چیٹک


رومانہ صرف نام کی رومانہ نہیں تھی، پور پور رومان پرداز تھی۔ رومانویت اس کی نس نس میں لہو بن کر دوڑتی تھی۔ لڑکپن میں اماں سے چھپ کر خواتین کے چٹخارے دار رومانوی ڈائجسٹ اور ناول خیال و لاشعور میں انڈیلنے کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ لاشعوری طور پر ہر مقام پہ خود کو ہیروئن کی جگہ پاتی تھی۔ وہ سوچتی کسی دن عشق پیچاں کی بیل سے ڈھکی اونچی دیواروں والے گھر میں رہنے والا ہینڈسم، ذہین، متین۔ نہیں ذرا شریر نوجوان بس اسے دیکھتے ہی مر مٹے گا اور وہ بہت جلد رومانہ اختر علی سے رومانہ۔ کیا نام ہو گا اس کا۔ خوابوں کی ڈور تھامے وہ لمحے بھر کو توقف کرتی۔ شاہ رخ، گلریز یا پھر شہریار۔ ہاں یہ، رومانہ شہریار؛ کس قدر رومانوی نام ہو گا۔ یوں شہریار کی تلاش میں اس کی نظریں ہر جگہ بھٹکتی پھرتیں۔ بس اسٹاپ پر، یونیورسٹی میں، کسی تقریب میں۔

کہتے ہیں نا شادی کی ایک تقریب میں جانے کتنی شادیوں کی بوائی ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک شادی میں شیراز کی اماں کی نظر میں رومانہ جچ گئی۔ اور چند ہی دنوں میں وہ رشتہ لے آئیں۔ شیراز اس کے خوابوں کے شہزادے کی طرح اونچی حویلی والا تو نہ تھا مگر ہینڈسم اور شریر ضرور تھا۔ محبت کا برملا اظہار کرنا جانتا تھا بس شکر خورے کو اور کیا چاہیے۔ اماں ابا نے بھی خاندان مناسب سمجھا۔ لوگ متمول نہ تھے تو گئے گزرے بھی نہ تھے۔ ان کا خیال تھا رشتے اپنے جیسوں میں ہی کرنے چاہئیں نہ بالا نہ تحت۔ طے پایا فی الوقت نکاح کر دیا جائے، رخصتی چند ماہ بعد ہوگی۔

ادھر نکاح کے بول پڑھائے گئے، ادھر رومانہ نے فیس بک پر اپنی آئی ڈی رومانہ شیراز کردی۔
عرفانہ نے گویا چنک کے کمنٹ کیا ”ایسی بھی کیا چیٹک تھی رخصتی تو ہونے دیتیں۔“
رومانہ نے جواب دیا
”محنت کر حسد نہ کر“
عرفانہ نے لکھا حسد کرے میری جوتی۔

شہر بانو نے فتوی دیا۔ ”اسلام میں نسبت باپ سے ہوتی ہے۔ یہ تو کرسٹان کا رواج ہے کہ شادی کے بعد نسبت بدل دیں۔ اب اگر کسی کی شادی ٹوٹ جائے تو کیا نام لوٹائیں گے۔“

فیمنسٹ عریشہ نے لکھا ”اگر مرد شادی کے بعد اپنا نام نہیں بدلتا تو عورت کو کیا چیٹک ہے کہ منحوس مردوے کا نام چپکا لے۔“

ثریا ہلالی کا خیال تھا۔ ”ایک لڑکی کو اپنی شناخت قائم رکھنی چاہیے وہ شناخت جو اسے زندگی کے پہلے روز عطا ہوئی، اور جو تابہ ابد رہے گی۔ جس شناخت کے ساتھ وہ پلی بڑھی بھلا اس سے کیونکر اور کیوں دستبرداری اختیار کی جائے۔“

یوں رومانہ کی فیس بک وال پر گرماگرم بحث چھڑ گئی۔ رومانہ کو کوئی دلیل قائل نہیں کر سکی۔ اس نے ایک نظر پڑھ کر دوسری نظر بھی ڈالنا گوارا نہ کیا۔ بھلے سے ترقی پسند خواتین کتنا ہی جھلائیں، اور بنیاد پرست مذہبی کتنا بھی اکسائیں، اس کے نزدیک نام کا اتصال، محبت کی معراج تھا۔

چھ مہینے جھٹ پٹ گزر گئے۔ رخصتی ہونے کی دیر تھی، رومانہ شناختی کارڈ پر نام تبدیل کروا کے گویا تاجور ہو گئیں۔ عام شوہروں کی مانند شیراز اس ادا پر نہال ہو گیا، لاڈ سے اسناد پر بھی نام تبدیل کرنے کی فرمائش کر ڈالی۔ یہ ذرا مشکل مرحلہ ثابت ہوا۔ رومانہ بیگم کو دفتروں کے اتنے چکر لگانے پڑے کہ چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔ وہی چھٹی کا روز، جس دن ان کا نام رومانہ اختر علی رکھا گیا تھا اور جسے انہوں نے شوہر دیوتا کے استھان پر قربان کر دیا تھا۔

رومانہ کو اندازہ نہیں تھا کہ سرکاری دفتروں میں کوئی کام کروانا اس قدر اذیت ناک ہو سکتا ہے۔ روز نت نئے بہانے بنا کر ٹال دیا جاتا ہے، کبھی کلرکوں کبھی افسروں کی خوشامد کرنی پڑتی ہے اور کبھی کبھی بلکہ اکثر و بیشتر خوشامد کے میٹھے کو چاندی کا ورق بھی لگانا پڑتا ہے۔ کئی بار اس کا دل چاہا بس رہنے ہی دے مگر شیراز میاں پھر مہمیز کر دیتے، مانو یہ بھی کوئی تمغہ ہوا جسے پاکر مرد سرخیل ہوجاتا ہے۔ قصہ کوتاہ، تمام دستاویزات پر رومانہ کے والد کا نام مٹا کر میاں کا نام لگا دیا گیا جوں کسی نے پرانی کینچلی اتار پھینکی ہو۔

سال بھر میں ہی ان کی گود ہری ہو گئی۔ ننھی پری کے آنے سے ہر طرف رنگ بکھر گئے۔ چھٹی کے روز عقیقے کے ساتھ اس کا نام رکھا گیا عروہ شیراز۔ تب بھی رومانہ کو یاد نہ آیا کہ بائیس سال پہلے چھٹی پر ایسے ہی چاؤ سے اس کا نام رومانہ اختر علی رکھا گیا تھا۔

شیراز نے ننھی کی پیدائش پر نیا گھر لے کر رومانہ کو مسرور کر دیا۔

راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا کہ اچانک سنگین موڑ در آیا۔ شیراز کی نوکری ختم ہو گئی۔ ایسا معاشی بھنور آیا تھا کہ کتنوں کی لگی بندھی روزی دریا برد ہو گئی، کتنوں کے چولھے ٹھنڈے پڑ گئے۔ شیراز نے دوسری نوکری کے لئے بڑے ہاتھ پاؤں مارے لیکن معقول آمدنی کا بندوبست نہیں ہوسکا مجبور ” بہت خسیس تنخواہ پر راضی برضا ہونا پڑا مگر چند ماہ بعد وہاں سے بھی جواب مل گیا۔ شیراز مت کماؤ مرد نہیں تھا بیروزگاری اس سے برداشت نہیں ہوئی۔ اس کے مزاج میں چرچڑا پن بڑھتا گیا۔ انہی دنوں بیرون ملک میں مقیم کزن ان کے ہاں مہمان ہوا۔ حالات سے واقف ہونے کے بعد اس نے گھر کے بہت سے اخراجات اٹھانے شروع کر دیے۔ شیراز کے لیت و لعل کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ قرض ہے، نوکری لگ جائے تو لوٹا دینا۔

درحقیقت ارشد ایک بدنظر شخص تھا۔ تنہائی میں رومانہ پر معنی خیز فقرے اچھالا کرتا۔ باورچی خانے کے دروازے کے پیچھے، صحن کی الگنی پر سوکھتے کپڑوں کی آڑ میں، دالان کے ستون کے عقب میں وہ چھوٹی موٹی دست درازی کر جاتا۔ رومانہ اس صورتحال سے ہراساں تھی اور چاہتی تھی کہ وہ جلد چلا جائے۔ شوہر کو آگاہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اسے یہ ہمت کر لینی چاہیے تھی۔ اگر شیراز کو قبل ازیں حقیقت کا ذرا بھی ادراک ہوتا تو شاید اس روز کے منظر کو دیکھ کر یوں بیداد نہ کر بیٹھتا۔

ہوا یوں کہ شیراز نوکری کے لئے انٹرویو دینے نکلا۔ بڑی سڑک پر آیا ہی تھا کہ ایک گاڑی، ابلتے گٹر کے پانی سے فراٹے مارتی گزری اور شیراز کے لباس کو داغدار کر گئی۔ چار پانچ موٹی موٹی مردانہ گالیاں دینے سے غصے کو تھوڑی بہت تسکین تو ملی لیکن داغ تو وہیں رہے۔ اب لباس تبدیل کرنے کے سوا چارہ نہ تھا اس لئے وہ بھناتا ہوا گھر کو مڑا۔ ادھر ارشد اپنے تئیں سمجھ بیٹھا تھا کہ شیراز طویل وقفے کے لئے گھر سے ندارد ہے اور اسے کھل کھیلنے کا زریں موقع حاصل ہو گیا ہے۔

بستر کی چادر ٹھیک کرتی ہوئی رومانہ کو اچانک دبوچ لیا گیا۔ بس وہی لمحہ تھا جب شیراز کپڑے تبدیل کرنے کو لوٹا۔ صدر دروازہ کھلا ہی تھا شاید رومانہ بند کرنا بھول گئی تھی۔ جونہی وہ کمرے میں داخل ہوا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ رومانہ بستر پر پڑی تھی اور ارشد اس پر لدا بوس و کنار میں مصروف تھا۔ رومانہ دونوں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ کر اسے دھکیلنے کی کوشش کر رہی تھی مگر بادی النظر میں شیراز کو یہ وصال با الرضا دکھائی دیا۔

اسے لگا ایک بیروزگار، مقروض، بے مایہ شخص کے آگے دولت مند ارشد رومانہ کی وفا خرید چکا ہے۔ اس کی عقل و خرد سلب ہو چکی تھی یا پھر مرد ہوتا ہی کوتاہ نظر ہے کہ اسے سامنے نظر آنے والے منظر کے پرے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ضروری تو نہیں آنکھ جو دیکھے وہی حقیقت ہو۔ اس نے رومانہ کو موقع ہی نہیں دیا کہ حقیقت بتا پاتی۔ نہ عدالت نہ جرح۔ آپ ہی وکیل، آپ ہی مصنف اور آپ ہی جلاد۔ بلا سوچے سمجھے تین حرفی دار پر چڑھا دیا۔ محبت کا تاج محل ڈھے گیا۔ پل بھر میں اپنا ہرایا ہو گیا۔

رومانہ والدین کے گھر لوٹ آئی۔ عروہ کو شیراز نے چھین لیا تھا۔ روح فرسا واقعات نے رومانہ کی ساری شوخی چھین لی تھی۔ وہ بے دم بے حال بستر پر پڑی رہتی۔ اگرچہ اس کے ماں باپ کو اس کی پارسائی کا یقین تھا لیکن وہ پھر بھی مجرم کی طرح خود کو کسی کونے میں چھپائے رکھتی۔ ابا نے مشورہ دیا کہ خود کو مصروف رکھنے کے لئے کوئی نوکری کر لے

”۔ شہر میں نوکری کے لالے پڑے تھے اسے کون رکھے گا“ اس نے سوچا۔ لیکن ابا کے اصرار پر اخبار دیکھنے شروع کر دیے۔ مونٹیسوری میں خواتین اساتذہ کی ضرورت تھی اس نے مونٹیسوری کی ٹریننگ کی ہوئی تھی اس لئے اپلائی کر دیا۔ انٹرویو کے لئے کئی خواتین آئی ہوئی تھیں۔ باری پر اس کا نام پکارا گیا۔

”رومانہ شیراز“

بارے کسی نے زہر میں بجھا تیر دے مارا۔ رومانہ بھبک گئی جی چاہا پکارنے والے کے منہ میں بھوبل بھر دے۔ پھر خیال آیا اس میں پکارنے والے کا کیا قصور؟ زہر میں بجھا یہ تیر تو خود اس نے ناوک فگن کیا تھا۔ نام پھر سے تبدیل کروانا جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ لہو رستے زخم کو سنبھالتی اندر داخل ہوئی تو اسے ہرگز یقین نہیں تھا کہ وہ کسی بھی سوال کا تشفی آمیز جواب دے سکے گی۔ اسے اچنبھا ہوا جب اسے منتخب کر لیا گیا۔

ننھے منے بچوں کے درمیان وہ اپنی مامتا کی تسکین کرتی۔ اسکول کے مالک اور ایڈمن نعمان صاحب اس کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔ وہ ایک اچھی استاد اور مہربان و نرم خو خاتون تھی۔ نعمان صاحب اکثر سوچتے وہ اس قدر سنجیدہ اور لئے دیے کیوں رہتی ہے۔ کام کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتی حتی کہ ساتھی اساتذہ کے ساتھ بھی اس کا رویہ نپا تلا رہتا۔ نعمان صاحب کا آفس رومانہ کی کلاس کے عین مقابل تھا۔ اگرچہ درمیان میں بارہ فٹ کا کوریڈور تھا لیکن وہ وہ رومانہ کو بچوں کے ساتھ مختلف ایکٹیویٹیز کرتے دیکھ سکتے تھے۔

وہ میانہ قامت اور متناسب جسامت کی مالک تھی۔ وہ سادگی کے باوجود پرکار نظر آتی تھی۔ اس کا لہجہ دھیما اور گفتگو شائستہ تھی۔ نعمان صاحب نے ابھی تک شادی کا لڈو نہیں چکھا تھا۔ کہاوت ہے کہ شادی بور کا لڈو ہے جو کھائے وہ پچھتاوے جو نہ کھائے وہ بھی پچھتاوے۔ تو نعمان صاحب نے نہ کھا کر پچھتانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن رومانہ کی قربت نے ان کے فیصلے میں دراڑ ڈال دی تھی لگتا تھا یہ خودساختہ خول بس ٹوٹا ہی چاہتا ہے۔ رومانہ وہ مضراب تھی جس نے ان کے دل کے تاروں کو چھیڑ دیا تھا اور ایک مدھر موسیقی ان کے اندر پھوٹ پڑی تھی اسے اب ایک لے کی ضرورت تھی ایک آہنگ چاہیے تھا۔ تاہم رومانہ کا سفاک روکھا رویہ اظہار کو مانع تھا۔ انہوں نے اپنی بہن کو اعتماد میں لیا۔

نعمان صاحب کی بہن ان کا رشتہ لائی تھیں۔ اس خبر نے رومانہ کو حیران کر دیا وہ برہم تھی اور شادی کا نام بھی سننا نہیں چاہتی تھی۔ والدین نے کہا ایک حادثے کے بعد گزرگاہیں ہمیشہ کے لئے بند نہیں کردی جاتیں۔ زندگی کو ایک موقع اور دینا چاہیے۔ نعمان صاحب صبر سے رومانہ کے والدین کے جواب کا انتظار کرتے رہے۔ اس دوران اسکول میں ان کے برتاؤ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یوں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ رومانہ ان کو دیکھتی تو سلگ جاتی۔ ”ہونہہ، دوغلے کہیں کے“

پر اب وہ انہیں اس نظر سے پرکھنے لگی تھی۔ والدین کا اصرار اور اس کا تجزیہ بالآخر رشتے پر رضامندی پر منتج ہوا۔ نعمان صاحب کو اس کی طلاق اور بچی کے بارے میں بتایا گیا مگر وہ تفصیل جاننے کے مشتاق نہ تھے۔ انہوں نے کہا انہیں اس کے ماضی سے غرض نہیں۔

دوسری شادی کے احساسات پہلی بار بیاہنے سے بہت مختلف تھے۔ پچھلی بار کی طرح پرجوش نہیں تھی بلکہ خوفزدہ تھی۔ اس کے جسم میں جذبات کا جوار بھاٹا نہیں تھا بلکہ ان دیکھے وقت کا لرزہ طاری تھا۔ نعمان صاحب کمرے میں داخل ہوئے تو تو بہت سی یادوں کے جھماکے، پھلجھڑی کی لڑی کی طرح ایک کے بعد ایک جھلملائے اور آخر میں بجھے ہوئے سوز رساں فتیلے کی طرح جھلسا گئے۔ نعمان صاحب نے آداب کہا تو وہ چونک گئی۔ انہوں نے جیب سے رونمائی کی انگوٹھی نکالی۔

”نئی زندگی کی ابتدا مبارک ہو رومانہ نعمان“ ۔ انہوں نے انگوٹھی پہنانے کے لئے اس کا ہاتھ تھاما۔

رومانہ نے ایک جھٹکے سے یوں ہاتھ پیچھے کھینچا جیسے بچھو نے کاٹ لیا ہو۔ دونوں ہاتھوں سے گھونگھٹ اٹھائے وحشت زدہ آنکھوں سے گھورتے ہوئے وہ بولی۔ ”میرا نام رومانہ اختر علی ہے۔ اختر علی میرے باپ کا نام ہے جو پیدائش سے موت تک میری شناخت ہے۔ آپ کو کس نے حق دیا کہ آپ میرا نام تبدیل کریں۔“

نعمان صاحب اس کے جارحانہ روئے پر ششدر رہ گئے ”ہمارے نکاح کے بعد آپ کا نام میرے نام کے ساتھ جڑ گیا ہے“

”تو آپ بھی عام مردوں کی طرح نکاح نامے کو منتقلی ملکیت کی دستاویز سمجھتے ہیں۔ آپ کو بھی چیٹک ہے کہ ملکیت پر آپ کے نام کی تختی لگے۔ کل کو آپ مجھے طلاق دے دیں اور یہ تختی اتار کر پھینک دی جائے تو۔

اب نعمان صاحب سمجھ چکے تھے کہ رومانہ کے غیر معمولی روئے کے پیچھے اس کا تکلیف دہ ماضی ہے۔ وہ اب تک دونوں ہاتھوں سے گھونگھٹ اٹھائے ہوئے کسی وحشی زدہ ہرنی کی مانند کپکپا رہی تھی۔ انہوں نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر رسان سے کہا ”مجھے کوئی چیٹک نہیں کہ آپ کو اپنی ملکیت سمجھوں اگر آپ کو پسند نہیں تو نام بدلنے پر ہرگز اصرار نہیں کروں گا۔ ہمیں ایک دوسرے کے احساسات کی قدر کرنی چاہیے۔

ویسے مرد بھی فیمنسٹ ہوتے ہیں۔ میں ایک فیمنسٹ مرد ہوں وہ مسکرائے

وہ دیکھ رہے تھے کہ رومانہ کے تناؤ میں کمی آ رہی ہے۔ اس کی پھیلی ہوئی پتلیاں اپنے حجم پر لوٹ آئی تھیں۔ اور لبوں کی تھرتھراہٹ تھم گئی تھی۔ اس نے کچھ کہے بنا اپنا سر ان کے کندھے پر ٹکا دیا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments