قدرتی تباہی کے خواتین پر اثرات


جون 2022 میں تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے سروے نے افغانستان، کانگو اور پاکستان کو دنیا میں تشدد اور عصمت دری سے لے کر صحت کی خراب دیکھ بھال اور ”غیرت کے نام پر قتل“ تک کی دھمکیوں کی وجہ سے خطرناک ممالک میں تیسرے نمبر پر لا کھڑا کیا جبکہ سومالیہ اور ہندوستان بالترتیب چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ ہر سال تقریباً ایک ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی ہیں۔

ان دنوں پاکستان وسیع پیمانے پر سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے مشکل حالات سے گزر رہا ہے جہاں لاکھوں گھر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں، ہزاروں جانور اور انسان اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جو سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ اس تکلیف دہ صورتحال میں بھی چند ایسے سفاک لوگ ہیں جو عورتوں اور بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا رہے ہیں اس کی ایک مثال شہداد گوٹھ کی ہندو بچی جسے راشن دینے کا جھانسہ دے کر دو لوگوں نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اسی طرح سے نواب شاہ میں ایک کمسن بچی کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کر لیا جس نے سیلاب میں بچی کی مدد کرنے کے بہانے اس سے جنسی زیادتی کی۔

دوسری جانب جون میں ایک اکیس سالہ امریکی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ لڑکی ڈیرہ غازی خان میں جنسی تشدد کا نشانہ بنی۔ باپ نے بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی کردی یا پھر دیور نے بھابی اور بھتیجی کو قتل کر دیا یہ تو وہ کیسز ہیں جو سوشل اور الیکڑانک میڈیا کی توسط سے منظر عام پر آئے یا رپورٹ ہوئے لیکن نجانے کتنی ایسی خواتین یا بچیاں ہوں گی جو خاموشی سے سہ گئی ہوں گی یا انہیں عزت کا واسطہ سے کر چپ کروا دیا گیا ہو گا۔

آکسفیم کے سروے کے مطابق قدرتی آفات خواتین اور بچوں کی کمزوری کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ 2004 کا سونامی جو کہ سری لنکا، ہندوستان اور انڈونیشیا میں آیا تھا اس میں مرنے والی خواتین کی تعداد مردوں سے چار گنا زیادہ ہونے کی وجہ تیراکی اور درختوں پر چڑھنے کی مشق کا فقدان تھا۔ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں، تولیدی عمر کی 45 % سے 60 % خواتین اپنے عام وزن سے کم ہیں، اور 80 % حاملہ خواتین میں آئرن کی کمی ہے۔ قدرتی آفات کے دوران خواتین میں غذائی قلت کا زیادہ امکان ہوتا ہے کیونکہ انہیں حاملہ یا دودھ پلانے کے دوران مخصوص غذائی ضروریات ہوتی ہیں۔ خواتین بھی بعض اوقات مردوں اور بچوں کو ترجیح دینے کے لیے کم کیلوریز استعمال کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ خواتین بچوں اور مردوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر کم خوراک لیتی ہیں اور بعض اوقات بچے کچے کھانے پر ہی اکتفا کرتی ہیں۔

خواتین اور بچے زیادہ متاثر کیوں ہوتے ہیں؟

·آفات کے دوران ہجوم والی غیر محفوظ پناہ گاہیں، خوراک کی قلت، عمر بھر کی جمع پونجی کی تباہی کا غم مردوں میں خواتین، کمسن بچیوں اور بچوں کی لیے نفرت اور تشدد کو بڑھا دیتا ہے کیونکہ مردوں کی اس دنیا میں وہ طاقتور کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا لہذا کمزور ہی اس کی فرسٹریشن کا شکار ہوتا ہے اور وہ ہیں خواتین، کمسن بچیاں اور بچے۔

·ہمارے معاشرے میں جہاں خواتین اور بچیوں کو چادر اور چاردیواری کے اندر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے وہیں انہیں ایسی تمام سرگرمیوں سے دور رکھا جاتا ہے مثلاً تیراکی، درختوں پر چڑھنا یا دیواریں پھلانگنا یا پھر کسی بھی مشکل میں فیصلہ کرنا یا پھر اپنی حفاظت کرنا وغیرہ۔ جس کی وجہ سے انہیں جنسی و جسمانی تشدد، انسانی اسمگلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

·سیلاب کی وجہ سے تعلیمی عمارات تباہ ہو چکی ہیں دوسرا ہمارے ہاں آج بھی وسائل کی کمی کی وجہ سے لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کی تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے۔

·قدرتی آفات (سیلاب، زلزلہ، سونامی) بچوں کی دیکھ بھال اور خواتین کا حاملہ ہونا ان کی زندگی کو مشکل میں ڈال دیتا ہے۔

·آفات کے دوران تعمیراتی، راشن کی تقسیم، ٹینٹ لگانا جیسے کام مرد سنبھال لیتے ہیں جبکہ خواتین اور نوجوانوں کو عموماً فیصلہ سازی کے عمل بھی سے باہر رکھا جاتا ہے۔ ان کی تکلیف یا ضرورتوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

·تعلیمی اداروں میں حفاظتی تربیت اور بچاؤ کی تربیت کا فقدان، گھر اور گھر سے باہر لوگوں پر اعتماد بچیوں اور بچوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔ کیونکہ ہم جنسی تعلیم اور جسم کی حفاظت (اچھا چھونا اور برا چھونا کی تمیز ) جیسے موضوعات پر بات کرنا آج بھی معیوب سمجھتے ہیں۔

·قدرتی آفات (سیلاب، سونامی، زلزلہ وغیرہ) سے متاثرہ لوگوں کو امداد دینے میں حکومتی و نجی ادارے جت جاتے ہیں جس میں اولین ترجیع انہیں پناہ دینا، کھانا فراہم کرنا اور ادویات شامل ہوتی ہیں جبکہ بچوں اور خواتین کی ضروریات یا تشدد جیسی صورتحال پر غور ہیں نہیں کیا جاتا یا پھر وہ اولین ترجیحات میں شامل نہیں ہوتیں۔

تشدد سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

1خواتین اور بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے انہیں ایسی غیر روایتی امدادی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے جو عموماً مردوں کے لیے مخصوص سمجھی جاتی ہیں مثلاً تعمیرات، لوگوں کو کھانا، راشن یا نقدی دینے کا حساب کتاب رکھنا، اس کے علاوہ بچوں کو پڑھانا، حاملہ عورتوں کا خیال رکھنا (دوائیاں، زچگی کے دوران مدد کرنا یا کپڑے فراہم کرنا ) جیسے کاموں میں خواتین بہتر کردار ادا کر سکتی ہیں۔

2ایسی جگہوں پر جہاں خواتین، بچیاں اور بچے رہ رہے ہوں ان کی دیکھ بھال کے لیے خواتین تعینات کی جائیں اور انہیں حفاظتی اقدامات کرنے کی مکمل آزادی دی جائے اس سے وہ بہتر کام کر سکتی ہیں۔

3خواتین اور بچیوں کو آفات کے بعد صدمے سے باہر نکالنے کے لیے کونسلنگ سیشنز کا اہتمام کیا جائے۔

4خواتین اور نوجوان بچیوں کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے مثلاً آفت زدہ لوگوں کو کن اشیا کی ضرورت ہے یا امداد تقسیم کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیے جائیں۔ اسی طرح پانی یا ملبے تلے دبے لوگوں خصوصاً خواتین کو نکالنے، ابتدائی طبی مدد فراہم کرنے کی تربیت دی جائے۔

5قدرتی آفات میں متاثرہ خواتین کی ضروریات کے حوالے سے جائزہ رپورٹ تیار کی جائے جو آئندہ کی حکمت عملی بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔

6خواتین اور بچیوں کے لیے چھوٹے پیمانے پر ایسے پروگرام ترتیب دیے جائیں جن سے ان میں خود اعتمادی، فیصلہ سازی اور اپنی ذات کو بہتر کرنے کے مواقع میسر آئیں۔ مثلاً حاملہ عورتوں کی دیکھ بھال، کھانے پکانے کے کم دھوئیں والے چولہے تیار کرنا تاکہ متاثرہ خاندان کھانا بنا سکیں اور آمدنی پیدا کرنے والے پراجیکٹ کیے جاسکیں۔

.7 بدلتی موسمی صورتحال ہم سے یہ تقاضا کر رہی ہے کہ ہم آنے والے دنوں میں مزید جانی و مالی نقصان سے بچنے کے لیے اپنے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کونہ صرف تربیت دیں بلکہ سکولوں اور کالجوں کی سطح پر ایسے مضامین پڑھائے اور ان کی پریکٹس بھی کروائی جائے۔ علاوہ ازیں تیراکی، درختوں پر چڑھنا، ایمرجنسی میں فیصلہ کرنا جیسی چیزیں شامل کی جائیں۔ جو ہماری آنے والی نسلوں کو کسی بھی قسم کی آفات سے نمٹنے کے لیے تیار کر سکے۔

چلیے اس کا آغاز اپنے گھر سے ہی کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).