سیلاب زدگان اور حکمرانوں کی بے حسی


ملک بھر میں اس وقت سیلابی صورتحال ہے خصوصاً سندھ میں تو سیلاب نے تباہی مچا دی ہے اور ہر جانب شہروں اور گردونواح میں حد نگاہ پانی ہی پانی نظر آ رہا ہے مگر ہمارے حکمران ہیں کہ صرف زبان خرچ کرنے میں مصروف ہیں باقی کسی سیلاب زدگان کو کچھ نہیں مل رہا ہے، پاک آرمی کے جوان اگر نا ہوں تو شاید بہت سارے خاندان پانی میں ہی مر جائیں اس وقت بھی اگر سندھ کے پسماندہ علاقوں میں کوئی لوگوں کو ریسکیو کر رہا ہے تو وہ ہے پاک فوج باقی ہمارے حکمران صرف ٹی وی پر آ کر بیانات دینے میں مصروف ہیں، کہا جا رہا ہے کہ عالمی ممالک سے اربوں کھربوں کی امداد ہوئی ہے جس میں کھانے پینے کی اشیاء، ٹینٹس، مچھر دانیوں سمیت ضروریات زندگی کی تمام چیزیں موجود ہیں مگر وہ مل کس کو رہی ہیں؟

سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ جتنی بھی امداد آ رہی ہے وہ مل کس کو رہی ہے کیوں کہ ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ ابھی بھی بے یارومددگار ہیں ان کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم نہیں کی جا رہی ہیں لوگ فٹ پاتھ بھی بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کا تو نقصان کیا ان کی تو زندگی ہی ختم ہو گئی ہے کیوں کہ دیہاتوں کے دیہات ختم ہو گئے، گھر نہیں رہے، مویش نہیں رہی بس سسکتی ہوئی زندگیاں ہی بچا کر سڑکوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔

سندھ کو سیلاب نے نہیں ڈبویا بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ سندھ کو حکمرانوں اور وڈیرا شاہی نے ڈبویا ہے۔ حالیہ بارشیں جہاں عوام کے لئے زحمت بن کر برسیں وہیں حکمرانوں کے لئے رحمت بن کر برسی ہیں۔ کافی سالوں سے کوئی قحط نہیں آیا تھا اور ملک میں خود بھی پیسے نہیں تھے تو ہمارے حکمرانوں، پیروں میروں اور جاگیرداروں کے وی ایٹ گاڑیوں کے لئے فیول بھی بھروانا مشکل ہو گیا تھا تو ایسے میں قدرتی آفات نے ہمارے ملک کے حکمرانوں کی غیبی مدد کردی۔

عالمی ممالک سے امداد تو اتنی ملی ہے کہ پورا سندھ دوبارہ بن سکتا ہے اور تمام سیلاب زدگان کے گھر بھی بن سکتے ہیں اور ان کے دردوں کا درمان بھی ہو سکتا ہے مگر ہمارے حکمران خود غریب ہیں وہ کیسے چاہیں گے کہ غربت کی لیکر سے نیچے والوں کی بحالی کے لئے کچھ خرچ کریں۔ ہو یہ رہا ہے کہ سندھ کے ایسے کئی دیہات ہیں شہر ہیں جہاں پر رلیف اور ریسکیو کے لئے کوئی نہیں پہنچا ہے اور لوگ اپنی مدد آپ کے تحت مائیگریشن کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

اوپر سے ہمارا ملک جیسا کہ مسلمان ملک ہے اور ایسے میں جن کے پاس سواری ہے وہ جو سیلاب سے پہلے پانچ ہزار روپے کی گاڑی کرائے پر چلتی تھی وہ اس وقت تیس سے چالیس ہزار کی ہو گئی ہے مطلب یہ ہے کہ جس کو جہاں پر موقع مل رہا ہے وہ وہیں پر لوٹنے لگ جاتا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں۔ امداد کی تقسیم کا کوئی میکنزم نہیں یہاں پر ایک وڈیرے کو علاقے کا بڑا سمجھ کر چیزیں دی جاتی ہیں جو پھر پہلے اپنے بندوں کو نوازتا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ اتنے لاکھ ٹینٹ دیے ہیں اتنے لاکھ مچھر دانیاں دی ہیں لیکن وہ صرف بیانات کی حد تک تو ٹھیک ہے باقی ہمیں تو پورے سندھ میں جتنے بھی سیلاب زدگان نظر آرہے ہیں کہیں پر کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ ہاں کچھ شہروں میں ٹینٹ سٹی بنائے گئے ہیں جہاں پر لوگوں کو ٹینٹ لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی جا رہی ہیں مگر ٹینٹ سٹی میں اتنے لوگ نہیں ہیں جتنے لوگ شہروں کے باہر شاہراہوں پر موجود ہیں۔ ان کو تو کچھ بھی نہیں دیا جا رہا ہے ہاں صرف ایک یا کبھی کبھی دو وقت کی روٹی فراہم کی جا رہی ہے مگر وہ بھی صرف بریانی جس کی وجہ سے بہت سارے بچوں، بڑوں اور بزرگوں میں قبض اور ڈائیریا شروع ہو گیا ہے۔

بیماریوں کی اگر بات کی جائے تو پورے سندھ میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں اور امداد کے منتظر ہیں اب تو ان کو مختلف بیماریوں نے گھیرا ہوا ہے ملیریا، موشن، ڈینگی سمیت پیٹ کی بیماریوں نے منہ نکالنا شروع کر دیا ہے مگر ان تک ادویات نہیں پہنچ پا رہی ہیں۔ سیلاب کے بعد مچھروں نے کی بھر مار ہو گئی ہے پہلے ہی سیلاب سے متاثر افراد بے یارومددگار کھلے آسماں تلے بیٹھے ہوئے ہیں اوپر سے مچھروں نے ان کی زندگی مزید اجیرن کردی ہے ان کے مال مویشی وہ بھی شدید پریشان ہیں ان کے مویشی حکومت کی جانب سے اسپرے نا کروانے کی وجہ سے بیمار ہو کر مر رہے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر پسماندہ علاقوں میں اپنے نمائندے بھیجیں اور اس وقت بھی بہت سارے دیہات میں لوگ پھنسے ہوئے ہیں ان کو ریسکیو کریں اور ان کی جاں مال کی حفاظت کریں۔ ان کو امداد دی جائے کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی جائیں تاکہ ان کو یہ احساس ہو کہ اگر قدرتی آفت میں ان کے گھر چلے گئے ہیں تو حکمران ان کی بحالی کے لئے بہتر اقدامات کریں گے باقی اگر صرف زبانی بیانات دینے ہیں تو پھر حکمرانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وقت ہے اور گزر جائے گا مگر جس طرح سے عوام سیلاب سے متاثر ہوئی ہے وہ اب موجودہ حکمرانوں کو ووٹ کے لئے ان کے پاس ہی جانا ہو گا اور پھر وہ کیسے ووٹ لیں گے اور عوام ان کا استقبال کیسے کرے گا یہ اندازہ سوشل میڈیا پر چلنے والی کافی وڈیوز میں دیکھ سکتے ہیں جس میں لوگ بپھرے ہوئے ہیں اور وہ حکمرانوں کو خوب سنا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments