نمک حرام کون؟ – مکمل کالم


ہماری نصابی کتابوں میں جس دشمن ملک کا ذکر ہے وہ ہندوستان ہے، فوجی تربیت کے دوران جس ’دشمن‘ کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ ہندوستان ہے اور ہمارے ذہنوں میں جس دشمن ملک کا خاکہ ہے وہ بھی ہندوستان ہے۔ افغانستان کو ہم نے کبھی اپنا دشمن نہیں سمجھا بلکہ الٹا ہم یہ سمجھتے رہے کہ افغانیوں پر ہمارے بے شمار احسانات ہیں لہذا انہیں ہمارے پاؤں دھو دھو کر پینے چاہئیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح میرا بھی یہی خیال تھا کہ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد ہم نے افغان بھائیوں کی مدد کی، افغانستان میں جہاد کیا، ان کے ملک کو سوویت یونین کے شکنجے سے آزاد کروایا، لاکھوں افغانیوں کو اپنے ملک میں پناہ دی، انہیں شناخت دی، کاروبار کا موقع دیا، وہ یہاں آئے اور پھلتے پھولتے گئے۔

پاکستان کی اس عظیم قربانی کے نتیجے ہمارا اپنا ملک دہشت گردوں کی آماجگاہ بن گیا، یہاں شدت پسندی پھیل گئی، کلاشنکوف کلچر عام ہوا لیکن ہم نے اپنے افغان بہن بھائیوں کا ساتھ نہیں چھوڑا اور سوویت یونین کے جانے کے بعد بھی کوشش کرتے رہے کہ وہاں کوئی ’اچھی سی حکومت‘ قائم ہو جائے۔ لیکن اس کے صلے میں ہمیں افغانستان سے کبھی ٹھنڈی ہوا نہیں آئی اور آج یہ حال ہے کہ ہر افغان ہمیں گالیاں دیتا ہے اور ہم سے اتنی شدید نفرت کرتا ہے کہ کرکٹ میچ کے دوران بھی یہ نفرت چھپائے نہیں چھپتی۔

پاکستانی کرکٹرز کا یہ کہنا ہے کہ انہیں ہندوستان کے ساتھ کھیلتے ہوئے وہ نفرت محسوس نہیں ہوتی جس قدر نفرت کا اظہار افغانی کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب ایشیا کپ میں پاکستان اور افغانستان کا کرکٹ میچ ہوا تو اس میں بھی افغان کھلاڑیوں نے پاکستانیوں کو گالیاں دیں، نتیجے میں ہم نے ٹویٹر پر ’نمک حرام‘ کا ٹرینڈ بنایا اور افغانیوں کے خوب لتے لیے اور انہیں وہ تمام ’احسانات‘ یاد دلائے جو پاکستان نے افغانستان پر کیے تھے۔

اس کے رد عمل میں کچھ سنجیدہ اور پڑھے لکھے لوگوں نے پاکستانیوں کو احساس دلایا کہ ہم نے ان پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ الٹا ان کے ملک کو جہنم بنانے میں ہمارا کردار ہے جس کی وجہ سے وہ ہم سے اتنی نفرت کرتے ہیں لہذا ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے اور افغانیوں کو طعنے نہیں دینے چاہئیں۔ کچھ لوگ تو اس سے بھی دو ہاتھ بڑھ گئے اور انہوں نے تقریباً یہ کہہ دیا کہ پاکستان ہی ساری برائی کی جڑ ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا افغانیوں کی نفرت جائز ہے؟ کیا ہمیں اس نفرت کی وجہ کو قبول کر کے انہیں گلے سے لگا لینا چاہیے؟

ہم میں سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ افغانستان سے ہمارا رشتہ 1979 سے شروع ہوتا ہے جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا، حقیقت حال یہ ہے کہ پاک افغان تعلقات پہلے دن سے ہی مثالی نہیں رہے، 1947 میں افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور اس کی وجہ وہ سرحدی تنازعات تھے جو برٹش انڈیا کے وقت سے چلے آرہے تھے۔ پاکستان کی افغانستان میں مداخلت کی تاریخ 1979 سے پہلے کی ہے، سویلین حکومت نے بھی افغانستان کے حوالے سے ایسی پالیسی بنانے کی کوشش کی جیسے افغانستان ہمارا پانچواں صوبہ ہو، تاہم یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی، پاکستان میں سویلین حکومت ختم ہو گئی اور ادھر افغانستان میں ’سوشلسٹ انقلاب‘ آ گیا، افغانی اسے ’انقلاب ثور‘ کہتے ہیں۔

اس انقلاب کے نتیجے میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان برسر اقتدار آ گئی اور نور محمد تراکی سربراہ حکومت بن گئے، اس انقلاب کو کمیونزم کی فتح سمجھا گیا، گو کہ پارٹی نے علی الاعلان خود کو کمیونسٹ کہنے سے گریز کیا تاہم بعد میں انہوں نے واضح کر دیا کہ وہ مارکس اور لینن کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے افغانستان کو جدید خطوط پر استوار کریں گے۔ سوویت یونین نے اس حکومت کا بھرپور ساتھ دیا اور اسے بھاری فوجی امداد دی۔

تاہم بعد میں نور محمد تراکی کے نائب حفیظ اللہ امین نے انہیں قتل کر کے اقتدار کر قبضہ کر لیا، افغانستان میں اس حکومت کے خلاف مذہبی رجحانات رکھنے والے طبقات کی طرف سے بغاوت کی اطلاعات آنی شروع ہو گئیں، حفیظ اللہ امین نے سوویت یونین سے مدد کی درخواست کی، اس زمانے میں چونکہ سرد جنگ اپنے عروج پر تھی لہذا سوویت پولٹ بیورو کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں افغانستان میں ایرانی طرز کا انقلاب برپا نہ ہو جائے، سوویت یونین کو یہ رپورٹ بھی ملی کہ حفیظ اللہ امین امریکیوں سے خفیہ ملاقاتیں کر رہا ہے، اس تناظر میں سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئیں، شدید لڑائی کے بعد حفیظ اللہ امین مارا گیا اور سوویت حمایت یافتہ ببرک کا رمل افغانستان کا حکمران بن گیا۔

یہاں سے پاکستان کی انٹری شروع ہوتی ہے، ہم امریکہ کے ’پٹھو‘ بن کر افغانستان میں کود گئے، اپنے ملک سے جہادی بھرتی کر کے افغانستان بھیجے اور پھر ایک ایسی جنگ شروع ہوئی جو ایک دہائی تک جاری رہی، لاکھوں افغان بچے، بوڑھے، عورتیں اور جوان مارے گئے، در بدر ہوئے، ان کا گھر بار اجڑ گیا، وہ پاکستان میں افغان مہاجر بن گئے، ان کی نسلیں تباہ ہو گئیں۔ خدا خدا کر کے جب سوویت فوجوں کو انخلا شروع ہوا تو ایک مرتبہ پھر افغانستان میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی جس میں پاکستان نے اپنے پسندیدہ گروپوں کی حمایت جاری رکھی۔ 1996 میں طالبان نے زور پکڑنا شروع کیا اور کندھار سے اٹھ کر پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا، اس ’فتح مبین‘ کا کریڈٹ بھی پاکستان لیتا ہے۔ اس کے بعد 9/11 کا حملہ ہوا اور باقی تاریخ ہے۔

کوئی افغان شہری جو اس وقت بیس تیس یا چالیس برس کا ہے، وہ ایسے افغانستان میں پلا بڑھا ہے جہاں صرف جنگ اور بربادی تھی (ہے ) ، اس نے اپنے ملک میں پاکستان کی مداخلت دیکھی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے ملک کی بربادی کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان کو سوویت یونین کے شکنجے سے آزاد کروایا تو ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ افغانستان نے ہمیں ایسی کوئی ’درخواست‘ جمع نہیں کروائی تھی، ہم نے سرد جنگ میں ایک سپر پاور کے حکم پر افغانستان میں مداخلت کی، افغانستان میں تو انقلابی حکومت آ چکی تھی، وہ سوشلسٹ تھی یا اسلامی، اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر ہم نے اس حکومت کے خلاف اپنے جہادی تیار کیے اور افغانستان پر چڑھ دوڑے۔

یہی نہیں بلکہ سوویت انخلا کے بعد بھی ہماری مداخلت جاری رہی اور ہم سٹریٹیجک ڈیپتھ کا چورن قوم کو بیچتے رہے، قوم وہ چورن کھا کر الٹا بد ہضمی کا شکار ہو گئی اور آج یہ حال ہے کہ ہم افغانیوں کو نمک حرام کہہ رہے ہیں، ان لوگوں کو جن کی تین نسلیں جنگ کی نذر چکی ہیں۔ مگر تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ افغانستان کی جنگوں میں پاکستان کا کردار ثانوی رہا ہے، اصل جنگی مجرم سوویت یونین اور امریکہ ہیں، مگر افغانیوں کی جو نفرت ہمارے لیے ہے وہ ان دونوں ممالک کے لیے نہیں۔

ایک درخواست مجھے اپنے لبرل دانشور دوستوں سے بھی کرنی ہے کہ ٹھیک ہے پاکستان نے افغانستان میں مداخلت کی اور یہی افغانیوں کی نفرت کی وجہ ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ افغانی ہمیں گندی گالیاں دیں اور ہم خندہ پیشانی سے سن کر کہیں کہ برادر بات تو ٹھیک کر رہا ہے۔ ہر معاملے میں پاکستان کو سو فیصد قصور وار سمجھنا اور اپنے ہی ملک پر لعن طعن شروع کر دینا بھی درست رویہ نہیں۔ ذاتی زندگی میں اگر کوئی کسی کو بے غیرت کہے اور وہ شخص حقیقت میں بے غیرت بھی ہو تو وہ یہ نہیں کہتا کہ میرے بھائی نے بات تو ٹھیک کی ہے، مجھے اس کا منہ چوم لینا چاہیے۔

امریکہ، سوویت یونین، طالبان، افغانی جنگجوؤں اور افغانیوں کی انقلابی جماعت سمیت کوئی بھی دودھ کا دھلا ہوا نہیں ہے، سب کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں، لہذا صرف پاکستان کو ہی مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔ افغان بھائیوں کو میرا مشورہ ہے کہ جس طرح آپ ہمارے خلاف جذبات کا اظہار کرتے ہیں اگر اس آزادی اظہار کا استعمال اپنی استبدادی حکومت کے خلاف کریں تو شاید آپ کے ملک کا کچھ بھلا ہو جائے!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments