قافلہ کا جشن آزادی پڑاؤ اور سید فخرالدین بلے کی شاہکار نظم ”مٹی کا قرض“ ( 7 ) ساتویں قسط


داستان گو : ظفر معین بلے جعفری

سید فخرالدین بلے صاحب کا شکیل بدایونی کو عاجزانہ انداز میں یہی جواب ہوتا تھا کہ میں کسی کے جذبوں کی ترجمانی نہیں کر سکتا، صرف اپنی فکر کو شعر کا ملبوس دے سکتا ہوں۔ کوئی اور نوجوان ہوتا تو سوچتا اب میرے گیت لتا، آشا اور محمد رفیع کی زبان پر ہوں گے۔ غیر معمولی شہرت میرے قدم چومے گی لیکن بلے اس طرح نہیں سوچتا تھا۔ نہ کبھی ایسا سوچا جناب کلیم عثمانی صاحب کی بات کو توجہ سے سن کر اجمل نیازی صاحب نے فخریہ انداز میں ایک قافلہ پڑاوٴ کا حال ان الفاظ میں سنایا کہ طارق عزیز صاحب نے احمد ندیم قاسمی صاحب سے مخاطب ہو کر کہا آپ کی سفارش بھی کام نہ آئی میں نے بارہا جناب سید فخرالدین بلے صاحب سے گزارش کی کہ وہ میرے شو میں مہمان شاعر و محقق کے طور پر شرکت فرمائیں اور وہ ہمیشہ یہ کہہ کر ٹلا دیتے ہیں کہ نہ تو آپ کہیں جا رہے ہیں اور نہ ہی میں۔

قاسمی صاحب آپ ہی فرمائیے کہ میں کیا کروں اور بلے صاحب سے احتجاج بھی کروں تو کیسے کہ وہ میرے پسندیدہ شعرا میں سے ہیں۔ میں ان کا بے حد احترام کرتا ہوں اور وہ بھی حد درجہ شفقت فرماتے ہیں۔ طارق عزیز صاحب نے حاضرین محفل کو بتایا کہ اسی کی دہائی کے اوائل کی بات ہے سید فخرالدین بلے صاحب ڈائریکٹر راولپنڈی آرٹس کونسل کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ اسی عرصہ میں میرے پہلے شعری مجموعے اللہ میگھ دے کی تقریب رونمائی فخرالدین بلے صاحب نے شاندار انداز میں راولپنڈی آرٹس کونسل میں سجائی تھی۔

احمد ندیم قاسمی صاحب مسکرائے اور ان کی مسکراہٹ دیکھ کر طارق عزیز صاحب نے پوچھا قاسمی صاحب میری بات کے جواب میں آپ کی مسکراہٹ، میں سمجھ نہیں پا رہا۔ اس سوال کے جواب میں احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ سید فخرالدین بلے صاحب سے صہبا لکھنوی صاحب کو ہم نے افکار کے لیے۔ محمد طفیل صاحب کو نقوش کے لیے اور محترمہ صدیقہ بیگم کو (کہ جو خود سید فخرالدین بلے صاحب کے افراد خانہ میں شمار کی جاتی ہیں ) ادب لطیف کے لیے اظہر جاوید صاحب کو تخلیق کے لیے اور مسعود اشعر صاحب کو دھنک کے لیے، جعفر شیرازی صاحب کو گہرائی کے لیے، طفیل ہوشیار پوری صاحب کو محفل کے لیے اور شبنم رومانی صاحب کو اقدار کے لیے بارہا کلام کی فرمائش کرتے سنا اور دیکھا ہے اور جبکہ میں نے خود فنون کے لیے متعدد بار ان سے ان کا کلام طلب کرچکا ہوں لیکن وہ ہمیشہ ہی نہایت کمال خوبصورتی سے ٹال جاتے ہیں۔

اور تو اور حسن رضوی اور اجمل نیازی کافی عرصہ کوشش کرتے رہے کہ فخرالدین بلے صاحب انہیں جنگ اور پاکستان کے لیے انٹرویو دے دیں حسن رضوی کو تو کامیابی حاصل نہیں ہو سکی البتہ اجمل نیازی سے پوچھنا ہو گا کہ کیا کرنا ہو گا کہ انہوں نے کیا حربہ استعمال کیا تھا کس طرح فخرالدین بلے صاحب نے انہیں انٹرویو دے دیا۔

قافلہ کے جشن آزادی پڑاؤ میں اچانک سے گفتگو کا موضوع ایک مرتبہ پھر آزادی کے پیروز بن گئے۔ دنیا بھر میں آواز کے دوش پر پاکستان کا تعارف فرمانے والے عظیم محب وطن اور دیش بھگت سید مصطفی علی ہمدانی کو پاکستان اور ریڈیو پاکستان کی پہچان مانا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے اعلان نشر ہوا کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے۔ یہ اعلان انتہائی قابل تعظیم و تکریم ہستی کہ جنہیں آواز و بیان کے حوالے سے ایک اتھارٹی اور ادارہ تسلیم کیا گیا جناب سید مصطفی علی ہمدانی صاحب نے فرمایا تھا۔

کلیم عثمانی صاحب کا بھی جناب مصطفی علی ہمدانی صاحب سے برسوں کا تعلق رہا اور ہم نے ہمیشہ انہیں مصطفی ہمدانی صاحب کا ذکر انتہائی احترام سے کرتے سنا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے مصطفی علی ہمدانی صاحب کو کبھی کسی حوالے سے بالخصوص معیار کے حوالے سے سمجھوتہ کرتے نہیں دیکھا۔ مہینے بھر میں بارہ پندرہ ملاقاتیں تو طے شدہ تھیں کیونکہ ریڈیو پاکستان بھی ہمارا مسکن ہوا کرتا تھا۔ حضرت وقار انبالوی کا بھی کہیں نہ کہیں تذکرہ فرماتے تھے لیکن موضوع گفتگو جناب مصطفی علی ہمدانی صاحب ہی رہا کرتے تھے کہ جن کے ساتھ ان ہوں نے ایک طویل عہد گزارا تھا۔ جیسے ہی کلیم عثمانی صاحب نے اپنی بات کو سمیٹا تو استاد جناب مہدی حسن خان صاحب نے کلیم عثمانی صاحب سے فرمائش کر کے جو ملی نغمہ سنا وہ نذر قارئین ہے

اس پرچم کے سائے تلے، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
ایک چمن کے پھول ہیں سارے، ایک گگن کے تارے
ایک گگن کے تارے
ایک سمندر میں گرتے ہیں سب دریاؤں کے دھارے
سب دریاؤں کے دھارے
جدا جدا ہیں لہریں، سرگم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
ایک ہی کشتی کے ہیں مسافر اک منزل کے راہی
اک منزل کے راہی
اپنی آن پہ مٹنے والے ہم جانباز سپاہی
ہم جانباز سپاہی
بند مٹھی کی صورت قوم ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
پاک وطن کی عزت ہم کو اپنی جان سے پیاری
اپنی جان سے پیاری
اپنی شان ہے اس کے دم سے، یہ ہے آن ہماری
یہ ہے آن ہماری
اپنے وطن میں پھول اور شبنم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments