ملکہ الزبتھ دوم کی وفات: شہد کی مکھیوں کو ’خبر دینا‘ اور دیگر منفرد شاہی روایات

فرنینڈو ڈورتے - بی بی سی ورلڈ سروس


ملکہ برطانیہ شہد کی مکھیوں کے چھتے کا معائنہ کرتے ہوئے
ملکہ برطانیہ شہد کی مکھیوں کے چھتے کا معائنہ کرتے ہوئے

برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم کی وفات کے بعد بادشاہ چارلس سوم کی تخت نشینی نے کئی نسلوں کے بعد شاہی خاندان میں رسم و روایات کی اہمیت پر مہر ثبت کر دی ہے۔

مگر ان میں سے کچھ رسومات و روایات ان افراد کو بھی حیران کر دیں گی جو خود کو شاہی معاملات کا ماہر سمجھتے ہیں۔

درج ذیل میں ایسی ہی چند منفرد روایات کی مثالیں موجود ہیں۔

شہد کی مکھیوں کو ملکہ کی وفات کی خبر دینا

(شاہی خاندان کے سرکاری ٹؤٹر اکاؤنٹ سے جاری کردہ تصویر میں بکنگھم پیلس کی حدود میں موجود شہد کی مکھیوں کے چھتے دکھائے گئے ہیں۔)

ملکہ برطانیہ کی وفات کے بارے میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر وسیع کوریج کے باوجود چند افراد پر مشتمل ایک گروہ کو ’ذاتی حیثیت میں ملکہ کی وفات کی افسردہ خبر شاہی محل میں موجود شہد کی مکھیوں کو بتانے جانا پڑا۔‘

جان چیپل گذشتہ 15 برس سے شاہی محل میں شہد کی مکھیوں کو پال رہے ہیں۔ انھوں نے بکنگھم پیلس اور کلارنس ہاؤس (شاہ چارلس کی بطور شہزادہ ویلز سرکاری رہائشگاہ) کی حدود میں موجود شاہی خاندان کی شہد کی مکھیوں کو یہ افسردہ خبر سنا کر صدیوں پرانی اس روایت کو برقرار رکھا۔

برطانیہ کے ڈیلی میل اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں چیپل نے بتایا کہ انھوں نے شاہی محل میں موجود شہد کی مکھیوں سے یہ بھی کہا کہ وہ نئے بادشاہ کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔

یہ رسم اس توہم پرستی کا حصہ ہے جس کے مطابق یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اگر انھیں ان کے مالک کی وفات یا تبدیلی کے متعلق نہ بتایا جائے تو وہ شہد بنانا بند کر دیتی ہیں۔

شاہی محل میں شہد کی مکھیوں کو پالنے والے چیپل کا کہنا تھا کہ اس رسم کے مطابق ’شاہی خاندان میں جب کسی اہم شخص کی وفات ہو جاتی ہے اور وہ ان شہد کی مکھیوں کا مالک یا مالکن ہو تو اس بارے میں انھیں آگاہ کیا جاتا ہے۔ ملکہ سے اہم اور کون ہو سکتا ہے؟‘

’آپ شہد کی مکھی کے ہر چھتے کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مالکن وفات پا گئی ہیں لیکن آپ کہیں نہ جانا، آپ کے نئے مالک آپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے۔‘

کیا بادشاہ بھی دو بار سالگرہ منائیں گے؟

بادشاہ چارلس

بادشاہ چارلس سوم شاہی شان و شوکت سے متعلق جو اہم فیصلے کریں گے ان میں سے ایک کافی ذاتی نوعیت کا ہے اور وہ ہے ان کے جنم دن کی تقریبات کا۔

ملکہ الزبتھ دوم دو مرتبہ جنم دن کی تقریبات مناتی تھی، ایک 21 اپریل کو جب وہ پیدا ہوئی تھیں اور دوسری مرتبہ ملکہ برطانیہ اپنے جنم دن کی سرکاری تقریبات جون کے دوسرے سنیچر کے دن مناتی تھیں جس میں پریڈ ہوتی تھی اور اسے ’ٹروپنگ دی کلر’ کہا جاتا تھا۔

مگر ایسا کیوں تھا؟ کیونکہ برطانیہ میں اپریل میں عموماً موسم سرد ہوتا ہے اور کھلے میدان یا گھروں سے باہر تقریب کرنا مشکل ہوتا ہے جبکہ موسم گرما کا آغاز جون میں ہوتا ہے۔ یہ روایت کافی پرانی ہے اور اس کا آغاز سنہ 1748 میں جارج دوم کے دور میں ہوا تھا۔

انھوں نے ہی اپنے جنم دن کی تقریبات کو پہلے سے موجود پریڈ کی تقریب کے ساتھ منانے کا فیصلہ کیا تھا۔

کیا بادشاہ چارلس سوم بھی اس روایت کو برقرار رکھیں گے؟

ہمیں اس بارے میں ابھی تک علم نہیں لیکن یہاں یہ بات اہم ہے کہ نئے بادشاہ کا جنم دن نومبر میں آتا ہے اور برطانیہ میں اس ماہ کے دوران دھوپ اور گرم موسم ہونا مشکل ہے۔

شاہی مؤرخ رچرڈ فٹز ولیمز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرا خیال ہے کہ نئے بادشاہ ان روایات کو ویسے ہی رکھیں گے کیونکہ ان کا جنم دن موسم خزاں کے دوران آتا ہے اور جنم دن کی سرکاری تقریبات کے لیے ’ٹروپنگ دی کلر’ کی پریڈ ایک مقبول تقریب ہے۔’

تاہم فٹز ولیم نے جون 1953 میں ملکہ الزبتھ دوم کی تاجپوشی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک برطانوی روایت یہاں کے موسم کا غیر متوقع ہونا بھی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اس دن موسم خوفناک تھا۔ ملکائیں اور بادشاہ موسم پر اختیار نہیں رکھتے۔‘

Royal Navy sailors pulling the gun carriage with Queen Victoria's coffin during her funeral in 1901

گھوڑوں کی جگہ افرادی قوت کا استعمال

سنہ 1901کے بعد سے، برطانیہ میں شاہی جنازوں میں گن کیرج پر رکھے گئے شاہی حکمران کے تابوت کو رائل نیوی کے گارڈز کھینچتے ہیں۔ گھوڑوں کی جگہ افرادی قوت کا یہ انتخاب مبہم معلوم ہو سکتا ہے لیکن یہ ایک روایت ہے جو 1901 میں ملکہ وکٹوریہ کے جنازے کے دوران شروع ہوئی تھی.

شاہی مؤرخ کیلی سویب بتاتی ہیں کہ ’گھوڑے شدید سردی سے گھبرا گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملکہ وکٹوریہ کا تابوت زمین پر گرتے گرتے بچا۔‘

بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کے حکم پر تدفین میں شرکت کرنے والے نیوی اہلکاروں نے اس موقع پر مدد فراہم کی۔

سویب کہتی ہیں کہ ’پوری دنیا سے مہمان موجود تھے اور یہ موقع بڑی شرمندگی میں بدل سکتا تھا تاہم اس افراتفری نے ایک شاہی روایت کو جنم دیا۔‘

بادشاہ جارج ششم کی وفات پر سنہ 1952 میں، جب آخری بار ایسی تقریب ہوئی، تو 138 افراد کو یہ کام سونپا گیا۔

چھڑی توڑنے کی روایت

The late Queen Elizabeth II and former spy chief Andrew Parker during a visit to the intelligence agency
موجودہ لارڈ چیمبرلین اینڈریو پارکر

شاہی تقریبات میں شان و شوکت کی توقعات رکھنے والے لوگوں نے ایک روایت کے بارے میں نہیں سنا ہو گا۔

روایت کے مطابق لارڈ چیمبرلین جو شاہی گھرانے کے سینیئر ترین افسر ہوتے ہیں اور جن کی ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری شاہی حکمران کے ساتھ سالانہ پارلیمانی دوروں پر جانا بھی شامل ہے۔

اس روایت کے مطابق لارڈ چیمبرلین کو اپنی سفید چھڑی وفات پانے والے شاہی حکمران کی قبر پر توڑنی ہوتی ہے جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ ان کی خدمت کی مدت ختم ہو گئی۔

موجودہ لارڈ چیمبرلین اینڈریو پارکر ہیں جو برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں۔ ان کو یہ عہدہ اپریل 2021 میں ملا تھا۔

یہ روایت صدیوں پرانی ہے تاہم آخری بار ایسا اس وقت کیا گیا تھا جب 70سال پہلے ارل آف کلیرنڈون نے ملکہ کے والد جارج ششم کی قبر پر اپنی چھڑی کو توڑا تھا۔

رچرڈ فٹزولیمز کہتے ہیں کہ ’ایسی روایات برطانوی شاہی خاندان کو ایک منفرد کشش بخشتی ہیں۔‘

’ان روایات کی ہی بدولت برطانوی شاہی خاندان ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments