احمد جاوید کا ناول جینی


کارل مارکس۔ اک نابغہ کہ جس نے اپنی فکر و فلسفہ سے اک عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ کہیں ہدف ملامت ٹھہرائے گئے تو کہیں مسیحا قرار دیے گئے۔ اقبال انہیں مسیح بے صلیب اور کلیم بے تجلی قرار دیتے ہیں تو بعضوں کا مذہب ان کا محض نام لینے سے بھرشٹ ہوتا ہے۔ تاہم ہر دو صورتوں میں ان کے افکار کی اہمیت مسلمہ ہے کہ جس سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نظریات و افکار پر قریباً دو صدیوں سے مباحثہ جاری ہے۔

اس معاشرہ میں کہ جہاں یونیورسٹی کی سطح پر بھی محض کارل سے ہمدردی کا شبہ آپ کے لئے مسائل کھڑے کر سکتا ہے، احمد جاوید کے ناول ”جینی“ کا تخلیق پا جانا بذات خود ایک کارنامہ ہے۔ چونکہ کارل مارکس انتہائی قدآور شخصیت ہیں اس لئے یہ ناول انتہائی احتیاط اور گہری تحقیق کا متقاضی تھا۔ اس ناول میں کارل اور ان کی وفا شعار بیوی اور محبوبہ جینی کی نجی زندگی کا بیان ہے۔ یہ کوئی کار سہل نہ تھا۔ اس عہد کے یورپ کو معروضی حالات اور تاریخ و ادب کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہوں نے تخیل کے زور سے زندہ جاوید کر دیا۔

اس میں جینی و کارل کے روز و شب کا فسانہ بھی ہے اور ان کی جدوجہد کی کہانی بھی، ان کے جذبات کا مذکور ہے تو یورپ میں پھیلنے والی بے چینی اور مختلف تحاریک کا بیان بھی۔ یہ ایک داستان جہد مسلسل تو ہے مگر اس سے ناول کی روانی پر کوئی اثر نہیں پڑتا نہ ہی بوجھل پن کا احساس ہوتا ہے۔ ان کا مطمح نظر محض کارل اور جینی کی نجی زندگی اور پیش آمدہ حالات و واقعات کا ذکر ہے۔ اس کٹھن راہ پر چلتے ہوئے کارل نے کس طرح ان تھک محنت سے، خوشیاں تج کر کے اور ذات سے بالاتر ہو کر عظیم تر مقصد کے لئے قربانی دی اور اس میں ان کی وفا شعار بیوی نے بھی کس طرح ان کا ساتھ نبھایا۔

کارل اگر اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے تو یقیناً ایک شاندار زندگی بانہیں پھیلا کر ان کا استقبال کرتی مگر انہوں نے بوسیدہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ وہ اس سفر میں اکیلے نہیں تھے بلکہ ناز و نعم میں پلی ان کی وفا شعار بیوی جینی بھی ان کی ہمراہ تھی۔ جینی جو جرمنی کی اشرافیہ سے تھیں اور ان کے سوتیلے بھائی اس وقت جرمنی کے وزیر داخلہ تھے انھوں نے سب لذائذ دنیا کو ٹھوکر ماری اور ان کے شانہ بشانہ چلیں اور حقیقی معنوں میں شریک حیات ہونے کا مفہوم ادا کیا۔

اس سب کے ساتھ ساتھ یورپ کی روایات و اقدار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ بندوق پر قلم کی فتح کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے کارل کو اساطیری کردار سے گوشت پوست کے انسان میں ڈھالا ہے۔ ایک انسان جس کے جذبات بھی ہیں اور کجی و کوتاہی بھی۔ اس اولوالعزم جوڑے نے کٹھن سفر زیست میں اولاد کے دکھ سہے تو غریب الوطنی کی تکالیف بھی برداشت کیں۔ اس سفر میں جینی نے کیا قربانی دی۔ اقتباس ملاحظہ کریں

شادی کے بعد سے اس کا اب تک کیا کچھ نہیں لٹا تھا۔ گھر چھوٹا، وطن چھوٹا، خوشحالی گئی، چار بچے ایک ایک کر کے دنیا سے منہ موڑ گئے، بس ایک ظاہری شخصیت تھی وہ بھی چھن گئی۔

یہ ناول مستقل مزاجی اور اولوالعزمی کی داستان کے ساتھ ساتھ کارل اور جینی کا نوحہ بھی ہے کہ جو وصال کی لذت سے تو آشنا ہوئے مگر ظاہری خوشی اور آسودگی کا کوئی پل انہیں نصیب نہ ہوا۔ انتہائی نپے تلے لفظوں میں ایک شاندار کاوش ہے جو بجا طور پر تعریف کی مستحق ہے۔ میں سمجھتا ہوں ہر صاحب ذوق کو یہ ناول ضرور پڑھنا چاہیے۔

بارے کچھ مصنف کے :

احمد جاوید کافی عرصہ سے لکھ رہے تھے مگر زود نویس ہرگز نہ تھے۔ جس طرح ان کی تحریروں میں اختصار ہے ویسا ہی معاملہ ان کی تخلیقات کے ساتھ بھی ہے۔ چار افسانوی مجموعے اور ایک عدد ناول کچھ زیادہ معلوم نہیں پڑتے مگر آپ دیکھیں گے کہ انہوں نے خون دل کو نوک قلم کی زینت بنایا ہے۔ احمد جاوید کا تخلیقی سفر تقریباً اسی دور میں شروع ہوا جب صاحب نظر مصنفین پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا اور بیشتر غریب الوطنی کی مصیبتیں بھوگنے پر مجبور ہوئے۔ یہی وہ وقت تھا جب کچھ ایسے افراد لوح و قلم کے وارث بن بیٹھے جن کا من پسند مشغلہ بابوں کی تخلیق اور عام قاری کو ان بابوں کی تلاش میں دوڑا دوڑا کر ہلکان کرنا تھا۔ ایسے کٹھن وقت میں احمد جاوید نے اپنی فکر کو شہرت و منفعت پر مقدم رکھا۔ افسوس یہ حقیقی قلم کار 2017 میں داغ مفارقت دے گئے۔

حق مغفرت کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments