مائنس ون نامنظور


جی ہاں ایک دور اقتدار پورا کرنے کے بعد دوسرے دور اقتدار کے دعوے کرنے والی جماعت کا آج کل نعرہ مائنس ون نامنظور ہے اور یہ نعرہ وہ ہر گلی، چوک اور سڑک پر لگا رہے ہیں۔ فلک شگاف نعرے لگانے والے ورکرز نے کبھی سوچا ہے کہ اگر مائنس ون فارمولے میں کوئی سچائی ہے تو پھر ایسا کیا ہو گیا کہ ان کی قیادت کو مائنس کرنے کی نوبت آ گئی۔ کیوں ملکی سیاست سے ایک بڑی جماعت کے لیڈر کو مائنس کرنے کا پلان بنایا گیا ہے۔ کہیں یہ مکافات عمل تو نہیں کہ آج یہ ورکر جن پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ مائنس کر رہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ گزشتہ کل ان ہی کے ساتھ مل کر یہ کسی اور جماعت کی قیادت کو مائنس کرنے کے جرم میں شریک رہے ہوں۔

پوچھنے میں کیا حرج ہے اگر یہ کپتان کے مطابق ریاست مدینہ ہے تو پھر یہ سوال تو پوچھا جاسکتا ہے اور پھر یہی کیا پھر تو ہر وہ سوال پوچھا جاسکتا ہے جو کسی کے دل و دماغ میں موجود ہے۔ تو مائنس ون نامنظور کے نعرے لگانے والے بتائیں گے کہ کیا جن انتخابات کے نتیجے میں وہ برسراقتدار آئے تھے وہ واقعی میں صاف اور شفاف انتخابات تھے۔ اگر صاف و شفاف انتخابات تھے تو پھر کس کے کہنے پر راتوں رات امیدواروں نے اپنی وفاداریاں تبدیل کیں کس کے کہنے پر پارٹی کے ٹکٹ واپس کیے اور کیوں آزاد لڑنے کو ترجیح دی۔

عمران خان بھلے مقبول لیڈر سہی کاش یہ سیاست کی اس معراج پر ہوتے کہ جہاں اصول اور نظریات اہمیت رکھتے ہیں۔ کاش وہ 2018 کے عام انتخابات میں آرٹی ایس سسٹم کے سست ہونے پر احتجاج کرتے کاش وہ سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی پر شور مچاتے کاش وہ نظریاتی کارکنوں کو پارٹی ٹکٹ دیتے اور حلقہ جاتی سیاست کے مضبوط سیاست دانوں کو مسترد کر دیتے۔ تبدیلی لانی تھی تو خود سے شروع کرتے اور جب اپنی نئی نظریاتی ٹیم کے ساتھ حکومت بناتے تو ان کا تبدیلی کا دعویٰ وزن رکھتا۔ محلاتی سازشوں سے اقتدار تو مل جاتا ہے مگر اس کو وہ دوام اور پذیرائی ہرگز حاصل نہیں ہوتی جس کی توقع کی جاتی ہے۔ اور ملکی سیاست کی تاریخ گواہ ہے کہ جو بھی محلاتی سازشوں سے اقتدار میں آیا ہے بہت بے آبرو ہو کر کوچہ سیاست سے نکلا ہے۔

رہی بات مائنس ون کی تو یہ کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے۔ زیادہ دور مت جائیں نصف صدی کا قصہ ہے کہ مشرقی بازو کی قیادت کو مائنس کرنے کا فارمولہ تیار ہوا۔ سب کچھ پلان کے مطابق ہو رہا تھا کہ بس ایک غلطی ہو گئی قیادت کو مائنس کرتے کرتے عوام کو بھی مائنس کر بیٹھے نتیجہ یہ آدھا ملک گنوا دیا۔ بھٹو کو سیاست سے مائنس کیا تو مارشل لاء کے جبر کے بعد بھٹو کا فلسفہ پھر اقتدار میں آ گیا۔ عکس بھٹو کو ملکی سیاست سے مائنس کیا گیا مگر دختر مشرق کا سیاسی فلسفہ ملکی سیاست کا لازمی جزو بن گیا اور نصف صدی بعد آج بھی سندھ بھٹو کا ہے۔

مائنس کرنے کا ناکام تجربہ پنجاب کی سیاست میں کیا گیا مشرف کی آمریت ختم ہوئی اور شریف خاندان پھر سے اقتدار میں آ گیا۔ ایک بار پھر شریف ملکی سیاست سے مائنس ہوئے اور اس بار اس سازش میں وہ شریک تھے جن کو اس وقت اپنی سیاسی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ تجربہ بھی ماضی کے تجربات کی طرح ناکام ہوا اور آج شریف اقتدار میں ہیں جبکہ فیصلوں کا حتمی اختیار میاں نواز شریف کے پاس ہے۔

اگر عمران خان کو بھی مائنس کرنے کی غلطی کی گئی تو یہ تجربہ بھی ماضی کی طرح کا ہو گا۔ یہ تجربہ بھی ناکام ہو جائے گا تسلیم کرلینا چاہیے کہ عمران خان ملکی سیاست کا اہم جزو ہے۔ اقتدار سے مائنس ہونا معمول کی کارروائی ہے جبکہ سیاست سے مائنس کرنے کی بھیانک غلطی نا کی جائے تو بہتر ہے۔ ویسے بھی عمران خان سے اقتدار قبل از وقت لے لینا ہی ایک ایسی غلطی تھی کہ جس کا مداوا برسراقتدار جماعتوں کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔

ایک ایسی حکومت جس کی مقبولیت کا گرام زمین کو چھو رہا تھا جس کی خراب طرز حکمرانی نے نئی مثالیں قائم کردی تھیں ایسی حکومت کو مدت پوری کرنے دینی تھی اور وقت پر الیکشن کرانے چاہیے تھے اور عوام کو فیصلہ کرنے دینا چاہیے تھا کہ وہ کس کے حق میں ووٹ ڈالتے ہیں مگر جلدی اقتدار سے بے دخل کر کے کپتان کی سیاست کو نئی زندگی دے دی گئی۔

جو ہوا سو ہوا اب صورتحال یہ ہے کہ ملک میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہے اور حکومت سیلاب متاثرین کو مکمل طور پر نہیں سنبھال پا رہی کہ کپتان نے بھی اچھا خاصا پریشان کیا ہوا ہے۔ ضمنی الیکشن بھلے سیلاب کے سبب ملتوی ہوئے ہیں تاہم اس کا سیاسی فائدہ بہرحال عمران خان کو پہنچ رہا ہے۔ عمران خان اپنی اقتصادی پالیسیوں کے سبب ہونے والی مہنگائی پر احتجاج کر رہا ہے اور حالیہ برسراقتدار اپنی اپوزیشن کی مدت کی طرح اقتدار کی مدت میں بھی زیر عتاب ہیں۔ جیسے تیسے کر کے دن گزر رہے ہیں اور اسی طرح نومبر بھی خیر سے گزر جائے تو اندازہ یہی ہے کہ حکومت ایک دم سے الیکشن کے ماحول میں چلی جائے گی اور شنید یہی ہے کہ جنوری میں حکومت ختم کر کے مارچ تک نئے عام انتخابات کرائے جائیں گے۔ اس کے بعد عوام کا فیصلہ ہے کہ وہ کس پر اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔

حرف آخر یہ کہ کپتان کو مائنس کرنے کی غلطی نا کی جائے تو بہتر ہے ایسا کرنے سے فائدے کی بجائے سیاسی نقصان زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ فری اینڈ فیئر الیکشن کے لیے ماحول بنایا جائے اور اس دوران عوام کو ریلیف دیا جائے اور اس کو اس مہنگائی، پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں سہولت دی جائے۔ سیلاب متاثرین کی دل کھول کر امداد کی جائے اور ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے۔ اس کے بعد سیاسی میدان بھی حاضر اور جیتنے والے گھوڑے بھی حاضر۔ پھر حتمی فیصلہ عوام کا ہو گا کہ وہ کس کو مائنس کرتے ہیں کس کو پلس کرتے ہیں اور فیصلہ سب کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہو گا کیونکہ یہی جمہوریت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments