سیلاب کی تباہ کاریاں اور ماحولیاتی معاوضے کا مطالبہ


پاکستان میں حالیہ بارشیں بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بنی ہیں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ جنوبی پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے کئی علاقے اس وقت بھی زیر آب ہیں۔ دادو، بدین، سانگھڑ، میرپورخاص سمیت کئی اضلاع میں اب بھی سیلابی ریلے چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتی علاقوں میں تباہی مچا رہے ہیں۔ ضلع دادو میں دنیا کی سب سے بڑی جھیل منچھر جو گزشتہ کئی سالوں سے آلودگی اور دیگر ماحولیاتی مسائل کا شکار تھی اس سال اور ٹاپ ہونے کے بعد ایک ٹائم بم کی صورت اختیار کر گئی ہے اور کسی بڑے ڈزاسٹر سے بچنے کے لیے جھیل کو کٹ لگائے جا رہے ہیں اور لوگوں کو بڑے پیمانے پر اس علاقے سے نقل مکانی کرنی پڑ رہی ہے۔

ویسے تو ہماری تاریخ میں بارشوں کی وجہ سے سیلابی صورتحال پہلے بھی پیدا ہوتی رہی ہے اور گزشتہ کچھ دہائیوں میں متعدد بار شدید بارشیں کئی علاقوں میں سیلاب کا سبب بھی بنی ہیں۔ لیکن اس سال ہونے والی بارشیں کئی حوالوں سے غیر معمولی ثابت ہوئی ہیں۔ خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں اس سال ہونے والی بارشیں معمول سے پانچ سے سات گنا زیادہ ریکارڈ کی گئیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس سال مون سون سے بلوچستان کے کئی ایسے علاقے بھی شدید متاثر ہوئے جہاں عام طور پر بارشوں کا یہ نظام کم ہی اثر انداز ہوتا ہے۔ مزید براں ماضی میں بارشوں سے سیلاب کی صورتحال کچھ علاقوں تک محدود رہتی تھی لیکن اس دفعہ پورے سندھ کے ساتھ ساتھ بلوچستان، جنوبی پنجاب اور دیگر علاقے غیر معمولی بارشوں سے شدید طور پر متاثر ہوئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس طرح کی شدید بارشوں کا ایک بڑا سبب ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔ اس تناظر میں ماحولیاتی ماہرین پہلے ہی خبردار کر چکے تھے کہ گلوبل وارمنگ زیادہ تواتر کے ساتھ شدید بارشوں کا سبب بن سکتی ہے۔ اور ماحولیاتی تبدیلیاں مون سون بارشوں کے نظام کو بھی بدل کر رکھ دیں گی۔ عالمی جریدے دی نیچر میں شایع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق پاکستان میں آنے والے سیلاب کے سرے اپریل مئی اور جون میں پڑنے والی شدید گرمی سے بھی ملتے ہیں جب کئی دنوں تک جیکب آباد اور دیگر شہروں کا شمار دنیا کے گرم ترین جگہوں میں ہوتا رہا۔ اسی دوران موسمیاتی ماہرین اس سال غیر معمولی بارشوں اور گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی پیشین گوئی بھی کر رہے تھے۔ ویسے بھی ریکارڈ کے مطابق 1952 سے لے کر 2009 تک پاکستان میں درجہ حرارت میں باقی دنیا کے مقابلے میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کے مطابق خلیج بنگال میں بننے والے مون سون سسٹم عام طور پر پاکستان کے جنوبی علاقوں تک پہنچنے سے پہلے ہی کمزور ہو چکے ہوتے ہیں لیکن اس دفعہ مون سون بارشوں کے اسپیل بھرپور طاقت کے ساتھ برسے اور برستے ہی چلے گئے۔ جس سے قریب پورے سندھ نے ایک جھیل کی سی صورت اختیار کر لی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس سال مون سون بارشوں کا آغاز بھی کچھ جلد ہی ہو گیا تھا۔ ماہرین ان سب چیزوں کے تانے بانے ماحولیاتی تبدیلیوں سے جوڑتے ہیں

دوسری طرف گلوبل وارمنگ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کا سبب بن رہی ہے جس سے ملک کے شمال مغربی حصوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہونے کا خطرہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ویسے بھی پولر ریجن یعنی قطبی علاقے کے علاوہ دنیا میں سب سے زیادہ گلیشیئرز پاکستان میں ہیں اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان کے تیزی سے پگھلنے کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرناک ترین اثرات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

ان تمام وجوہات کی بنا پر پاکستان کو دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ ان ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس حوالے سے معروف دانشور، ماحولیاتی معیشت کے ماہر جیسن ہکل نے حال ہی میں ایک ٹویٹ میں لکھا کہ پاکستان میں سیلاب کی صورتحال سیدھی طرح ماحولیاتی معاوضے کا تقاضا کرتی ہے اور امیر ملک جو تاریخی طور پر گرین ہاؤس گیسز کے نوی فیصد اخراج کے ذمہ دار ہیں پاکستان میں ہونے والی تباہی کا معاوضہ ادا کریں کیونکہ اس وقت بھی گرین ہاؤس گیسز اخراج میں پاکستان کا حصہ کافی کم ہے۔

انہوں نے اپنے ٹویٹ کے تھریڈ میں اپنے ایک آرٹیکل کا حوالہ دیا ہے۔ جس کے مطابق امیر ملکوں پر دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ اس تحقیقی آرٹیکل کے نتائج کے مطابق شمالی ترقی یافتہ دنیا یعنی گلوبل نارتھ تاریخی طور 90 فیصد اخراج کا ذمہ دار ہے جبکہ جنوب یعنی گلوبل ساؤتھ کے ترقی پذیر ملکوں کا اس اخراج میں حصہ بہت کم ہے۔ حالانکہ جنوب کے ان ممالک میں چائنا اور انڈیا جیسی معیشتیں شامل ہیں۔ خاص طور پر چائنا نے گزشتہ کچھ دہائیوں میں بہت تیزی سے ترقی کی ہے لیکن تاریخی تناظر میں جنوب کا حصہ پھر بھی بہت کم بنتا ہے۔

اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا اس سارے بحران کو پیدا کرنے میں بہت ہی کم کردار ہے۔ لیکن اس وقت بھی موسمیاتی بحران کی وجہ سے لاکھوں پاکستانی بی سر و سامانی کے عالم میں کھلے آسمان یا پھر رلیف کیمپس میں موجود ہیں ان بارشوں میں ان کا سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ خیرپور ناتھن شاہ، میہڑ، جوہی کے دیہاتی علاقوں کے لوگ شاید دنیا میں سب سے زیادہ سادہ زندگی گزارنے والوں میں شامل ہیں اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر بھی وہ امیر ملکوں کی صنعتی ترقی اور ترقی یافتہ دنیا کے امیر لوگوں کی پرتعیش زندگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔

اسی وجہ سے ملکی اور عالمی سطح پر یہ مطالبہ زور پکڑ تا جا رہا ہے کہ عالمی برادری خاص طور پر امیر ممالک امداد کے نام پر کچھ رقم بھیجنے کے بجائے ملک بھر میں ہونے والی تباہی کی تلافی کے لیے ماحولیاتی معاوضہ کے طور پر بے گھر ہونے والے تین کروڑ سے زیادہ لوگوں کی دوبارہ آبادکاری، ان کے روزگار اور ملکی معیشت کی بحالی اور تباہ ہونے والے بنیادی ڈھانچے کی دوبارہ تعمیر میں مدد دیں تا کہ اس ماحولیاتی بحران سے ہونے والے نقصانات کی کسی حد تک تلافی ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments