بحالی کے ساتھ ڈیموں کی تعمیر: کئی طوفان آئیں گے اب اس سیلاب سے آگے


کئی طوفان آئیں گے اب اس سیلاب سے آگے
کہانی تو چلے گی اختتامی باب سے آگے
تخیل ساتھ ہے، بے خوابیوں کا پھر گلہ کیسا
کئی اک خواب باقی ہیں شکست خواب سے آگے
خدا کے نام پر کتنے خدا ہم نے بنا ڈالے
جبیں پر ہیں کئی سجدے، گڑی محراب سے آگے
ابھی سے پاؤں کے چکر سے یاور تھک گئے کیونکر
بھنور باقی کئی ہیں اور اس گرداب سے آگے

ہمدردی ’ایثار‘ محبت ’مدد اور سخاوت کے جذبات ہی انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیتے ہیں۔ مصیبت زدہ لوگوں کی مدد اور ان سے ہمدردی انسانی جبلت میں ہے۔ یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ دوسروں کے دکھ درد اور تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ انسان انس سے ہے جس کا مطلب ہے : لوگوں سے محبت کرنا۔ اسلام انسانیت کی بلا تفریق خدمت کی تلقین کرتا ہے ضرورت مندوں اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد اسلام کی بنیادی تعلیم کا خلاصہ ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”اور جو لوگ اپنے مال اللہ کی رضا حاصل کرنے اور اپنے آپ کو (ایمان و اطاعت پر ) مضبوط کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی سطح پر ہو اس پر زوردار بارش ہو تو وہ دوگنا پھل لائے ’اور اگر اسے زوردار بارش نہ ملے تو (اسے ) شبنم (یا ہلکی سی پھوار) ہی کافی ہو‘ اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے“ ۔ ارشاد نبوی ہے کہ ”تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو“ ( بخاری) ۔

ہجرت مدینہ کے بعد نبی کریمﷺ نے مہاجرین مکہ اور انصار مدینہ کے درمیان مواخات کا جو رشتہ قائم کیا وہ رہتی دنیا تک ایسی قابل تقلید مثال ہے کہ جس پر عمل کر کے ہم سرخرو ہو سکتے ہیں۔ ایک مسلم معاشرے کا رکن ہونے کے ناتے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ضرورت مندوں کی مدد کریں۔ ہماری ہمدردی و مدد سے کسی کی جان بچ سکتی ہے ’کسی کی مشکل آسان ہو سکتی ہے تو یہ ہمارے لیے روحانی تسکین کا سبب ہونا چاہیے۔ دین اسلام میں اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال میں سے اس کی خوشنودی کے لیے خرچ کرنا اہم حیثیت رکھتا ہے۔ سیلاب زدگان کی مدد و بحالی کے لیے حکومتی اور نجی دونوں سطحوں پر کام ہو رہا ہے اور بیرونی ممالک سے بھی امدادی سامان اور رقوم آ رہی ہیں۔ اس موقع پر ہمیں یہ مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ دوست ممالک کی جانب سے امداد قوم پر اخلاقی قرض ہوتا ہے۔

پہلی عالمی جنگ کے بعد ترکیہ جب آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا تو اس وقت برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے ان کے لیے عطیات ’امدادی سامان اور طبی عملہ بھیجا تحریک خلافت بھی چلائی جس کا ذکر آج بھی ترک بڑی محبت سے کرتے ہیں۔ 2010 میں ترکیہ کے موجودہ صدر جناب رجب طیب اردوان‘ ترک خاتون اول محترمہ امینہ اردوان کے ہمراہ پاکستان کے خصوصی دورے پر آئے۔ محترمہ امینہ نے اس وقت اپنا ہار یہ کہتے ہوئے سیلاب زدگان کے لیے عطیہ کیا کہ 1920 ء میں برصغیر کی مسلم خواتین نے اپنے زیورات بیچ کر ترک بہن بھائیوں کی مدد کی تھی مشکل گھڑی میں پاکستان کا یہ حق بنتا ہے کہ ہم اسی جذبے کا مظاہرہ کریں۔

اب بھی ترکیہ ’سعودی عرب‘ کویت ’قطر‘ آذربائیجان ’متحدہ عرب امارات‘ چین امریکہ ’برطانیہ، اقوام متحدہ اور عالمی تنظیموں کی جانب سے امداد کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ ترکیہ اور عرب امارات کے جہاز امدادی سامان لے کر پاکستان کے مختلف علاقوں میں پہنچ چکے ہیں۔ حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کام کرنے والی دیگر فلاحی انجمنیں، مذہبی و سیاسی تنظیمیں اور مدارس کے طلبہ و اساتذہ بھی متاثرین کی مدد کے لیے شب و روز کوشاں ہیں۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سیلاب کے نتیجے میں کم از کم 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو اور بحالی کے عمل میں پانچ برس لگ سکتے ہیں۔ فی الحال تو ریسکیو کا کام جاری ہے۔ بڑا چیلنج پانی کے اتر جانے کے بعد درپیش ہو گا جب بحالی کا کام شروع ہو گا۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ بحالی کے کام کے دوران حکومتی اداروں اور فلاحی انجمنوں کی دل کھول کر مدد کریں تاکہ سیلاب زدگان اپنے علاقوں میں واپس جاکر آباد ہو سکیں۔

قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا لیکن نقصانات کو کم سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ بارشیں دنیا بھر میں ہوتی ہیں اور سیلاب بھی آتے ہیں لیکن ان سے ہونے والے نقصان کو کنٹرول کرنے کے لیے وہاں کی حکومتیں اور ادارے منصوبہ بندی کرتے اور رقوم مختص کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر چین ہر سال اپنے سالانہ بجٹ میں بڑی رقوم رکھتا ہے۔ 2017 ء کے سالانہ بجٹ میں سیلابی صورتحال کے منصوبوں کے لیے 144 بلین ڈالر مختص کیے اس سال بھی چین کے بعض صوبوں میں پاکستان سے بڑا سیلاب آیا مگر منصوبہ بندی کے باعث جانی نقصان نہیں ہوا اور ساتھ ہی افراد کی منتقلی کا کام بھی خوش اسلوبی سے انجام دیا گیا۔

چین نے نہ کسی سے امداد مانگی نہ اس کے زیادہ تذکرے میڈیا پر آئے۔ چین نے اپنے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے 23 ہزار ڈیم بھی بنا رکھے ہیں، وہ تبت میں بھی ایک بڑا ڈیم بنا رہا ہے۔ انڈیا میں پانچ ہزار کے قریب ڈیم ہیں ’امریکہ میں نو ہزار‘ ترکیہ میں ایک ہزار، ایران میں چھ سو اور زمبابوے میں 256 ڈیمز ہیں۔ پاکستان میں سالانہ 140 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے اور ہم صرف 13 اعشاریہ 5 ملین ایکڑ فٹ پانی ملک کے 150 چھوٹے بڑے ڈیموں میں سٹور کر پاتے ہیں۔

دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کو موثر طور پر استعمال کرنے اور سیلاب سے تحفظ کے لیے برطانوی عہد میں بڑی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ نوآبادیاتی عہد میں دریائے سندھ کے پانی سے صوبہ سندھ کے خشک جنوبی حصے کو سیراب کرنے کے لیے وسیع سکھر بیراج تعمیر کیا گیا تھا جس سے 40 لاکھ کیوسک پانی گزرتا تھا ’اب سلٹ بھر جانے سے 10 لاکھ کیوسک پانی بھی خطرہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح 60 اور 70 کی دہائی میں تعمیر کیے جانے والے منگلا اور تربیلا ڈیموں کی گنجائش سلٹ بھر جانے کی باعث کم ہو چکی ہے۔

موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیاں جس تیزی کے ساتھ دنیا کو متاثر کر رہی ہیں اس خطرے کے پیش نظر سائنسدانوں نے وارننگ جاری کر رکھی ہے کہ گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور مستقبل قریب میں اس سے بڑے سیلاب آئیں گے۔ مستقبل قریب ہویا بعید آفات سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے۔ بارش خدا کی رحمت ہے‘ رحمت خدا وندی کو ہماری بدانتظامی زحمت میں بدل دیتی ہے۔ سیلاب کی تباہی سے قوم مشکل دور سے گزر رہی ہے لیکن اپنے اتحاد سے ’اس سخت وقت بھی گزرا جاسکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمران اور سیاستدان دیگر اقوام کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی سطح پر اتفاق رائے سے اس معاملے میں موثر فیصلوں کی طرف بڑھیں گے جن سے مستقبل میں قوم کے لئے یہ بارشیں قدرتی آفت کے بجائے قدرتی نعمت ثابت ہو سکیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس پر توجہ ہی نہیں دی جاتی ڈیموں کی تعمیر ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ اگر ہم ڈیم تعمیر کر کے سیلابی پانی کو ذخیرہ کر لیں تو نقصانات میں واضح کمی ہو سکتی ہے۔

ندی نالوں اور چھوٹے دریاؤں کا سیلابی پانی ڈیموں میں آئے گا تو اس کی رفتار بھی کم ہو گی اور ضرورت کے مطابق اخراج کر کے شہروں اور دیہاتوں کو نہ صرف ڈوبنے سے بچایا جا سکے گا اور سال بھر زراعت بھی کی جا سکے گی۔ یوں سیلابی پانی ہمارے لیے موجب رحمت بن جائے گا۔ 2023 میں پاکستان کے متعلق پیشگوئی ہے کہ وہ آبی بحران کا شکار ہو جائے گا کیوں کہ بھارت نے ہمارے حصے کے دریاؤں پر بھی ڈیم بنا کر ہمارا پانی روک دیا ہے پھر وہ مون سون میں پانی چھوڑ کر ہمیں سیلابی صورتحال سے دوچار کر دیتا ہے اس آبی دہشت گردی کا توڑ چھوٹے بڑے ڈیمز کی تعمیر ہے۔

دریائے سندھ پرکالا باغ ڈیم اس کے لیے بہت آئیڈیل تھا مگر اسے متنازع بنا دیا گیا۔ کاش اس منصوبے پر غور و فکر کیا جاتا اگر یہ ممکن ہو سکے تو اگلی نسلوں کو بھی فوائد حاصل ہوں گے۔ ورنہ چھوٹے ڈیموں کی تعمیر میں تو کوئی رکاوٹ نہیں۔ بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کے باعث جب گلیشیئر بھی پگھل رہے مستقبل میں شدید سیلابوں کی پیشگوئیاں بھی ہمارے سامنے ہیں اور ان سے مستقبل میں اس سے بھی زیادہ نقصانات کا اندیشہ ہے۔ اس لیے یہ ہماری قومی بقا مسئلہ بن چکا ہے۔ نئے آبی ذخائر اور ڈیم وقت کی اشد ضرورت ہیں اس معاملے کو قومی ترجیحات میں اولین حیثیت نہ دی گئی تو خاکم بدہن ملکی بقا اور سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments