جنگ بندی کے باوجود حملے، پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کی حقیقت کیا؟

عبدالسید - محقق و تجزیہ کار


پاکستانی ریاست کی مخالف شدت پسند تنظیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے رواں برس جون کے اوائل میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ساتھ غیر معینہ مدت کے لیے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا۔

اس جنگ بندی کا مقصد حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان پچھلے سال نومبر میں افغان طالبان کی ثالثی میں ہونے والے امن مذاکرات کو کامیاب بنانا تھا جس میں کئی مہینوں کی خاموشی کے بعد اس سال مئی میں اچانک تیزی دیکھنے میں آئی۔

تمام تر تیزی کے باجود یہ مذاکرات افغان دارالحکومت کابل میں عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت اور اس کے ساتھ ہی پچھلے ماہ افغانستان میں پاکستانی طالبان کمانڈروں کے پے در پے پراسرار حملوں میں مارے جانے کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا کیے ہوئے ہیں۔

مزید یہ کہ رواں ماہ کی دو تاریخ سے تحریک طالبان نے دفاعی عنوان سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کا ایک شدید سلسلہ شروع کیا ہے جس سے یہ مذاکرات اور جنگ بندی مزید بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔

اس پیچیدہ صورتحال میں ٹی ٹی پی اور حکومتِ پاکستان کے درمیان مذاکرات اور جنگ بندی سے متعلق خاموشی نے کئی سوالات جنم دیے ہیں، جس میں اہم سوال یہ ہے کہ فریقین کے ایک دوسرے کے خلاف حملوں کے الزامات کے باوجود یہ مذاکرات کیوں اور کیسے جاری ہیں۔

ان تمام سوالات کا اس تحریر میں احاطہ کیا گیا ہے کہ تمام تر چیلنجز کے باوجود کسی بھی طرف سے غیر متوقع طور پر مذاکرات اور جنگ بندی کے خاتمہ کا اعلان کیوں نہیں کیا جاتا۔

اس کے ساتھ اس تحریر میں طالبان کے اقتدار پر قبضے سے اب تک ان مذاکرات کی کوششوں اور اس کے اتار چڑھاؤ کا بھی ایک مفصل جائزہ شامل ہے۔

مذاکرات کا جاری رہنا

ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے درمیان مذاکرات کی ایک اہم مجبوری ثالث افغان طالبان ہیں۔

فریقین کے افغان طالبان سے ایسے مفادات جڑے ہوئے ہیں جن سے صرفِ نظر کرنا ان کے لیے ممکن نہیں اور اسی مجبوری کے تحت وہ ایسے اقدامات سے گریزاں ہیں کہ وہ افغان طالبان کی نوزائیدہ حکومت کے لیے مشکلات کا سبب نہ بنیں۔

طالبان

یہی وجہ تھی کہ ٹی ٹی پی، افغان طالبان کی تجویز پر ان مذاکرات کا حصہ بنی کیونکہ افغان طالبان سے فکری وابستگی، افغان طالبان پر انحصار اور اس کے مقابل ایک کمزور عسکری قوت ہونے کی وجہ سے تحریک طالبان کے لیے یہ تجویز رد کرنا ممکن نہ تھا۔

ٹی ٹی پی کو افغانستان میں حکومت کے قیام و استحکام کے لیے افغان طالبان کی پاکستان پر انحصار کی حقیقت کا ادراک تھا، جس کا ذکر تحریک طالبان کی مرکزی شوریٰ کے اہم رکن قاری محمد شعیب باجوڑی نے فروری 2020 کو القاعدہ کے پاکستان سمیت جنوبی ایشیا شاخ کے اہم رہنما استاد اسامہ محمود کے نام خط میں کیا تھا۔

دراصل افغان طالبان کے ہم فکر تمام جنگجوؤں کی طرح ٹی ٹی پی کا بھی یہ ماننا ہے کہ افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کی 20 سال سے زیادہ مسلسل جنگ کے نتیجے میں افغان طالبان کی فتح موجودہ دور میں جہادیوں کی سب سے اہم فتح ہے جس کا استحکام و دفاع دنیا بھر کے تمام جہادیوں پر فرض ہے۔

اس حقیقت کا اظہار ٹی ٹی پی کے بانی نائب سربراہ مولوی فقیر محمد اور مفتی نور ولی محسود نے پچھلے سال افغانستان میں طالبان کے قبضہ اقتدار کے فوراً بعد اپنے پیغامات میں کیا کہ ٹی ٹی پی نے نہ صرف افغانستان میں طالبان کی فتح میں اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ اس کے بعد بھی جب بھی افغان طالبان کو مدد کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اس کے لیے حاضر ہیں۔

شاید یہی وجہ تھی کہ ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈروں نے مجھے حال ہی میں مذاکرات کے حوالے سے بتایا کہ ’اگرچہ افغانستان میں فتح کے بعد وسائل اور افرادی لحاظ سے ٹی ٹی پی کو پاکستانی فورسز کے خلاف جنگ شدید کرنے کے لیے کافی ساز گار ماحول میسر ہے مگر افغان طالبان کی سیاسی مجبوریوں کو ترجیح دیتے ہوئے قیادت کا یہ فیصلہ ہے کہ کسی ایسے اقدام سے اجتناب کیا جائے جو افغان طالبان کے اقتدار کے لیے مشکلات کا سبب بنے۔‘

دوسری طرف افغان سرزمین سے ماضی میں پاکستان کو درپیش خطرات کی ایک طویل تاریخ کی وجہ سے پاکستان کو افغان طالبان کے علاوہ کابل کی حکمرانی کے لیے کوئی دوسرا متبادل دستیاب نہیں۔ اس لیے پاکستان کی بھر پور کوشش ہے ٹی ٹی پی سمیت تمام مشکلات سے ایسی حکمت عملی کے ذریعے نمٹا جائے جس سے افغانستان پر طالبان کے اقتدار کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔

ایسی صورتحال میں پاکستان اگر افغان طالبان کی حکومت کے لیے اپنی حمایت کو ان کی پاکستان مخالف ٹی ٹی پی کے خلاف انتہائی اقدام سے مشروط کرتا ہے تو اس سے اندرونی طور پر طالبان کے ٹوٹنے کے خطرات ہیں، جس سے ملک پر طالبان کا قبضہ قائم رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔

اس خطرے کی وجہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے جنگجوؤں کا دیرینہ تعلق ہے جس کی ایک طویل تاریخ ہے۔

دراصل ٹی ٹی پی ان پاکستانی جنگجوؤں کے اشتراک سے وجود میں آئی جو نوے کی دہائی سے افغانستان میں طالبان تحریک کے آغاز سے طالبان کے قبضہ و اقتدار کی توسیع اور استحکام کے لیے لڑتے آرہے ہیں۔

ان ہی جنگجوؤں نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کی مخالفت کے ردعمل میں اپنی ریاست کے خلاف اعلان جنگ کیا تو ساتھ میں جنوبی وزیرستان تا باجوڑ پاکستان کی افغانستان سے متصل قبائلی پٹی میں اپنے زیر قبضہ علاقوں میں افغان طالبان کو ٹھکانے فراہم کیے گئے جہاں سے طالبان نے افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کے خلاف اپنی جنگ کا آغاز کیا۔

اسی طرح افغانستان میں بھی افغان طالبان کی زیر قیادت امریکی و اتحادی افواج کے خلاف جنگ میں بھی اس کے سینکڑوں جنگجو قتل ہو چکے ہیں جس سے دونوں تنظیموں اور خصوصاً ان کے جنگجوؤں کے درمیان دیرینہ اور مضبوط تعلقات استوار ہیں۔

افغان طالبان کی سیاسی قیادت کی مشکلات

اس تناظر میں افغان طالبان کی سیاسی قیادت کا پاکستان کے دباؤ پر ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی اقدام اندرونی خلفشار کا سبب بن سکتا ہے جس سے ملک پر طالبان کے قبضہ و اقتدار کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

افغان طالبان کے ایسے کسی اقدام کا دوسرا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس سے ٹی ٹی پی کے جنگجو افغان طالبان سے دلبرداشتہ ہو کر عالمی شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کی علاقائی شاخ داعش خراسان کے قریب جا سکتے ہیں جس کا افغانستان میں طالبان کے خلاف ایک خوفناک محاذ جنگ قائم ہے۔

داعش خراسان پہلے ہی ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو اپنے پروپیگنڈا پیغامات میں یہ دعوت دیتی آرہی ہے کہ افغان طالبان، پاکستان کی خوشنودی کے لیے ٹی ٹی پی کو بھینٹ چڑھانے سے کوئی دریغ نہیں کریں گے لہذا ان کے جنگجوؤں کو اپنے بچاؤ کے لیے داعش کے ساتھ اکھٹا ہونا چاہیے۔

ان خطرات کے پیش نظر افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کی حکومت پاکستان کے ساتھ جنگ کو ایک منطقی انجام دینے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا جس سے جڑی جنگ بندی کی وجہ سے ان مذاکرات کا بغیر کسی نتیجے کے جاری رہنا بھی واضح طور پاکستان کے فائدے میں تھا کیونکہ اس دوران ملک کے اندر ٹی ٹی پی کے حملے رک گئے تھے۔

دوسری جانب افغانستان میں ایمن الظواہری سمیت ریاست مخالف پاکستانی کمانڈروں کے جنگ بندی کے دوران پراسرار حملوں میں مارنے جانے کی وجہ سے ٹی ٹی پی کی قیادت کے لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے مذاکرات کے نتائج کے انتظار میں بیٹھے ایسی صورتحال کا جاری رکھنا ممکن نہ تھا خصوصاً جب ان کے حامی و جنگجو ایمن الظواہری سمیت پاکستانی کمانڈروں کے مارے جانے کے لیے پاکستانی سکیورٹی اداروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

لہذا، ٹی ٹی پی کی طرف سے ان برائے نام دفاعی حملوں کے نام سے جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کیے بغیر پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں کا آغاز دراصل ایک طرف حکومت پر ان مذاکرات کے حوالہ سے دباؤ بڑھانا ہے تو دوسری طرف اپنے جنگجوؤں کو یہ یقین دلانا ہے اگر مذاکرات سے نتائج حاصل نہیں ہوتے تو ان کی قیادت باضابطہ جنگ سے دریغ نہیں کرے گی۔

مذاکرات کی کوششوں کے آغاز سے اب تک کا اتار چڑھاؤ

حکومت پاکستان کی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں میں پیشرفت پچھلے سال اگست میں افغانستان میں قبضہ اقتدار کے فوراً بعد افغان طالبان کی کوششوں سے ہوئی۔

افغان طالبان نے پچھلے سال ستمبر کے اوائل میں کابل آنے والے ٹی ٹی پی کے اعلیٰ سطحی وفد کو حکومت پاکستان کے ساتھ ان کے ڈیڑھ دہائی سے زیادہ محیط جنگ کو مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرنے کی تجویز دی۔

ٹی ٹی پی کا وفد افغان طالبان کی قیادت کو ملک میں سابق افغان حکومت کے خاتمے اور امریکہ و اتحادی افواج کے انخلا پر مبارکباد دینے گیا تھا۔

اس ملاقات میں افغان طالبان کی طرف سے طالبان کے تینوں نائب سربراہ اور طالبان عبوری حکومت کے نائب وزیراعظم، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع بالترتیب ملا عبدالغنی برادر، سراج الدین حقانی، ملا محمد یعقوب سمیت نائب وزیرداخلہ عبدالقیوم ذاکر اور نائب وزیر دفاع ملا فاضل اخوند نے شرکت کی۔

ٹی ٹی پی کے وفد کی سربراہی تنظیم کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کر رہے تھے جس میں عمر خالد خراسانی، مولوی فقیر محمد، تنظیم کے نائب سربراہ مفتی مزاحم سمیت 15 اہم ارکان شامل تھے۔

اس ملاقات سے باخبر ذرائع نے راقم کو بتایا کہ افغان طالبان کی قیادت کی طرف سے حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی تجویز ٹی ٹی پی کی قیادت کے لیے غیر متوقع تھی جس پر غوروخوض کے لیے انھوں نے افغان طالبان سے چند منٹ باہمی مشورہ کے لیے علیحدگی طلب کی جس کے بعد جواباً بتایا اگرچہ وہ اپنی طرف سے ایسے کسی مذاکرات کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تاہم اگر یہ افغان طالبان کی تجویز اور سیاسی ضرورت ہے تو وہ یقینا اس کے لیے تیار ہو سکتے ہیں بشرطیکہ افغان طالبان اس مذاکراتی عمل میں ثالثی کا کردار ادا کریں۔

ٹی ٹی پی کا مؤقف تھا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے فریق مخالف سے اپنے مطالبات کے حصول کے لیے کوئی امید نہیں رکھتے کیونکہ وہ ماضی کی ایسی تمام کوششوں کی ناکامی کے لیے فریق مخالف کو قصوروار قرار دیتے ہیں۔

افغان طالبان قیادت نے ٹی ٹی پی سے بھرپور حمایت کا وعدہ کیا۔

افغان طالبان کی طرف سے پاکستانی حکومت کو مثبت جواب ملنا ہی وجہ رہی ہو گی کہ پچھلے ستمبر کے وسط میں پاکستانی صدر ڈاکٹر عارف علوی اور اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے غیر متوقع طور پر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے لیے ہتھیار ڈالنے کی شرط پر عام معافی کا اعلان کر دیا۔

شاید ٹی ٹی پی کا مذاکرات کے لیے رضامندی کا پیغام غلط طریقے سے پاکستان کے مقتدر حلقوں کو پہنچا تھا جس کی وجہ سے وہ یہ گمان کر بیٹھے تھے کہ فقط عام معافی اور ملک واپسی کے اعلان سے ٹی ٹی پی کے جنگجو ریاست کے خلاف جنگ سے دستبردار ہو جائیں گے۔

اسی وجہ سے ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے ان پیشکشوں کو سختی سے مسترد کیا اور اپنی تنظیم کا مؤقف دہراتے ہوئے ایک رسمی پیغام میں بتایا کہ ٹی ٹی پی ملک میں طالبان طرز کے شرعی نظام کے نفاذ سمیت تمام مطالبات پورے ہونے تک جنگ جاری رکھے گی اور اگر ان مطالبات کا حصول مذاکرات کے ذریعے ممکن ہو تب بھی وہ تیار ہے۔

ٹی ٹی پی کے اس سخت مؤقف کے بعد فریقین کے درمیان مذاکرات کا ہونا غیر یقینی ہوگیا تھا مگر اس بیان کے چند ہفتے بعد گذشتہ برس نومبر کی آٹھ تاریخ کو حکومت پاکستان کے ترجمان چوہدری فواد حسین اور خراسانی نے غیر متوقع طور پر یکے بعد دیگرے مذاکرات سمیت ایک مہینے کی جنگ بندی کا اعلان کر کے جنگ بندی کی توسیع مذاکرات میں پیشرفت سے مشروط کی۔

جنگ بندی کی مدت پوری ہونے پر ٹی ٹی پی نے مخالف فریق پر مذاکرات میں غیر سنجیدگی اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے جنگ بندی کے خاتمے مگر مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

دراصل نومبر میں مذاکرات اور جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی تحریک طالبان کی مذاکراتی ٹیم اور افغان طالبان کے نمائندے طے شدہ پروگرام کے تحت افغانستان کے جنوب مشرقی صوبہ خوست میں پاکستان کی حکومتی مذاکراتی ٹیم کا انتظار کرتے رہے جو نہ آ سکی۔

اس پر کمانڈر عمر خالد خراسانی نے دو طرفہ جنگ بندی و مذاکرات کے اعلان کے چند روز بعد بی بی سی اردو کے لیے کیے جانے والے ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ ’ٹی ٹی پی ان مذاکرات کے لیے افغان طالبان کو درپیش بیرونی سیاسی مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لیے تیار ہوئے تھے لہذا بطور ضامن افغان طالبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے فریق کو اپنے وعدوں کا پابند بنائیں۔‘

جنگ بندی کا خاتمہ اور پراسرار حملے

جنگ بندی کے خاتمے کے فوراً بعد پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف تحریک طالبان کے حملوں میں شدت آئی تو دوسری طرف افغانستان کی سرزمین پر ٹی ٹی پی حملوں کی زد میں آئی۔

ان حملوں میں جنوب مشرقی صوبہ پکتیکا اور شمال مشرقی صوبہ کنڑ میں افغانستان کے پناہ گزین کیمپ میں موجود وہ لوگ نشانہ بنے، جو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے آپریشنز کی وجہ سے برسوں سے افغانستان میں رہ رہے ہیں۔

حملے

اسی طرح نامعلوم ٹارگٹ حملوں میں ٹی ٹی پی کے سینئیر کمانڈروں کو نشانہ بنایا گیا جس میں اس سال جنوری کے وسط میں افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں تحریک طالبان کے میڈیا کمیشن کے سابق سربراہ مفتی خالد بلتی کا قتل قابل ذکر ہے۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے ایسے نامعلوم حملوں میں اپنے کمانڈروں کے مارے جانے کا الزام ہمیشہ پاکستانی سکیورٹی اداروں پر لگایا جاتا ہے اور پاکستانی حکام ان الزمات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔

افغان سرزمین پر پاکستانی فضائی حملوں کے ردعمل میں افغان وزیر دفاع کی جانب سے محض لفظی ردعمل اور افغان وزارت خارجہ کی جانب سے کابل میں پاکستان کے سفیر کو طلب کر کے اسلام آباد سے علامتی احتجاج کے علاوہ طالبان حکومت کی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا جو کہ یقیناً ٹی ٹی پی کو یہ پیغام دینے کے لیے کافی تھا کہ ملک پر اقتدار کے باوجود وہ پاکستانی فورسز کی ملک کے اندر کارروائیوں کا جواب نہیں دے سکتے۔

دوسری طرف پاکستان حکومت کے افغان طالبان پر تمام تر دباؤ کے باوجود ٹی ٹی پی کے پاکستان کے اندر سکیورٹی فورسز پر حملوں میں تعداد و ہلاکت کے حساب سے شدت بڑھنے لگی جو یقیناً پاکستانی حکومت کے اس بیانیے کی نفی کے لیے کافی تھا، جس کے تحت ٹی ٹی پی کے حملوں کا الزام سابق افغان حکومت کے خفیہ ادارے کی پشت پناہی اور پاکستان کے حریف ملک انڈیا کی امداد پر لگایا جاتا تھا۔

شاید ان غلط فہمیوں کا ادراک دونوں جانب سے مذاکرات میں پیشرفت اور دائمی جنگ بندی کے اعلان کا سبب بنا۔

یہ بھی پڑھیے

سوات میں طالبان کی واپسی کے خدشات: ’طالبان کمانڈر نے کہا اب سے لگان ہمیں دینا ہے‘

عمر خالد خراسانی: افغانستان میں ہلاک ہونے والے سینیئر ٹی ٹی پی کمانڈر کون تھے؟

خالد بلتی کی ہلاکت کی تصدیق: کراچی مدرسے کے سابق استاد اور ٹی ٹی پی کمانڈر کون تھے؟

سنجیدہ مذاکرات

اس لیے چند مہینوں کے وقفے کے بعد اپریل کی آخری تاریخ کو ٹی ٹی پی نے عید الفطر کی مناسبت سے پانچ روزہ یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا جو دراصل پس پردہ فریقین کے درمیان ثالث کی جانب سے اعتماد سازی کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔

ٹی ٹی پی کے سربراہ نے اس پانچ روزہ جنگ بندی کے اختتام پر اس میں مزید 10 دن کا اضافہ کیا۔

اس مدت کے اختتام پر ٹی ٹی پی نے اس یکطرفہ جنگ بندی میں مئی کے آخر تک توسیع کے ساتھ یہ اعلان کیا حکومت کی طرف سے بھیجے گئے قبائلی عمائدین کے وفد نے ٹی ٹی پی کی مذاکراتی کمیٹی سے کابل میں افغان طالبان کی ثالثی میں دو روزہ ملاقاتوں سے مذاکرات کا باقاعدہ آغاز کیا۔

واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ مئی میں جنگ بندی کے اعلان سے قبل پاکستانی فوج اور انٹیلیجنس کے اعلیٰ اہلکاروں نے اس وقت کے کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی سربراہی میں کابل میں ٹی ٹی پی کے سربراہ کی سرکردگی میں تنظیم کے وفد سے مذاکرات کے سلسلے میں ملاقاتیں کی تھی، جس کے بعد دونوں جانب سے مذاکرات کے عمل کو سنجیدگی سے شروع کرنے کا آغاز ہوا۔

اس دوران ٹی ٹی پی نے جون میں مذاکرات پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یکطرفہ جنگ بندی میں غیر معینہ مدت تک توسیع کر دی تھی۔

حکومت پاکستان کی طرف سے بھی اس دوران سیاسی، قبائلی و مذہبی عمائدین کے وفود کابل بجھوائے گئے اور دونوں اطراف سے جنگ کے خاتمے اور دائمی امن معاہدے کی ضرورت اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے شرائط اور درپیش مشکلات کے حل کے لیے تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔

مذاکرات کے سلسلے میں پاکستانی حکومت کی طرف سے جولائی کے آخر میں بھیجے جانے والا وفد پاکستان کے دیو بند اور پنج پیر مذہبی مکاتب فکر کے با اثر مذہبی رہنماؤں پر مشتمل تھا جس نے کابل میں ٹی ٹی پی کے کمانڈروں سے ملاقاتیں کیں۔

اس وفد سے مذاکرات میں پیشرفت کے حوالے سے کافی امیدیں تھیں کیونکہ ٹی ٹی پی کے بیشتر جنگجوؤں کا ان دو مکاتب فکر سے تعلق ہے۔

ایمن الظواہری

ایمن الظواہری

ایمن الظواہری کی ہلاکت

یہ وفد ابھی کابل میں موجود ہی تھا کہ امریکی صدر بائیڈن نے کابل میں ایک مبینہ امریکی ڈرون حملے میں تحریک طالبان اور افغان طالبان کے دیرینہ حامی القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کے مارے جانے کا دعویٰ کیا جس کے بعد سے ان مذاکرات کے حوالے سے مکمل خاموشی چھا گئی۔

مذاکرات اور جنگ بندی کے مستقبل کے حوالہ سے مزید خطرات تب پیدا ہوئے جب کمانڈر عمر خالد خراسانی جنوب مشرقی افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے ضلع بیرمل کے علاقہ مارغہ میں تحریک طالبان کے گڑھ میں اہم کمانڈروں سمیت ایک پراسرار حملے میں مارے گئے، جو کہ نہ صرف تحریک طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے ایک اہم رکن تھے بلکہ دونوں جانب کے تنازعات کے حل کے لیے ایک ذیلی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ بھی تھے۔

یاد رہے صوبہ پکتیکا افغان طالبان کے نائب سربراہ و عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

سراج الدین حقانی

سراج الدین حقانی

اسی روز شمال مشرقی صوبہ کنڑ میں ٹی ٹی پی کے ملٹری کمیشن کے رکن اور اہم کمانڈر مولوی عقابی باجوڑی بھی ایک نامعلوم بم حملے میں مارے گئے۔

ان واقعات کے چند روز بعد اگست ہی میں تحریک طالبان کے اتحادی اور وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ برسرپیکار حافظ گل بہادر گروہ کے سینئیر کمانڈر یاسر پڑاکئی کو بھی ساتھیوں سمیت افغان طالبان کے مرکزی گڑھ، جنوبی افغانستان کے صوبہ قندھار کے سرحدی ضلع سپن بولدک میں پراسرار طور پر ساتھیوں سمیت قتل کیا گیا۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے نہ صرف ان اہم کمانڈروں کے مارے جانے کے حوالے سے پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں کے جانب انگلیاں اٹھتی ہیں بلکہ القاعدہ کے سربراہ کے امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے کے لیے بھی پاکستانی اداروں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔

ٹی ٹی پی کے ان الزامات کو افغان طالبان کی سینئیر قیادت بشمول سربراہ شیخ ہبت اللہ اور ملا یعقوب کے بیانات نے مزید تقویت دی جنھوں نے برملا پاکستان کو افغانستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں میں معاونت کا الزام لگا کر اس سلسلے کو روکنے کے لیے خبردار کیا۔

افغان اور پاکستانی طالبان کے تعلقات پر عبور رکھنے والے نامور صحافی احسان ٹیپو محسود کے مطابق پاکستانی حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان اہم کردار سراج الدین حقانی کا تھا۔

ٹیپو کے بقول ’افغانستان کی سرزمین پر ساتھی جہادیوں کے پے درپے واقعات میں پاکستانی اداروں پر ملوث ہونے کے الزامات کی وجہ سے تحریک طالبان کی افغان طالبان قیادت سے بڑھنے والے شکوک اور ایمن الظواہری کے مبینہ ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد حقانی کو درپیش دیگر سیاسی مشکلات کی وجہ سے حقانی کی ان مذاکرات کے حوالے سے کوششیں ماند پڑھ گئی ہیں۔ اسی لیے مذاکرات میں تعطل کے ساتھ تحریک طالبان کی طرف سے ایک قسم غیر اعلانیہ جنگ بندی کا خاتمہ کیا گیا ہے۔‘

ٹیپو محسود کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’پاکستان کی طرف سے ان مذاکرات میں اہم کردار پاکستانی فوج کے سابق کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تھا جن کا ان واقعات کے ساتھ پشاور سے تبادلہ بھی مذاکراتی عمل میں تعطل کی ایک وجہ ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments