خط بنام نیرہ نور


پیاری نیرہ نور جی!

آپ سے دل اور روح کا تعلق ہے۔ پھولوں جیسی نرم فطرت والی پروقار سی شخصیت تھیں آپ۔ سنجیدگی آپ کے حسن کا انمٹ حصہ تھی۔ شاید آپ جنم سے ہی ایسی ہوں گی۔ آپ سے ملاقات کی تمنا ہمیشہ دل کی گہرائیوں میں موجزن رہی۔ مگر بے درد زمانے کی وجہ سے ایک لکیر جو عام آدمی اور فنکار کے درمیان کھنچی رہتی ہے کبھی یہ تمنا پوری نہ ہوئی۔ سوچا بھی نہیں تھا کہ آپ یوں اچانک راہ عدم کو روانہ ہو جائیں گی۔ تخلیق کا سفر انسان کو اندر سے بے چین کیے رکھتا ہے۔

آپ کے ٹھہرے ہوئے چہرے پہ بے چینی ہمیشہ کروٹیں لیتی تھی۔ شاید یہ سر کے سفر کی بے قراریاں ہوں گی۔ آپ کی آواز کا سریلا پن آپ کے گلے کی مرکیاں، آپ کی آواز کی لوچ سننے والوں میں بے لوث مسرت پیدا کرتی تھی۔ نیرہ جی! آپ کی سادگی، سر تال اور فن اس پھوٹتے ہوئے بیج کی طرح تھا جس کا ایک حصہ ہواؤں کی طرف بڑھتا ہے اور دوسرا حصہ مضبوطی سے اپنی جڑوں میں گڑا رہتا ہے۔ پیاری نیرہ نور جی! آپ اپنے ایک انٹرویو میں کہتی ہیں کہ آپ نے بچپن میں گانا سنا بہت گایا بہت کم۔

کم عمری میں ہی کملا جھریا، سہگل، بیگم اختر وغیرہ کو سنا اور گائیکی میں آپ ایک اعلیٰ مقام پہ پہنچیں۔ جب پہلی دفعہ بچپن میں پی ٹی وی کے زمانے میں صبح کی نشریات میں آپ کو دیکھا تو آپ کی نمکین پیشانی کے گرد آبنوسی سیاہ بال آپ کے شانوں پر بکھرے ہوتے۔ آپ کی کھلی کھلی روشن آنکھیں اور آبنوسی بالوں سے لگتا تھا کہ آپ بنگال کی رہنے والی ہیں۔ جب آپ ”اے جذبۂ دل جب گر میں چاہوں“ گاتیں تو ہمارے دل بھی گرم جوشی سے دھڑکنے لگے۔

پیاری نیرہ نور جی!

پھر ہماری کچی عمروں کی پگڈنڈیوں پہ پھلانگنے کے دن شروع ہو گئے۔ ”اے عشق ہمیں برباد نہ کر“ ، ”روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناؤں پیا“ ، ”تیرا سایہ جہاں بھی ہو، سجنا پلکیں بچھا دوں“ یہ سب گانے ہمارے ہونٹوں پہ بے سرے سروں میں سجے رہتے۔ ماں ڈانٹتیں کیا تم اتنی سریلی گلوکارہ کی مٹی پلید کر رہی ہو۔ پر ہم کہاں رکنے والے تھے۔ جب ہمارا پچپن تھا تو ڈانٹ ڈپٹ کا ایک رواج ہوتا تھا۔ ماں سے سکول کے دنوں میں اکثر ڈانٹ پڑا کرتی تو آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گرنے لگتے اور ہم بے اختیار گانے لگتے ”ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو کہ ہم کو جگنوؤں کے تتلیوں کے دیس جانا ہے“ ۔ ہر ایک انسان کی آپ کے گائے ہوئے گیتوں کے ساتھ مختلف یادیں وابستہ ہیں۔ آپ نے فیض صاحب کا کلام گایا اور امر کر دیا ”کدھرے نہ پیندی دساں وے پردیسیا“ کمال گایا آپ نے۔ ”آج بازار میں پابجولاں چلو“ ایسے ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں گایا کہ وہ کلام زبان زد عام ہو گیا۔

پیاری نیرہ نور جی!

آپ سے ایک اور تعلق بہت سہانا اور پیارا ہے اور وہ ہے این۔ سی۔ اے کا۔ ان دنوں ہم کزنز آڈیو کیسٹس پر آپ کے اور عالم گیر صاحب کے گانے سنا کرتے تھے۔ میں فخر سے سب کو بتایا بلکہ جتایا کرتی تھی کہ آپ ہمارے کالج کی ہیں۔ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود آپ سادہ لبادے پہنتیں۔ میک اپ سے عاری آپ کا چہرہ میک اپ زدہ چہروں کو ماند کر رہا ہوتا تھا۔ بہت پیاری نیرہ نور جی! آپ مگن ہو کر سریل انداز میں شاعری کو محسوس کرتے ہوئے گایا کرتی تھیں۔

آپ حسد و بغض سے پاک روح تھیں۔ گلوکاری اس وقت گائیکی کا درجہ اختیار کرتی ہے جب اسے کوئی سمجھنے والا گائیک ہو۔ نیرہ جی آپ نے گائیکی اور زندگی کے بھید جاننے کے لیے گایا۔ آپ کا ایک انٹرویو پڑھا تھا جس میں آپ بتا رہی تھیں کہ میں ہر اتوار کے روز اپنے گھر کے جالے خود اتارتی ہوں۔ تفصیلی صفائی خود کرتی ہوں۔ میرے لیے بڑی حیرت کی بات تھی کیوں کہ مجھے لگتا تھا کہ مشہور و معروف گائیکہ تو کوئی گھر کے کام وام کرتی ہی نہیں ہوگی۔ فن اور اس کی افزائش زندگی کی طرح ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہنے والے ہیں جہاں ہمہ وقت راز افشانی کا عمل جاری رہتا ہے۔ لیکن ہمارا زندہ رہنے کا عمل غیر شعوری ہے۔ تاہم پھر بھی چند خوش قسمت روحیں ایسی ہیں جو اپنی ہر شے کو جانچ کی کسوٹی پر پرکھتی ہیں۔

پیاری نیرہ نور جی!

آپ بھی ان خوش قسمت روحوں میں سے تھیں جو رنگ و نور کی چکا چوند میں رہنے کے باوجود اپنی سادگی اور خود تلاشی کے نور کے سفر میں چلتی رہیں۔ سنا ہے سفر ہی منزل ہوتی ہے۔ یہ دنیا ہستی بے پایاں کی دنیا ہے۔ شاعروں نے گیتوں کی شاعری میں سچائی بیان کی ہوتی ہے۔ جب آپ نے ”گھٹا گھنگھور“ کے بادلوں کو گنگنایا ہو گا تب بارش کی چھما چھم  نے آپ کے نغموں میں سوز و گداز پیدا کیا ہو گا۔ بلا شبہ زندگی بہت پیاری چیز ہے لیکن زندگی کی دانائی اس کی دست برداری کی طاقت میں پنہاں ہے کیونکہ موت ابدیت کا دروازہ ہے۔

نیرہ جی! آپ اپنے حصے کا بہترین کام کر کے اس دنیا سے چلی گئیں۔ زندگی کا سانس دراصل ابدیت کا سانس ہے۔ جسم فنا ہوجاتا ہے لیکن اعمال زندہ رہتے ہیں۔ فنکاروں کو ہستی بے پایاں اور درد کو محسوس کر لینے کا فن آتا ہے۔ نیرہ جی! آپ زندگی کی سحر سے شام تک اپنی روح کے راگ، رنگ اور مقصدیت کو پا گئی تھیں۔ موت اور زندگی پر قادر مالک ایک ہی ہے۔ دنیا میں آنا اور چلے جانا دونوں اس کی خوشی کا اظہار ہیں۔ نیرہ جی! آپ کو علم تھا کہ دنیا کی حقیقت اصلی ہے۔ آپ نے سادہ اور قناعت بھری زندگی گزاری۔ اب آپ سے ملنے کی تمنا آپ کے نغمے سننے کے عمل میں جاری رہے گی۔ اللہ رب العزت آپ کو فردوس بریں میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments