پشاور کا وہ مرکز صحت، جس کے پرانے مریض نئے آنے والوں کا 'علاج‘ کرتے ہیں

محمود جان بابر - صحافی


پیراپلیجیک سینٹر
11 اکتوبر سنہ 2010 کو پشاور سے اسلام آباد جاتے ہوئے موٹروے پر انجینیئر عرفان کی کار کا ٹائر پھٹنے کے نتیجے میں ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا، جس میں ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹی اور وہ وہیل چیئر پر منتقل ہو گئے۔

حادثے کے فوراً بعد انھیں شدید زخمی حالت میں کبھی ایک اور کبھی دوسرے ہسپتال لے جایا گیا لیکن ہسپتالوں میں ایک ڈاکٹر کے اغوا کے خلاف جاری احتجاج کی وجہ سے ان کا بروقت آپریشن نہ ہو سکا اور یوں جسمانی معذوری ان کا مقدر بن گئی۔

وہ مختلف جگہوں پر علاج کراتے ہوئے آخر کار پشاور کے پیراپلیجیک سینٹر پہنچے، جہاں پر ایک طویل دورانیے کے علاج اور جسمانی بحالی کے پروگرام سے گزرنے کے بعد وہ اس قابل ہوئے کہ بستر پر مفلوج زندگی کی بجائے ایک بہتر زندگی گزار سکیں۔ اب وہ اپنی پرانی ملازمت پر اپنی گاڑی خود چلا کر جاتے ہیں۔

اور یہیں سے انجینیئر عرفان نے اپنے جیسے کچھ افراد کے ساتھ مل کر نئے مریضوں کی مدد کا فیصلہ کیا اور اب وہ روزانہ اسی پیراپلیجک سینٹر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ آدھے یا مکمل مفلوج ہونے والے مریضوں کی کونسلنگ کرتے ہیں۔

سینٹر کی انتظامیہ کے مطابق ان رضاکاروں کی وجہ سے نئے مریضوں کے علاج اور بحالی کا مشکل ترین عمل آسان ہو جاتا ہے۔

کچھ مریض تو یہاں پر رضاکارانہ خدمات دیتے ہیں جبکہ کچھ وہ بھی ہیں جو اب اس مرکز میں باضابطہ ملازمت کرتے ہیں۔

وہیل چیئر پر بیٹھیے ان افراد نے اپنے تیز چلتے دماغوں سے آدھے مفلوج جسموں میں ایسی بجلیاں بھریں کہ کھیل کا میدان ہو یا اپنی ملازمت یا کوئی کاروبار، وہ ہر جگہ نمایاں رہتے ہیں۔

یہ ان کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ پشاور کی بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) میں خصوصی ٹریکس کی تعمیر بھی ممکن ہوئی۔ جس کی بدولت یہ سروس افراد باہم معذوری کے لیے بھی قابل استعمال ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے بہت سے کھلاڑی وہیل چیئر پر قومی و بین الاقوامی سطح کے کھیلوں کے چیمپیئن ہیں۔

پیراپلیجیک سینٹر

سینٹر پہلے افغان جنگ کے زخمیوں کے لیے بنا تھا

پیراپلیجیک سینٹر کے چیف ایگزیکٹو سید محمد الیاس خود ایک فزیو تھراپسٹ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 34 سال پہلے جب یہ مرکز انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے زیر انتظام افغان روس جنگ کے زخمیوں کے لیے چل رہا تھا تو انھوں نے اپنی پہلی ملازمت یہاں کی تھی تاہم تین سال بعد وہ امریکہ منتقل ہو گئے۔

سنہ 2002 میں محمد الیاس جب پشاور واپس آئے تو اس مرکز کو بہت بری حالت میں پایا۔

’یہاں کوئی چھ سات مریض رہ گئے تھے اور سٹاف بھی 150 سے کم ہو کر چالیس یا پچاس تک آ گیا تھا۔ ہر مریض سے علاج کے لیے پندرہ ہزار روپے لیے جاتے تھے اور اتنی بڑی رقم دینا اکثر افراد کے بس میں نہیں تھا۔‘

محمد الیاس نے بتایا کہ ’ہم نے کئی سال تک اس سینٹر کو بغیر کسی مدد کے چلایا اور آخر کار سنہ 2007 میں ہم اس قابل ہوئے کہ صوبائی حکومت کو اس کا انتظام سنبھالنے پر راضی کیا۔ اس کے بعد اس کی حیثیت نیم سرکاری ادارے کی ہو گئی اور صوبائی حکومت نے اسے گرانٹ بھی دینی شروع کی۔‘

’یہی وہ وقت تھا جب ہم نے حکومت، میڈیکل کے شعبے سے وابستہ لوگوں، سیاسی اشرافیہ اور مذہبی طبقے کو اس بات پر راضی کیا کہ میڈیکل کے شعبے میں مریضوں کی بحالی کی ضرورت کو سمجھا جائے کیونکہ یہ ایک بہت اہم شعبہ ہے۔‘

پیراپلیجیک سینٹر

یہاں علاج بالکل مفت ہے

سید محمد الیاس کے مطابق اس مرکز میں علاج 100 فیصد فری ہے۔ ’پہلے یہ صرف پوسٹ ٹرامیٹک سپائنل کارڈ انجری کے لیے مختص تھا، پھر ہم نے اس میں ٹی بی، کینسر، پولیو اور ڈاکٹروں کی غفلت کی وجہ سے معذور ہونے والوں کے علاج کو بھی شامل کیا۔‘

اب تک اس مرکز سے سوا گیارہ ہزار سپائنل کارڈ انجری، ساڑھے آٹھ سو پولیو اور تقریباً گیارہ ہزار بیڈ سورز کے مریضوں کا علاج ہو چکا ہے اور اب وہ معاشرے میں پہلے کی نسبت بہت اچھی زندگی جی رہے ہیں۔

سید محمد الیاس نے بتایا کہ ’یہاں طبی علاج کے ساتھ ساتھ نفسیاتی علاج بھی ہوتا ہے اور سب سے اہم ٹارگٹ مریضوں کو دوبارہ کارآمد شہری بنانا ہوتا ہے، جس میں ہمارے رضاکار اور سابقہ مریض و ملازمین کا کردار قابل ستائش ہوتا ہے، جن کی بدولت زندگی کی امید کھونے والے مریض ریکارڈ کم وقت میں دوبارہ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔‘

اُنھوں نے مزید بتایا کہ پورے ملک میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہونے کی وجہ سے یہاں مریضوں کا بہت ذیادہ رش رہتا ہے۔

’اس لیے صوبائی حکومت کے تعاون سے اگلے دو سال میں اس کی گنجائش 150 سے 300 بستروں تک بڑھائی جا رہی ہے جبکہ اسی طرح کا ایک دوسرا مرکز بکا خیل بنوں (سابقہ فاٹا) میں بننے جا رہا ہے۔‘

پیراپلیجیک سینٹر پشاور کی انوکھی بات یہ ہے کہ یہاں کے سابق مریضوں کی تنظیم ’فرینڈز آف پیراپلیجکس‘ مریضوں کو ان کے اضلاع میں علاج کی سہولیات اور نوکریوں میں ان کا حصہ دلانے تک میں ساتھ دیتی ہے۔

اس تنظیم کے اراکین کی تعداد گیارہ ہزار ہے اور یہ ہر ضلع میں خود معذوروں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ٹیلی ہیلتھ سروس: ’باقاعدگی سے علاج کروایا تو شادی کے چھ سال بعد بلآخر حاملہ ہو گئی‘

ملتان: ایک ہی ہسپتال سے آنکھ کا آپریشن کروانے والے سات افراد کی بینائی چلی گئی

لاہور کے گلاب دیوی ہسپتال کی بنیاد رکھنے والے لالہ لجپت رائے کون تھے؟

پیراپلیجیک سینٹر

خواتین مریضوں کی مشکل کیوں زیادہ ہوتی ہے؟

اس سینٹر میں علاج کے لیے آنے والے کئی مریضوں خصوصاً خواتین کی دردناک کہانیاں بھی ہیں جنھیں علاج کی طوالت کے باعث ان کے شوہر چھوڑ دیتے ہیں۔

ایسے مریضوں کے دل اور روح پر لگنے والے زخموں کا بھی علاج کرنا پڑتا ہے اور یہاں کا سٹاف اور رضاکار ایسی عورتوں کا خصوصی خیال رکھتے ہیں۔

سید محمد الیاس کا کہنا تھا کہ اس مرکز میں علاج کے بعد مریض خصوصاً خواتین جب واپس گھروں کو جاتی ہیں تو ان کو کوئی نہ کوئی ہنر بھی سکھایا جا چکا ہوتا ہے تاکہ وہ کسی پر بوجھ نہ بنیں۔

سید محمد الیاس نے بتایا کہ پیراپلیجیک سینٹر میں 80 فیصد گریجویٹس (بحال شدہ مریض) اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنی پرانی نوکریوں پر واپس جا سکیں یا اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔

’ہم اپنے گریجویٹس کو زندگی کے لیے درکار آلات اور ان کی ضرورت کے مطابق بننے والی وہیل چیئر بھی خود بنا کر دیتے ہیں۔ اب تو اس مرکز کی مہارت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ہم نے ایک چھوٹی سی فیکٹری بھی بنالی ہے، جہاں پر ہم دیگر مراکز صحت اور مریضوں کے لیے آرڈر پر وہیل چیئر اور دیگر ضروری امدادی آلات بنا کر دیتے ہیں۔‘

پیراپلیجیک سینٹر

کھیلوں میں ریکارڈ

چار سال سے ٹیبل ٹینس کی قومی چیمپیئن زینب برکت بھی اسی سینٹر میں کام کرتی ہیں۔ وہ بچپن میں پولیو کا شکار ہونے کے بعد دونوں ٹانگوں سے معذور ہو گئی تھیں۔

وہ کہتی ہیں بچپن میں ان کے بھائی انھیں گود میں لے کر سکول جاتے تھے اور سارا دن سکول میں ان کے ساتھ رہتے تھے اور اس طرح وہ آٹھویں تک تعلیم حاصل کر سکی لیکن پیراپلیجیک سینٹر میں علاج کے بعد اب وہ بی اے تک تعلیم حاصل کر چکی ہیں اور کسی پر بوجھ نہیں۔

زینب برکت کے ٹرینر اور استاد الطاف الرحمن اب ان کے شوہر ہیں اور دونوں ایک ساتھ اس سینٹر میں آتے ہیں۔

الطاف الرحمن جو خود وہیل چیئر پلیئر ہیں، نے حال ہی میں اسلامک گیمز میں پاکستان کے لیے کانسی کا میڈل جیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments