پاکستان میں بخار کے مریضوں کو پیناڈول کیوں نہیں مل رہی؟

تنویر ملک - صحافی، کراچی


پیناڈول
بخار میں مبتلا شفیق احمد جب پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں پہنچے تو ڈاکٹر نے انھیں ایک سیرپ کے ساتھ پیناڈول بھی تجویز کی۔

جب شفیق احمد ہسپتال سے متصل میڈیکل سٹور میں دوا لینے گئے تو انھیں سیرپ تو مل گیا لیکن پیناڈول کے دستیاب نہ ہونے کے بارے میں بتایا گیا۔

کچھ فاصلے پر واقع ایک دوسرے میڈیکل سٹور سے شفیق احمد کو پیناڈول تو مل گئی تاہم ایک گولی انھیں دس روپے کی پڑی جو پہلے عموماً تین سے چار روپے میں مل جاتی تھی۔

نجی ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر نیاز کے مطابق وہ بخار کی دوا کے طور پر پیناڈول تجویز کرتے ہیں لیکن بخار کے علاج کے لیے اور بھی دوائیں ہیں جو وہ لکھ کر دیتے ہیں تاہم ان کے مطابق پینا ڈول کا نام اتنا معروف ہو چکا ہے کہ تقریباً ہر شخص جانتا ہے کہ یہ بخار کی دوا ہے اور بعض اوقات وہ معمولی بخار پر ڈاکٹر کے پاس آنے کی بجائے خود ہی میڈیکل سٹور سے یہ دوا لے کر کھا لیتے ہیں۔

پاکستان میں بخار کے لیے پیناڈول مفید گولی سمجھی جاتی ہے۔ برسات کے بعد ملک میں مچھروں کی افزائش اور خاص کر ڈینگی بخار میں اس کا استعمال بڑھ جاتا ہے تاہم اس وقت پاکستان میں پیناڈول کی قلت یا اس کے مہنگے داموں فروخت کی شکایات عام ہیں۔

میڈیا کے مختلف ذرائع پر پیناڈول کی کمی یا اس کی قیمت میں اضافے کے بارے میں خبریں آ رہی ہیں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے اس پر نوٹس بھی لیا گیا ہے جبکہ وزارت صحت کے مطابق ملک میں پیناڈول کے غائب ہونے کی خبریں گمراہ کن ہیں۔

پیراسیٹامول

پیناڈول کہاں گئی؟

پاکستان میں ادویات کے شعبے سے منسلک کئی افراد نے تصدیق کی ہے کہ اس وقت مارکیٹ میں پیناڈول کی قلت بھی ہے اور اس کی قیمت بھی زیادہ ہے۔

ادویات کے شعبے میں ہول سیل کا کام کرنے والے عارف بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت یہ دوا وافر مقدار میں نہیں مل رہی اور جو مل رہی ہے وہ بھی مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ کچھ ہفتے پہلے پیناڈول کی 100 گولیوں کا ایک پیکٹ 350 روپے میں ملتا تھا، پھر اس کی قیمت 500 روپے ہوئی جو بڑھ کر 700 روپے ہو گی اور اب یہ 1000 روپے میں میسر ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب انھیں ڈسٹری بیوٹر کی جانب سے پانچ ڈبے سے زیادہ نہیں ملتے۔

عارف بلوچ نے بتایا کہ وہ کراچی کے علاوہ بلوچستان کے کچھ شہروں میں بھی ہول سیل پر دوائیں فراہم کرتے ہیں اور دونوں جگہوں پر اس کی طلب بہت زیادہ بڑھ گئی ہے تاہم وہ رسد پوری نہیں کر پا رہے۔

پنجاب کے ضلع میانوالی میں اپنا کلینک چلانے والے ڈاکٹر خان زمان نے بتایا کہ کافی دن سے انھیں پیناڈول نہیں مل رہی۔ ’سپلائر سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اس کی سپلائی رکی ہوئی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پیناڈول کا 100 گولیوں کا جو پیکٹ 350 روپے میں ملتا ہے وہ اب 1000روپے سے بھی زیادہ میں پڑتا ہے جس کی وجہ سے اب انھوں نے مریضوں کے لیے پیناڈول کی بجائے دوسری دوا لکھنا شروع کر دی ہے۔‘

میڈیکل سٹو

پیناڈول کی طلب کیوں بڑھ گئی ہے؟

ملک میں پیناڈول کی طلب کے اضافے کے بارے میں ماہرین صحت اور اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق ڈینگی بخار کے کیسز میں اضافے کے بعد اس کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے اور اتنی بڑی تعداد میں ان کی ضرورت کے مقابلے میں رسد کم ہے۔

مزید پڑھیے

کیا پیراسیٹامول کا طویل مدت تک استعمال دل کے لیے اچھا نہیں؟

پاکستان میں پیناڈول کی گولی کی قلت کی وجوہات کیا ہیں؟

عارف بلوچ نے بتایا کہ سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کے بعد ڈینگی بخار کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور وہاں سے اس کی طلب زیادہ ہے۔

صحت کے شعبے کے ماہر ڈاکٹر سلمان نے بتایا کہ پیناڈول ایک برانڈ کا نام ہے جبکہ کئی کمپنیاں بخار کی دوا بناتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ عام آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی زبان پر پینا ڈول کا نام چڑھا ہوا ہے۔ ورنہ اگر پیناڈول نہ ہو تو بخار کے علاج کی دوسری دوائیں بھی موجود ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’گذشتہ سال بھی ڈینگی کے کیسز بڑھنے سے اس کی قلت ہو گئی تھی تاہم اس سال سیلاب کے بعد ڈینگی بخار کے کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے پیناڈول کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگرچہ بخار کی اور بھی بہت سی دوائیں ہیں لیکن لوگوں کی عادت بنی ہوئی ہے کہ وہ پیناڈول ہی مانگتے ہیں۔

پیناڈول کی پیداوار کیوں بہت کم ہو گئی ہے؟

پاکستان فارما سوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین منصور دلاور نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ یہ گولی قلت کا شکار ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں استعمال ہونے والے سالٹ کی درآمد کی قیمت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’جو سالٹ 600 روپے فی کلو پر ملتا تھا اب وہ 2400 روپے فی کلو پر ملتا ہے۔‘

منصور دلاور نے بتایا کہ ’ملک میں سالانہ بنیادوں پر 45 کروڑ گولیوں کی پیداوار کی جاتی ہے، جو کمپنی یہ دوا بنا رہی تھی اس کی جانب سے قیمت بڑھانے کی درخواست کے باوجود حکومت نے قیمت نہیں بڑھائی جس سے کمپنی کو نقصان ہوتا رہا ہے اور انھوں نے اس کی پیداوار بہت کم کر دی ہے۔‘

انھوں نے کہا اصل میں پیناڈول تو ایک برانڈ کا نام ہے یہ گولی پیرا سٹامول ہے تاہم پیناڈول کے نام سے زیادہ معروف ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں پیناڈول ایک غیر ملکی فارماسوٹیکل کمپنی تیار کرتی ہے۔

پاکستان میں مقامی کمپنیوں کے ساتھ غیر ملکی فارما سوٹیکل کمپنیاں بھی دوائیں تیار کر کے مارکیٹ میں فراہم کرتی ہیں۔

پاکستان میں کام کرنے والی ملٹی نینشل فارما سوٹیکل کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم فارما بیورو کی ترجمان عائشہ ٹمی نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’پیناڈول پاکستان میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی بناتی ہے اور وہ اس گولی کی پیداوار کر رہی ہے تاہم انھوں نے اس بات کی تصدیق کی یہ کمپنی اس گولی کی پیداواری استعداد سے بہت کم بنا رہی ہے۔‘

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے عائشہ نے بتایا کہ ’یہ ایک کمپنی ہی پیناڈول بناتی ہے اور کافی عرصے سے پیداوار اور فروخت میں اسے خسارے کا سامنا ہے۔ رواں سال فروری میں ریگولیٹری ادارے ڈریپ نے اجلاس طلب کیا تھا جس میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز وفاقی کابینہ کو دی گئی تھی تاہم یہ منظوری ابھی تک نہیں ملی۔‘

انھوں نے کہا کہ صرف پیناڈول کی قلت نہیں، دوسری ادویات کی بھی کم پیداوار ہو رہی ہے تاہم پینا ڈول اس لیے زیادہ زیر بحث ہے کیونکہ اس کا استعمال بہت زیادہ ہے اور ان دنوں میں جب ڈینگی بخار کے کیسز بڑھ گئے ہیں تو اس کا استعمال بھی بڑھ جاتا ہے۔

عائشہ ٹمی نے کہا کہ پاکستان میں 150 کمپنیوں کے پاس پیناڈول بنانے کا لائسنس ہے لیکن صرف ایک ملٹی نیشنل کمپنی یہ تیار کرتی ہے۔ ’ڈریپ نے کبھی بھی ان کمپنیوں سے نہیں پوچھا کہ ایک کمپنی کے علاوہ دوسری کمپنیاں پیناڈول کیوں نہیں تیار کرتیں۔‘

پیناڈول

اس بارے میں وفاقی وزیر صحت قادر پٹیل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ان سے رابطہ نہ ہونے کے بعد ان کی وزارت سے رابطہ کیا گیا تو ان کی جانب سے وزیر صحت کی گذشتہ روز کی پریس کانفرنس کے ویڈیو کلپس بھیجے گئے جس میں انھوں نے ادویات خاص کر پیناڈول کی قلت پر بات کی تھی۔

وزارت صحت کے ترجمان کے مطابق ’جو مؤقف پریس کانفرنس میں دیا گیا ہے یہی وزیر صاحب کا مؤقف ہے‘ جبکہ وزارت صحت کے ایک تحریری اعلامیے کو ترجمان نے اس معاملے پر تحریری مؤقف قرار دیا۔

ترجمان نے سو شل میڈیا پر پیناڈول کے غائب ہونے کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے اس کے غائب ہونے کی تردید کی۔

ترجمان کے مطابق ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کوالٹی اور معیاری ادویات کی فراہمی کے لیے پر عزم ہے اور بخار کی ادویات کی پروڈکشن بند ہونے کی اطلاعات غلط، بے بنیاد اور حقائق کے برخلاف ہیں۔

ترجمان کے مطابق ملک میں وسیع پیمانے پر پیرا سیٹامول کے مختلف برانڈز کی پروڈکشن جاری ہے اور وزارت صحت اور ڈریپ صورتحال کی مسلسل مانیٹرنگ کر رہی ہیں۔

ترجمان کے مطابق غلط اطلاعات پھیلانے کا مقصد صرف معصوم جانوں سے کھیلنا اور ذخیرہ اندوزوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہے۔

ترجمان کے مطابق چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور کشمیر میں جان بچانے والی ادویات اور روزمرہ استعمال کی دوائیں با آسانی دستیاب ہیں اور سیلابی صورتحال میں ڈینگی، ملیریا، بخار، اسہال، سر درد، کھانسی کی دوائیں بھی باآسانی میسر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments