عمران خان کے جنرل باجوہ سے رابطے


اس سال اپریل کے دور ان ملک میں جو بھی سیاسی سرگرمیاں ہوئیں ان کے بارے میں تو فروری کے وسط سے ہی اطلاعات موصول ہونا شروع ہو چکی تھیں۔ حکومت تو تبدیل ہو گئی مگر اس جدوجہد کے دوران ہونے والے غیر آئینی اقدامات کے بارے میں کچھ نہ کہا گیا۔ سپیکر، ڈپٹی سپیکر، وزیراعظم اور حد تو یہ کہ ریاست کے سربراہ صدر مملکت بھی اس میں شریک رہے۔ عدالت عظمیٰ کو بھی اس بارے میں فیصلہ دینا پڑا کہ غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات نہیں ہونے دیں گے۔ پھر اس کے نتیجے میں پنجاب کی حکومت، اعتماد کا ووٹ اور عدالتی فیصلے جب بھی آنے والے وقتوں میں مورخ رقمطراز ہو گا تو کسی پر کسی قسم کی قدغن نہ ہوگی، نہ خوف ہو گا اور نہ ہی ڈر۔ مگر کیا اس کے پاس ان واقعات اور اس کے بعد پیدا ہونے والے واقعات کی تفصیلات ہوں گی۔ میرے نزدیک اب بھی بہت کچھ ہو جاتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔

شرمندہ شرمندہ صدر مملکت نے واقعات کے بعد گورنر ہاؤس لاہور کا انتخاب کیا کہ وہاں جا کر وہ اپنا مافی الضمیر کہہ سکیں یقیناً انہوں نے وہ سب کچھ تو نہ کہا ہو گا جو وہ کہنا چاہتے تھے اور یہ تو بالکل ہی نہیں بتایا ہو گا کہ وہ ایجنڈا لے کر چلے ہیں اگر کامیاب ہو گیا تو واہ واہ وگرنہ کسی کو کیا علم؟ انہوں نے ایسا کیونکر کیا اس بارے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک ایک کر کے راستے جب بند ہو جاتے ہیں تو پھر کسی کو تو دروازہ کھولنا ہی ہوتا ہے۔

ریاستی امور کبھی رکا نہیں کرتے ان کو تو ہر صورت مکمل ہونا ہوتا ہے اور وہ شخصیات جو نہایت سنجیدہ، متین، ذمہ دار اور محب وطن ہوں ان کو میدان میں خاموشی کے ساتھ لانا ضروری ہو جاتا ہے۔ ایسا اب بھی ہو رہا ہے مگر خاموشی اس قدر زیادہ اور شور اس قدر اونچا ہے کہ کچھ سنائی نہیں دیتا۔ خاموشی کچھ بتاتی نہیں اور شور کچھ سننے نہیں دیتا مگر ساز تو بج رہے ہیں، سارنگی طبلہ پر کام ہو رہا ہے، کیا ڈھول کی ضرورت ہو گی؟ ابھی اس بارے میں کچھ کہنا مناسب نہیں۔

اپریل میں یہ بات طے پا گئی تھی انتخابات وقت سے پہلے کروا لئے جائیں اور مشکل فیصلے آنے وا لی حکومت خود ہی کرے گی مگر باہمی اعتماد کی شدید کمی اور بد گمانی اور وعدہ شکنی نے ایسا نہ ہونے دیا جب ایک بار اعتماد کا جنازہ اٹھ چکا ہو تو دوبارہ جنازہ اٹھانے کی ضرورت کوئی بھی فریق محسوس نہیں کرتا پھر بھی ایسا کیا گیا۔ پرویز خٹک، اسد عمر اور فواد چوہدری نے معاملات طے کر لئے تھے ایک دوسرے کے ساتھ، مبارکباد کے پیغامات کا تبادلہ بھی ہوا مگر جناب عمران خان صاحب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ان پر اعتماد کیونکر کیا جائے۔ یہ وہ ہی بات تھی جو فریق دوئم عمران خان کے دور اقتدار میں کیا کرتا تھا۔ بات بات ہی رہ گئی۔

عمران خان صاحب نے عسکری قیادت کے بارے نامعقول فقروں کی پوری لغت یاد کر کے دوہرانی شروع کر دی۔ سیاسی ڈیڈ لاک بھی انہوں نے لگایا تھا، ملکی سلامتی کے اداروں کے ساتھ بھی بازاری زبان کا استعمال شروع کر دیا۔

گویا کوئی صورت باقی نہ بچی تھی کہ عمران خان نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی، سابق ڈی جی ایم آئی، سابق کور کمانڈر اور سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، ریٹائرڈ جنرل احسان الحق کے ساتھ اپنے پرانے رابطے بحال کر نا شروع کیے۔ اس بارے میں ہمارے دوست رضوان رضی نے کچھ کہا بھی ہے مگر بات ادھوری کی گئی۔ میں نے کوشش کی کہ جنرل احسان الحق سے کچھ تفصیلات مل سکیں مگر ایک مرنجاں مرنج شخصیت نے اپنی رسم کو قائم رکھا تاہم دیگر ذرائع بھی تو کام کر سکتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ عمران خان کے کئی براہ راست اور بالواسطہ رابطوں کے نتیجے میں 15 جون کو یہ ملاقات بنی گالہ کے مقام پر نہایت تفصیل کے ساتھ ہوئی۔ میں جانتا ہوں کہ جنرل احسان الحق اب بھی ہر مکتبہ فکر کے لوگوں اور ہر طرف کے اہم سیاستدانوں سے ملاقات سے انکار نہیں کرتے۔ میرے ذرائع کے مطابق جنرل احسان الحق نے عمران خان کو باور کروایا کہ ان کو فوج سے تصادم سے ہر صورت گریز کرتے ہوئے افواج پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کھلے دل کے ساتھ کر نا چاہیے اور یہ کسی صورت مناسب نہیں کہ سانپ گزرنے کی لکیر کو پیٹا جائے اور یہ کہ ڈائیلاگ کا راستہ بھی بند رہے اور یہ بھی مناسب نہیں کہ سابق وزیراعظم آرمی چیف کے ساتھ اپنا رابطہ قائم نہ رکھے۔

میرے ذرائع کے مطابق ایک طویل مباحثہ کے نتیجے میں عمران خان نے ان سے کہا کہ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے لئے تیار ہوں مگر یہ آرمی ہاؤس یا جی ایچ کیو وغیرہ میں نہ ہوگی۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ عمران خان نے کہا کہ میں آپ کے گھر آنے اور ملاقات کے لئے تیار ہوں مگر جنرل احسان الحق نے انہیں ایوان صدر کا مشورہ دیا۔

ایسی حکومتی پوزیشن پر کام کر نے والی شخصیات کا معمول ہوتا ہے کہ وہ جب کبھی ملکی، داخلی یا خارجی اور سلامتی کے معاملات پر کسی اہم ملکی یا غیر ملکی شخصیت سے ملاقات کریں تو وہ متعلقہ اداروں کے سربراہوں کو اس سے آگاہ خود کرتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ جنرل احسان جو کہ جنرل باجوہ سے بہت سینئر ہیں، کو براہ راست یا بالواسطہ اس ملاقات کے بتایا ہو گا۔ اب آپ صدر مملکت کے دو تین مفاہمتی بیانات پر غور کریں تو صورت حال واضح ہوتی نظر آتی ہے۔

عمران خان کے بارے یہ بات ان کے قریبی لوگ کثرت کے ساتھ کرتے ہیں وہ پہلی سنی ہوئی بات پر ذرا زیادہ دھیان دے کر رائے قائم کر لیتے ہیں اور پھر تسبیح اس کی پڑھی جاتی ہے۔ گزشتہ روز کا انٹرویو مجھے احساس دلا رہا ہے کہ جس طرح غیر مصدقہ اطلاع آ رہی تھی کہ جنرل باجوہ اور عمران خان کی ایوان صدر کے کسی حصہ میں ملاقات تو ہو گئی مگر اس میں عمران خان کو پاکستان کی موجودہ معاشی، دفاعی، عسکری اور امن وامان کے علاوہ سیاسی صورت پر دو ٹوک الفاظ میں کچھ چیزیں یاد کروائی گئی ہیں اور چونکہ ملاقات غیر مصدقہ ہے اس لئے مزید رائے کی ضرورت نہیں تاہم عمران خان کا انٹرویو ایک رخ تو دکھا رہا ہے اور وہ بہت روشن نہیں کیونکہ وہ ملک میں مرحلہ وار الیکشن چاہتے ہیں اور فی الحال نئے آرمی چیف کی تعیناتی نہیں چاہتے تاہم لہجہ کی ترشی اور سختی میں اب کمی ہے اور وہ ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔ بہتر ہو گا اگر وہ واضح لائن اختیار کریں اور خواہ مخواہ اپنی قوت کو ضائع نہ کریں۔

عظیم چوہدری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عظیم چوہدری

عظیم چوہدری پچھلے بیالیس سالوں سے صحافت اور سیاست میں بیک وقت مصروف عمل ہیں ان سے رابطہ ma.chaudhary@hotmail.com پر کیا جاسکتا ہے

azeem-chaudhary has 39 posts and counting.See all posts by azeem-chaudhary

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments