شاہی خاندان میں موت پر برطانیہ کیسے سوگ مناتا ہے؟


A picture of the late Queen Elizabeth II among the floral tributes outside the gates of Buckingham Palace in London
ملکہ الزبتھ دوم کی وفات آٹھ ستمبر کو ہوئی
برطانوی شاہی خاندان سے وابستہ بہت سے دیگر معاملات کی طرح، اس خاندان میں کسی کی موت کے افسوسناک موقع پر بھی روایات اور رسم و رواج حاوی رہتے ہیں۔

8 ستمبر کو ملکہ الزبتھ دوم کی موت کے بعد سوگ کا اعلان کیا گیا جو ملکہ کی تدفین کے سات روز بعد تک جاری رہے گا۔

یہاں ہم چند ایسی روایات کی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہیں جو برطانیہ کے شاہی خاندان میں کسی کی موت کے بعد ادا کی جاتی ہیں اور ان میں سے چند روایات وہ ہیں، جو دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

پرچم سرنگوں کرنا

سوگ منانے کی پہلی علامت برطانیہ کی سرکاری عمارتوں اور شاہی خاندان سے منسلک عمارتوں پر پرچم کو سرنگوں کرنے سے متعلق ہے۔

A Union Jack flies next to Big Ben

پرچم سرنگوں کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پرچم فلیگ پول پر دو تہائی نیچے تک اتار دیا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس روایت کی جڑیں 17ویں صدی سے ملتی ہیں۔ فلیگ پول پر پرچم نیچا کرنے سے اوپر جگہ خالی ہو جاتی ہے جو اس بات کی علامت سمجھی جاتی ہے کہ دکھائی دینے والے پرچم سے اوپر ’ایک نہ دکھائی دینے والا پرچم بھی ہے جو (کسی بڑی شخصیت) کی موت‘ کی نشاندہی کرتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پرچم سرنگوں کرنے کی اس روایت کا آغاز بحری جہازوں پر ہوا تھا جہاں جہاز کے کپتان یا سینیئر افسر کی موت پر اسے خراج تحسین پیش کیا جاتا تھا۔ جہاز کا عملہ اس کا اظہار پرچم سرنگوں کر کے کرتا تھا۔

Pall bearers carry the coffin of King George VI at his funeral in 1952

یہ بات دلچسپ ہے کہ اس روایت یا قانون کا اطلاق شاہی پرچم یا رائل سٹینڈرڈ، یعنی اس پرچم پر نہیں ہوتا جو کسی مقام یا عمارت میں بادشاہ یا ملکہ کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔

یوں شاہی پرچم کبھی بھی سرنگوں نہیں کیا جاتا کیونکہ بادشاہت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ جیسے ملکہ کی وفات ہوتے ہی ان کے بڑے صاحبزادے، چارلس برطانیہ کے بادشاہ بن گئے اور انھیں شاہ چارلس سوم کہا جانے لگا۔

برطانیہ میں شاہی پرچم کے علاوہ تمام پرچم ملکہ کی تدفین کے دوسرے روز صبح آٹھ بجے تک سرنگوں رہیں گے۔ ملکہ کی وفات کے بعد صرف ایک دن (10 ستمبر) کو پرچم سرنگوں نہیں کیے گئے تھے کیونکہ اس روز شاہ چارلس کی بادشاہت کا باقاعدہ اعلان کیا گیا تھا۔

اس موقع کی مناسبت سے 10 ستمبر کو برطانیہ بھر میں تمام پرچم کئی گھنٹوں تک لہرائے گئے اور بعد میں انھیں سرنگوں کر دیا گیا۔

A gun salute for the late Queen Elizabeth II

توپوں کی سلامی

شاہی سوگ کے ساتھ منسلک ایک روایت توپوں کی سلامی ہے۔

برطانیہ کی عسکری تاریخ کے مطابق اس روایت کا آغاز 15ویں صدی میں اس وقت ہوا تھا جب برطانیہ کے بحری جنگی جہاز کسی غیر ملکی بندرگاہ پر پہنچتے تو اس سے پہلے جہاز پر لگی توپوں کا رُخ سمندر کی جانب کر کے گولے برساتے تھے۔

اس کا مقصد بندرگاہ والوں کو یہ پیغام دینا ہوتا کہ ہم جنگ کرنے نہیں آ رہے اور ہم نے اپنے ہتھیار خالی کر دیے ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ سنہ 1730 تک رائل نیوی مختلف موقعوں پر توپوں کی سلامی دیتی تھی تاہم سنہ 1808 تک شاہی خاندان اور غیر ملکی سربراہانِ مملکت کے لیے توپوں کی سلامی کو لازمی قرار نہیں دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ملکہ الزبتھ دوم کی موت: وہ لمحہ جب تاریخ رُک گئی

کھیلوں سے ملکہ کی وابستگی کی یادیں، تصاویر میں

شاہ چارلس سوم: ’پرنس آف ویلز‘ سے برطانیہ کے بادشاہ تک

کس موقع پر کتنی توپوں کی سلامی دی جاتی ہے، اس حوالے سے قواعد خاصے پیچیدہ ہیں، جس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ سلامی کس مقام اور کس موقع پر دی جا رہی ہے۔

سنہ 1827 میں برطانوی بورڈ آف آرڈینینس نے حکم دیا تھا کہ اگر لندن کے کسی شاہی پارک یا ٹاور آف لندن سے شاہی سلامی دی جاتی ہے تو اس کے لیے 41 توپوں کی سلامی درست ہو گی لیکن کچھ دیگر مواقع اور کچھ مخصوص مقامات پر اس تعداد کو بڑھا کر 62 کر دیا گیا تھا۔

ملکہ کی وفات اور شاہ چارلس کے بادشاہ بننے کے اعلان پر، دونوں مرتبہ توپوں کی سلامی دی گئی۔

ملکہ کی وفات کے دوسرے دن یعنی 9 ستمبر کو لندن کے ہائیڈ پارک میں 96 توپوں سے سلامی دی گئی کیونکہ ملکہ کی وفات 96 برس کی عمر میں ہوئی۔

A church bell tower against a blue sky

غم کے موقع پر گھنٹیاں بجانے کے لیے ایک خاص تکنیک استمعال کی جاتی ہے

گھنٹیاں بجانا

جس دن ملکہ کی وفات ہوئی اس کے اگلے روز چرچ آف انگلینڈ کے کلیساؤں، چیپلز اور تمام کیتھیڈرل میں گھنٹیاں بجائی گئیں۔

ملکہ کی وفات برطانوی تاریخ کے ان چند مواقع میں سے ایک ہے جب گھنٹیوں کا دم گھونٹ کر بجایا گیا۔ اس تکنیک میں گھنٹیوں کے دونوں سِروں پر پیڈ لگائے جاتے ہیں تاکہ گھنٹی کی گونج پیدا ہو سکے۔

لیکن بعد میں جب شاہ چارلس کی بادشاہت کے اعلان پر خوشی کا اظہار مقصود تھا تو پورے زور و شور سے گھنٹیاں بجائی گئیں۔

ماضی کے ایک مشہور راہب کی تحریروں سے معلوم ہوتا کہ انگلینڈ میں گھنٹیاں بجانے کی روایت ساتویں صدی عیسوی میں بھی موجود تھی۔

تاہم شاہی خاندان کے حوالے سے گھنٹیاں بجانے کی ایک خاص روایت لندن کے نواح میں واقع ونڈزر کاسل کی ہے۔

اس کا آغاز سنہ 1856 میں کرائمیا کی جنگ کے دوران ہوا تھا جب سباسٹوپول کے چرچ آف اپوسٹل میں لگی ایک بڑی گھنٹی کو شاہی محل لایا گیا تھا۔

ملکہ کی وفات کے ایک دن بعد یہ گھنٹی بھی 96 مرتبہ بجائی گئی تھی۔ اس سے پہلے یہ گھنٹی سنہ 2002 میں ملکہ کی والدہ کی وفات پر بجائی گئی تھی۔

Notice of the death of Elizabeth II

محل کے باہر نوٹس

عوام کو شاہی خاندان کے حوالے سے کوئی بڑی خبر دینے کے لیے، مثلاً ولادت یا موت کے موقع پر، لندن میں واقع محل کے باہر نوٹس لگایا جاتا ہے۔ یہ مختصر اعلان جس کاغذ پر لکھا ہوتا ہے وہ لکڑی کے فریم میں ہوتا ہے۔

شاہی خاندان میں بچے کی ولادت کے موقع پر اس فریم کو بکنگھم پیلس کے گیٹ کے اندر صحن میں ایک اونچی سنہری تپائی پر رکھا جاتا ہے لیکن شاہی خاندان میں موت کی صورت میں یہ فریم گیٹ پر آویزاں کیا جاتا ہے۔

سنہ 1952 میں جارج ششم اور اس سے پہلے سنہ 1936 میں جارج پنجم کی وفات کا اعلان اسی طرح محل کے گیٹ پر نوٹس لگا کر کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments