عمرانی ازم اور توہین مذہب


جب کسی حکمران، بادشاہ یا مسخرے لیڈر کے پاس تمام کارڈ ختم ہو جائیں تو وہ دو کارڈ لازمی استعمال کرتا ہے۔ پہلا کارڈ غداری کا ہوتا ہے جس کا پرچار وہ اپنے وزیروں، مشیروں، سفیروں اور زرخرید فنکاروں کے تحت لانچ کرتا ہے۔ کیونکہ دنیا میں کوئی بھی ایسی قوم نہیں گزری جو اپنے وطن کے نام پر مر مٹنے کو تیار نہ ہوئی ہو۔ دوسرا کارڈ مذہب کا کارڈ ہوتا ہے۔ یہ سب سے آخر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہب کارڈ ہمیشہ ناکام ہوتے ہوئے اور اپنی مقبولیت کم ہوتا دیکھتے ہوئے لیڈروں نے استعمال کیے۔

دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ رومن ایمپائر میں ان دونوں کارڈ کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ایک دن روم کے کچھ حکومتی سرکردہ افراد فیثا غورث کو سقراط کے پاس لے کر آئے۔ انہوں نے سقراط سے پوچھا کہ یہ شخص کہتا ہے کہ چاند پر کوئی دیوی دیوتا نہیں رہتے۔ یہ ہمارے دیوتاؤں کی تذلیل کر رہا ہے اس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔ سقراط نے جواباً کہا میرے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں کہ میں اس کے جواب کو درست کہہ دوں اور ہاں میرے پاس ایسی بھی کوئی دلیل نہیں کہ اس کے جواب کو غلط کہہ دوں۔

آخر وہ رومی چلے گئے اور فیثا غورث کے جرم پر دو سزاؤں کی آپشن اس کے سامنے رکھی۔ پہلی تمہیں زہر دے کر قتل کیا جائے گا۔ دوسری آپشن تھی کہ تمہیں جلاوطن کر دیا جائے گا۔ فیثاغورث نے زہر پر جلاوطنی کو ترجیح دی۔ پھر ایک دن آیا کہ اسی سقراط  نے بھی دیوی دیوتاؤں کے خلاف بغاوت کردی اور اس کو بھی یہ دونوں سزاؤں کی آپشن پیش کی گئی۔ سقراط  نے جلاوطنی پر زہر کا پیالہ پینے کو ترجیحی دی۔ غداری کارڈ اکثر تب استعمال کیا جاتا رہا جب بادشاہ کو لگتا کہ اب ہم جنگ ہار رہے ہیں پھر اس کا چرچا اپنے وزیروں اور مشیروں کے ذریعے عوام میں عام کیا جاتا پھر جب بادشاہ کو لگتا ہے کہ کوئی شخص میرے اقتدار کے لئے اور میری جان کے لئے خطرہ ثابت ہو رہا ہے عوام میں میری اصلیت بے نقاب کر رہا ہے۔ تو وہ اس اپنے مخالف شخص کو غدار قرار دے کر پھانسی پر چڑھوا دیتا ہے یا جلا وطن کرا دیتا ہے۔ پھر سب سے آخر میں جب غداری کارڈ ناکام ہو جائے تو مذہب کارڈ کا استعمال کرتا ہے کیونکہ کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہے جن کی حب الوطنی پر قوم شک نہیں کرتے پھر مجبوراً مذہب کارڈ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہی کچھ عمران خان بطور وزیراعظم کرتا رہا ہے اور آج بھی کر رہا ہے۔ پہلے اپنے مخالفین پر غداری کے فتوے لاگو کرتا تھا اب مذہب کا سہارا لے رہا ہے۔

لیکن افسوس کی بات ہے کہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے مذہب کی اصل کو بگاڑ رہا ہے۔ کبھی حلف اٹھاتے وقت آپ سرکار ﷺ کا نام غلط پڑھتا ہے۔ کبھی رحمت العلمین ﷺ اتھارٹی کا چیئرمین ایک ریاکار کو بنا دیتا ہے۔ کبھی تاریخ سے حضرت عیسیٰ السلام کا ذکر ہی ختم کر دیتا ہے۔ کبھی مسجد نبوی ﷺ کی توہین کرنے والوں کو شاباش دیتا ہے۔ کبھی اپنا ساتھ چھوڑنے کو شرک سے تشبیہ دیتا ہے۔

یہ وہ تمام گھٹیا ہتھکنڈے ہیں جو مسلسل عمران خان استعمال کر رہا ہے لیکن سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی مفتی، کوئی عالم دین اور کوئی مفکر اس کی چرب زبانی پر اس کو لگام ڈالنے والا نہیں ہے۔ جس ملک میں توہین رسالت کے الزام میں ایک گورنر دن دیہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے۔ بادامی باغ میں مسیحیوں کی پوری بستی جلادی جاتی ہے۔ یوحنا آباد میں دو نوجوان زندہ جلا دیے جاتے ہیں۔ کورٹ رادھا کشن میں دو میاں بیوی اور میاں چنوں میں ایک شخص زندہ جلا دیا جاتا ہے وہاں ایک شخص اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے کبھی احمدیوں کے مرکز ربوہ میں اپنا دفتر کھلوا رہا ہے اور کبھی اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

سب سے افسوس کی بات ہے کہ مولوی طارق جمیل جیسا عالم اس کی پشت پناہی کرتا ہے جو دن رات ٹی وی چینلز پر مذہبی لیکچر دیتا ہے۔ آخر عمران خان کی مسلسل توہین مذہب پر ہمارے علماء کرام کب تک خاموش رہیں گے؟ کیا ایسا کوئی عالم دین نے رہا ہے جو اس کو لگام ڈال سکے؟ دنیا کے افضل ترین دین اسلام کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور عمرانی ازم کے پیروکار اس کا دفاع کر رہے ہیں۔ کیا یہ قیامت کی نشانی نہیں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments