خوابوں کا شہزادہ – افسانہ


حافظ صاحب ہسپتال میں وارڈ کے باہر بڑی بے چینی سے چکر لگا رہے تھے۔ آج ان کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش تھی۔ بیوی سعدیہ زچگی کے لئے اندر تھی۔ آج ان کو امید تھی کہ بیٹے کی پیدائش ان کے گھر روشنی اور مسرت لے کر آئے گی۔ پہلی دو بیٹیوں کی پیدائش نے ان کو مایوس کر دیا تھا۔ ان کے ہونٹ مسلسل دعا کے لیے ہل رہے تھے کہ اللہ ان کی خواہش پوری کر دے۔ نرس نے وارڈ سے باہر آ کر حافظ صاحب کو مبارک دی۔ حافظ صاحب مبارک ہو آپ کے گھر رحمت آئی ہے۔

حافظ صاحب نے نرس سے دوبارہ پوچھا کہ بیٹا ہوا کہ بیٹی، حافظ صاحب، آپ کے ہاں بیٹی ہوئی ہے۔ حافظ صاحب نے جوں ہی بیٹی کا سنا ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور بغیر سعدیہ سے ملے گھر کی طرف چل پڑے۔ آج ان کا بہت برا دن تھا۔ وہ بار بار اللہ سے شکوہ کرتے کہ ان کا کیا قصور ہے کہ وہ اولاد نرینہ سے محروم ہیں اور اللہ کو ان کی کون سی بات بری لگی کہ ان کی حد درجہ دعاؤں کے بعد بھی بیٹا پیدا نہیں ہوا۔

سعدیہ کے گھر آنے پر حافظ صاحب اس سے سخت ناراض تھے۔ سعدیہ بھی تیسری بچی کی پیدائش پر خود بھی پریشان تھی۔ حافظ صاحب نے گھر کے زنان خانہ میں آنا بند کیا ہوا تھا۔ ایک دن سعدیہ نے ہمت کر کے حافظ صاحب سے بات کرنے کی کوشش کی مگر حافظ صاحب خاموش رہے۔ حافظ صاحب کی ناراضگی اور سعدیہ کی پریشانی کی وجہ سے ابھی تک نوزائیدہ بچی کا نام بھی نہ رکھا گیا تھا۔ وہ پیدائش کے چالیس دن بعد بھی بے نام تھی۔ آخر سعدیہ نے ہمت کر کے بیٹی کا نام ممتاز رکھا۔

ممتاز نام رکھنے کی وجہ بھی شاید یہ تھی کہ اب ان کے ہاں لڑکا ہو گا۔ ممتاز سارا دن ماں کی محبت اور توجہ کے لیے ترستی رہتی جب کہ اس دوران سعدیہ کو دوبارہ حمل ٹھہر گیا۔ اس نے کتنی منتیں مرادیں مانگی کہ اگر لڑکا ہوا تو وہ پورا کرے گی۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کہ سعدیہ نے بیٹے کو جنم دیا۔ حافظ صاحب ہسپتال نہ تھے جب انہیں معلوم ہوا کہ بیٹا ہوا تو دوڑتے ہوئے ہسپتال پہنچے اور بیٹے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ آ گیا میرا وارث۔

سعدیہ کی آنکھوں میں بھی خوشی کے آنسو تھے کہ بیٹے کی پیدائش نے جیسے اس کو معتبر بنا دیا تھا۔ اب ان کی تمام توجہ کا مرکز سعد تھا۔ وہ کبھی بڑی بہنوں کی گود اور کبھی ماں کی گود میں رہتا۔ ممتاز سارا دن گھر میں اکیلی کسی کونے میں پڑی رہتی۔ وہ باشعور ہونے لگی تھی اس کو سمجھ نہ آتی تھی کہ اس کا قصور کیا ہے کہ نہ ماں اس سے پیار کرتی تھی نہ وہ کبھی والد کی توجہ کی مستحق ٹھہری۔

ممتاز  آہستہ آہستہ اپنی دنیا بنانے لگی۔ وہ کمرے میں اکیلی بیٹھی خود سے باتیں کرتی رہتی۔ رات کو سوتے ہوئے آسمان کے تارے گنتی، اس کو راتیں بڑی خوبصورت لگتی تھیں۔ وہ رات کو گھر کی اوپر والی منزل پر اکیلی گھنٹوں کھڑے ہو کر گزار دیتی تھی۔ ممتاز کو جب سکول داخل کیا تو وہ اپنی بہنوں کے ساتھ سکول جانے لگی۔ سکول میں بھی وہ زیادہ تر خاموش رہتی اور اس کی دوستی کسی سے نہ ہو سکی۔ سارا دن وہ خاموشی سے سکول میں گزار دیتی گھر میں بھی اس کی توجہ آسمان کے تاروں کے طرف ہوتی تھی۔

سارا دن وہ رات ہونے کا انتظار کرتی رہتی۔ سعدیہ، سعد کی پیدائش کے بعد بھی تین مزید بیٹوں کی ماں بن چکی تھی۔ وہ اپنی زندگی میں مست اور خوش تھی کہ اس نے چار بیٹوں کو جنم دیا۔ بڑی بیٹیاں کوثر، اور زرینہ ماں کا ہاتھ بٹاتی اور سعدیہ ان کو بہت پسند کرتی تھی۔ کوثر ماں کی پسندیدہ بیٹی تھی۔ وہ گھر کے کاموں میں بھی طاق تھی اور سکول کی پڑھائی میں بھی خوب تھی۔ زرینہ بھی اس کے ساتھ رہتی تھی لیکن ممتاز اپنے نام کی طرح الگ دنیا بسائے ہوئے تھی۔

ممتاز نے جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو اس کا خوبصورت ترین لڑکیوں میں شمار ہونے لگا۔ پہلی مرتبہ اس کو اپنی زندگی میں توجہ ملنے لگی۔ وہ جب بھی سکول سے گھر آتے جاتے کئی جملے اس کے کان میں سنائی دیتے اور وہ ان کو سنتی لیکن کبھی جواب پلٹ کر نہ دیتی رات کو تارے، دن کو تعریفی جملے اس کے ہمنوا ہوتے اور وہ خواب بننے لگتی۔ ایک دن سکول سے آتے ہوئے ایک وجہیہ سے لڑکے نے اس کے ہاتھ میں خط تھما دیا ساتھ آنکھ کا اشارہ بھی کیا اور کہا جواب ضرور دینا۔ ممتار نے خط سنبھال لیا اور کتاب میں چھپا لیا۔ سارا دن خاموشی سے گزر گیا رات کو تارے جب نکلے تو ممتار میں نئی روشنی تھی۔ اور اس نے خط کھولا اور پڑھنا شروع کیا۔

ہونٹ عنابی، رنگ گلابی
اس پر ایک عجب مہتابی
ہم دل کیسے نہ دے دیتے
حسن کی تازہ تھی شادابی

جاناں تمھیں کیا نام دوں۔ تم اس دنیا سے الگ کوئی مخلوق ہو۔ جب سے تمھیں دیکھا ہے۔ میری راتوں کی نیند کھو گئی ہے۔ تم مجھے نہ ملی تو میری زندگی جہنم بن جائے گی۔ تم ہی تو جنت کی حور ہو مجھے ایسا لگتا ہے تم غلطی سے اس دنیا پر اتر آئی ہو۔ جواب ضرور دینا۔

تمھارا اور صرف تمھارا عاشق
دانیال خان

ممتاز نے خط کی تحریر نجانے کتنی بار پڑھی۔ ایسا لگا کہ اس کا خوابوں کا شہزادہ آ گیا ہے۔ جو اس کو اس جہنم سے نکالے گا۔ جہاں آج تک کسی نے اس پر کسی قسم کی توجہ ہی نہ دی تھی۔ میرا خوابوں کا شہزادہ دانیال خان۔ یہ سب سوچتے ہوئے اس کو نیند آ گئی۔

صبح سکول جاتے ہوئے اس کو دانیال کا ہی خیال تھا۔ سکول میں ریاضی، سائنس پڑھتے ہوئے، اس کے ذہن میں صرف دانیال ہی چھایا رہا۔ واپسی پر ہر آہٹ اور سیٹی پر اس کو دانیال کا ہی خیال آتا رہا۔ جب گلی کی نکڑ پر اسے دانیال کی صورت نظر آئی تو اس کے دل مین اتھل پتھل ہونے لگی۔ جب دانیال نے اس کا راستہ روکا اور اپنا جواب مانگا۔ تو اس نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔ ”مل جائے گا“ اور آگے بڑھ گئی۔ گھر آ کر اس نے کئی مرتبہ سوچا کہ جواب لکھنا چاہیے۔ آخر اس نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر لکھ دیا۔

مجھے تم اچھے لگے ہو۔
تمھاری ممتاز۔

اس نے چٹ لکھ کر کتاب میں چھپا دی۔ سکول سے واپسی پر دانیال کے سامنے چٹ گرا دی۔ دانیال نے چٹ اٹھا کر پڑھی اور سیٹی بجائی۔ اب یہ سلسلہ بڑھنے لگا۔ روز اب ممتاز کو دانیال کا انتظار رہتا۔ رات ممتاز کی خط پڑھتے گزرتی۔

ایک دن جب دانیال، ممتاز سے بات کر رہا تھا اور خط پکڑا رہا تھا تو حافظ صاحب نے دیکھ لیا۔ حافظ صاحب نے ممتاز کو آواز دی اور وہیں سے مارتے ہوئے گھر لے آئے۔ سعدیہ کو بلا کر کہا دیکھ ”حرام زادی“ تیری بیٹی کیا گل کھلا رہی تھی۔ آج سے اس کا سکول جانا بند۔ حافظ صاحب کے جانے کے بعد ممتاز کی خوب کھنچائی کی۔ حافظ صاحب اور سعدیہ نے مل کر طے کیا کہ اس کا رشتہ کر کے اس کو اس کے گھر کا کریں ورنہ بہت بدنامی ہو جائے گی۔ حافظ صاحب نے دنوں دنوں میں ممتاز کا رشتہ طے کر کے ممتاز کی شادی طے کر دی۔

ممتاز نے خالد کو کبھی دل سے قبول نہ کیا۔ شادی کی رات ہی ممتاز نے خالد سے لڑائی کردی۔ اور علیحدہ جا کر سو گئی۔ خالد جو کہ ایک صلح جو شخص تھا۔ اس نے ممتاز کو قبول کیا اور رشتہ نبھانے کی کوشش جاری رکھی۔ ممتاز کے دو بچے ہو گئے۔ لیکن اس کی روش میں ذرا بھر تبدیلی نہ آئی۔

ممتاز کو ایسا محسوس ہو تا کہ وہ ایک جہنم سے دوسرے جہنم میں آ گئی تھی۔ خالد نے محسوس کیا کہ ممتاز ذہنی مریض ہے تو اس نے ڈاکٹر کو دکھایا۔ ڈاکٹر نے ممتاز کا چیک اپ کیا او ر خالد کو بتایا کہ ممتاز کو SHEZOTYPAL ہے۔ جو کی ایک شدید قسم کی نفسیاتی مرض ہے۔ خالد نے علاج کی کوشش جاری رکھی۔ لیکن ممتاز نے خالد سے کہا تم مجھے پاگل قرار دینا چاہتے ہو۔ جبکہ تم پاگل ہو۔ خالد نے حافظ صاحب کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ حافظ صاحب نے خالد کو سمجھایا، ٹھیک ہو جائے گی، فکر نہ کرو۔

خالد کی ہر کوشش رائیگاں گئی اور آخر تنگ آ کر اس نے ممتاز سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ممتاز اب بھی راتوں کو تاروں کے سنگ، اپنے خوابوں کے شہزادے کا انتظار کر رہی ہے۔

ۤ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments