاشرے یا ریاست کی نالائقیوں اور خراب کارکردگیوں کے ثمرات ہیں۔ جیسا کہ صوفیائے کرام کہتے تھے کہ سچائی کو خود تلاش کرو خود پہچانو تو اس اعتبار سے اس نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ سیلاب انسانوں کے گناہوں کی وجہ سے آتے ہیں یا ریاست کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے۔ اگر تو سیلاب اور قدرتی آفات انسان کے گناہوں کے ثمرات ہیں تو پھر سب سے زیادہ سیلاب اور قدرتی آفات کو دبئی، سنگاپور، کوالالمپور، پیرس اور باقی دوسرے سیاحتی مراکز اور شہروں میں آنا چاہیے جہاں نائٹ کلب اور سکن اکانومی کا دور دورہ ہے۔

مگر سیلاب اور قدرتی آفات تو ہمارے ہاں بہت زیادہ آ رہی ہیں جہاں دنیا کا سب سے بڑا تبلیغی مرکز موجود ہے اور سب سے زیادہ حفاظ، حجاج اور علماء کرام پائے جاتے ہیں۔ اگر مروجہ گناہوں اور نیک کاموں کے نسبت و تناسب سے دیکھا جائے تو ہمارے ہاں قدرتی آفات اور بلیات کا ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ قدرت کے مظاہر پر انحصار کرتا ہے گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جو ممالک متاثر ہوں گے پاکستان ان میں ساتویں نمبر پر ہے اور آلودگی نے چوتھے نمبر پر۔

اگر تمام پاکستانی مل کر استغفار نماز استسقاء اور صوم و صلوۃ کی پابندی کریں پھر بھی پاکستان میں آفات اور بلیات کا سامنا رہے گا۔ کیونکہ یہ اب ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے اس لیے عالمی برادری اس طرح کی آفات کو نہ تو قدرتی آفت کا درجہ دیتی ہے بلکہ اس سے نمٹنے کے لیے ممکنہ تعاون کی بجائے ان ممالک کے اوپر زور دیتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی تربیت کریں تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نقصانات کا تدارک ہو سکے۔ اس لئے اگر آپ عالمی برادری کے رسپانس کو دیکھیں تو 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب سے کم نظر آ رہا ہے کیونکہ عالمی برادری سمجھتی ہے کہ یہ مظہر ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے جو ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔

یہ بات اب انسانوں کے قابو سے نکل چکی ہے ہاں مگر ہم ان قدرتی آفات سے اپنے آپ کو محفوظ کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے استغفار اور توبہ کی نہیں بلکہ ریاستی اور معاشرتی طور پر کچھ چیزوں کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلی اصلاح تو یہ ہونی چاہیے کہ پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستوں کو سب سے پہلے صاف کیا جانا چاہیے اور ان کے اردگرد گرین بیلٹس کو لگایا جانا چاہیے۔ چھوٹے بڑے ڈیمز بنائے جانے چاہئیں۔ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے عوام کو ریاست کے اوپر سیاسی اور سماجی دباؤ بڑھانا پڑے گا۔ جس طرح لوگ مذہبی اجتماعات اور ثقافتی میلوں کے لیے جمع ہوتے ہیں اگر اسی طرح وہ ان اصلاحات کے نفاذ کے لئے مختلف شہروں میں جمع ہوں تو ریاستی اداروں کے پاس کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وہ ان اصلاحات کو نافذالعمل قرار دیں نہ دے پائیں۔

دوسری بنیادی کوشش یہ کی جانی چاہیے سماجی و فلاحی اداروں کو چاہیے کہ وہ سیلاب یا قدرتی آفات کے آنے کے بعد عوام سے چندہ اکٹھا کر کے متاثرہ خاندانوں کو دینے کی بجائے ان آفات اور بلیات کے آنے سے پہلے لوگوں کے اندر ماحول دوست اقدامات کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں۔ اور عوام کی اس طرح کی آفات سے نمٹنے کی تربیت کریں۔ تاکہ پہلے تو ان آفات کے تدارک کا ممکنہ حل نکالا جا سکے اگر خدا نخواستہ یہ آفات آجاتی ہیں تو ان سے کیسے نمٹا جائے۔

تمام مدارس، مساجد، سکولز کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کو فرسٹ ایڈ یعنی ابتدائی طبی امداد اور سیلاب و آفات سے نمٹنے کی تربیت دی جانی چاہیے تاکہ متعلقہ ریسکیو اہلکاروں اور امداد کے پہنچنے سے پہلے اپنے گلی محلے اور گاؤں کے لوگوں کو طبی و تکنیکی امداد اور سہولیات پہنچانے میں پیش قدم رہیں۔ اس طرح سے ہم سیلاب اور قدرتی آفات کی تباہ کاریوں سے ممکنہ حد تک اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو بچا سکتے ہیں۔

ورنہ سیلاب اور قدرتی آفات آتی رہیں گی اس طرح کے نقصانات ہوتے رہیں گے۔ اور ہم ہر دفعہ امدادی کیمپ لگا کر چندہ اکٹھا کر کے چند ٹینٹ، کپڑے اور راشن تقسیم کرتے رہیں گے۔ اور اپنے لوگوں کو یہ بتاتے رہیں گے ہم ایک عظیم قوم ہیں کہ اس سے پہلے بھی قدرتی آفات اسی طرح آتی رہی ہیں اور قوم دل کھول کر متاثرہ خاندانوں پر خرچ کرتی رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments