بہ مشکل، ”اسلام خطرے میں ہے“ اور ”پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے“ جیسی دہائیاں کم ہوئیں تو گاہے بہ گاہے بجلی کی پیداوار یا آبی ذخائر کے لیے اور پاکستان اور خاص طور پر صوبۂ سندھ میں ‏ موجودہ شدید برساتوں اور سیلاب کے بعد اس قسم کی آفات سے بچنے کے لیے ڈیم اور خاص طور پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر ضروری قرار دیے جانے کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ جس کا صوبہ سندھ سب سے بڑا مخالف ہے۔

کالا باغ ڈیم کی سندھ مخالفت پر ایک صاحب ”انجر گل خٹک“ ہم سب میں اپنے بلاگ بہ عنوان ”کالا باغ ڈیم اور بجلی نکلنے کے بعد مرا ہوا پانی“ میں رقم طراز ہیں کہ، ”میں سندھ کے مختلف علاقوں میں کام کے سلسلے میں رہا ہوں اور وہاں کے عام لوگوں سے اس (کالا باغ ڈیم) پہ ایسے ایسے لطیفے سنے ہیں کہ ان (سندھیوں ) کی سادگی پہ ترس آتا ہے۔ وہاں عام لوگوں میں دو قسم کی رائے پائی جاتی ہے۔ ایک یہ کہ اگر کالا باغ ڈیم بنے گا تو پنجاب ڈیم کے پانی سے ساری بجلی نکال لے گا اور مرا ہوا پانی سندھ کو دے دے گا۔ جس میں سے ساری طاقت نکل چکی ہو گی تو وہ فصلوں کو کیا فائدہ دے گا۔“

مندرجہ بالا اقتباس کے بعد ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم کوئی آبی ماہر نہیں ہیں اور ہماری تعلیم بھی واجبی سی ہے تاہم ہم اردو لکھ پڑھ بول لیتے ہیں، علاوہ ازیں سندھی بھی کہ ہماری مادری زبان ہے۔ جب کہ انگریزی بھی گزارہ ہے۔ اور کسی بھی اردو اور انگریزی جاننے والے کی بہ نسبت ایک اضافی زبان جاننے کے باعث دعویٰ کر سکتے ہیں کہ تین مختلف زبانوں میں مطالعہ کے سبب کالا باغ ڈیم کے بارے میں حقائق اور سندھ اور سندھیوں کے موقف سے کئی بوجھ بجھکڑوں سے کہیں زیادہ واقف ہیں۔

لیکن یہاں صرف وکی پیڈیا کی معلومات کا احاطہ کرتے ہیں کہ وکی پیڈیا اردو کے مطابق: کالاباغ ڈیم وفاقی حکومت کا آبی ذخائر و بجلی کی پیداوار و زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کا ایک بڑا متنازع منصوبہ تھا۔ سیاسی و علاقائی تنازعات کے علاوہ عالمی قانون برائے تقسیم آب کے مطابق کسی بھی دریا کے آخری حصہ پر موجود فریق کا یہ نہ صرف قانونی بلکہ فطری حق ہے کہ پانی کی ترسیل اس تک ممکن رہے۔ اسی وجہ سے دریائے سندھ کے آخری حصہ پر موجود فریق یعنی صوبہ سندھ کی مرضی کے بغیر اس منصوبہ کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔

خیال ہے کہ، نہ صرف پنجاب کی بڑھتی آبی ضروریات کو کالا باغ ڈیم پورا کر سکتا ہے بلکہ یہ پورے ملک کے لیے سستی بجلی کا ایک مستقل ذریعہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ پنجاب میں ایک عام رائے یہ ہے کہ بحیرہ عرب میں دریائے سندھ کا شامل ہونا دراصل پانی کے ذخیرے کا ”ضائع“ ہو جانا ہے۔ یہ پانی ملک میں ان زمینوں کو سیراب کر سکتا ہے جو پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بنجر ہیں۔

ہم اس رائے کو خام اس لیے سمجھتے ہیں کہ، ”درحقیقت سمندر میں پانی کا شامل ہونا سمندر کے خشکی کو نگلنے سے روکنے کے لیے ازبس ضروری ہے۔ سندھ کے ساحلی علاقہ میں دریائے سندھ کا بہنا لازم ہے تاکہ یہ دریا سمندری پانی کو ساحل کی طرف بڑھنے سے روک سکے۔ اگر دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہوتی ہے تو یہ سندھ کے ساحل اور اس پر موجود جنگلات اور زرعی زمینوں کو صحرا میں تبدیل کر دے گا۔ یہ نہ صرف ماحول کے لیے خطرناک ہے بلکہ یہ عالمی ماحولیاتی حوالے سے بھی انتہائی غلط بھی ہے۔ جس کے اثرات سندھ کے ڈیلٹا اور ساحلی علاقوں پر نظر بھی آ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ تربیلا اور منگلا ڈیموں کی تعمیر کے بعد سندھ میں پانی کی کمی واقع ہوئی ہے جس کا ثبوت کوٹری بیراج اور حیدر آباد میں دریائے سندھ کی موجودہ حالت کا ماضی سے موازنہ کر کے لگایا جا سکتا ہے۔ سندھ کو خدشہ ہے کہ دریائے سندھ پر ایک اور ڈیم کی تعمیر کے نتائج صوبے میں انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق کالا باغ ڈیم زلزلوں کے لحاظ سے انتہائی خطرناک جگہ پر واقع ہو گا جس کے قریب انتہائی خطرناک فالٹ لائنیں موجود ہیں اور یہیں زیر زمین دراڑیں ذخیرہ کیے گئے پانی کو سمو لیں گی اور بہتے ہوئے دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ کم ہو جائے گا جو کسی صورت میں بھی کسی فریق کے لیے سودمند نہیں ہے۔

دریائے سندھ پر تعمیر کیے جانے والے سابقہ ڈیم پہلے سے ہی کئی ماحولیاتی مسائل کا سبب بن رہے ہیں، جن کو ابھی تک وفاقی و صوبائی سطح پر زیر بحث نہیں لایا گیا ہے۔ کالا باغ بند میں جمع ہونے والی ریت کا مسئلہ ماحولیاتی مسائل میں نہ صرف اضافہ کرے گا بلکہ یوں منچھر اور ہالیجی جھیل میں پانی کی عدم دستیابی اور آبی حیات کو انتہائی خطرات درپیش ہوں گے۔

سندھ یہ سمجھتا ہے کہ 1991 ء میں ہونے والے دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے معاہدے جس کی تصدیق آئینی کمیٹی نے کی تھی، اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

اہم بات یہ کہ سندھ میں نہ صرف رائے عامہ بلکہ صوبے کی دو بڑی پارٹیاں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ بھی ہر قسم کے اختلافات کے باوجود کالا باغ ڈیم کی عدم تعمیر پر متفق ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا کو اگرچہ پانی کے سلسلے میں تو کوئی شکایت نہیں تاہم کالا باغ ڈیم کا ذخیرہ صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع ہو گا، لیکن بجلی پیدا کرنے والے ٹربائن اور تعمیرات صوبائی سرحد کے باہر صوبہ پنجاب میں واقع ہوں گی۔ صوبہ پنجاب وفاق سے پیدا ہونے والی بجلی پر رائلٹی کا حقدار تصور ہو گا۔ اسی اعتراض کو رفع کرنے کے لیے دراصل صوبہ پنجاب نے وفاقی رائلٹی سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ صوبہ خیبر پختونخوا نے بہرحال اس امر کا اظہار کیا ہے کہ صوبہ سرحد کو وفاقی رائلٹی میں حصہ نہ ملنا دراصل زیادتی ہو گی کیونکہ پانی کا ذخیرہ صوبہ سرحد کی زمین پر واقع ہے علاوہ ازیں ضلع نوشہرہ کا بڑا حصہ اور اس کے مضافاتی علاقہ پہلے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے دوران زیر آب آئے گا اور بعد میں ریت کے جمع ہونے سے ایک بڑا علاقہ بنجر ہو جائے گا۔

ایسے ہی حالات تربیلا بند کی تعمیر کے بعد ضلع صوابی اور ضلع ہری پور میں دیکھنے کو ملے تھے۔ اس کے علاوہ جب کالا باغ بند کی تعمیر مکمل ہو جائے گی تو اس میں پانی ذخیرہ کرنے کے بعد شہروں سے پانی کی سطح تقریباً 200 میٹر بلند ہو جائے گی۔ یہ ہمہ وقت سیلابوں اور شہری علاقوں کے زیر آب آنے کا خطرہ ہے جو صوبہ خیبر پختونخوا میں انتظامی، وسائلی اور معاشی مسائل کھڑا کر سکتا ہے۔ جو مسائل اگرچہ بڑے پیمانے پر پانی کی نہریں اور ٹیوب ویل کھود کر حل کیے جا سکتے ہیں جن کا کالا باغ ڈیم کے تعمیری منصوبہ میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔

بظاہر صوبہ بلوچستان کالا باغ بند کی تعمیر سے متاثر نہیں ہوتا مگر کئی قوم پرست سردار اس منصوبہ کی تعمیر کو صوبہ پنجاب کی چھوٹے صوبوں سے کی گئی ایک اور زیادتی تصور کرتے ہیں۔ جب کہ حقیقت میں کالا باغ بند کی تعمیر سے صوبہ بلوچستان کو کچھی نہر (کچھی کینال) کی مدد سے اپنے حصے کے پانی کے علاوہ اضافی پانی بھی دستیاب ہو سکے گا۔

اگرچہ عوام و خواص اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو قلت آب کا سامنا اور اس کے مستقل حل کی ضرورت بھی تاہم سیاسی اور آبپاشی ماہرین و تجزیہ کار کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے سمجھتے ہیں کہ یہ منصوبہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں اختلافات کا باعث بنے گا۔ جب کہ کالا باغ منصوبہ پر آج سے ہی کام شروع کر بھی دیا جائے تب بھی اسے مکمل اور فعال ہونے میں کم از کم آٹھ سال کا عرصہ درکار ہے، تب تک پانی کی دستیابی بارے حالات اور بھی خراب ہو چکے ہوں گے۔

تجزیہ کار اور تکنیکی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اتنے بڑے منصوبے پر عمل درآمد کی بجائے کئی چھوٹے بند، بیراج اور نہریں تعمیر کی جانی چاہیے۔ اس سے نہ صرف دوسرے صوبوں کے تحفظات بھی دور ہوں گے بلکہ یہ آبی، ماحولیاتی اور زرعی وسائل کو محفوظ بنانے کے لیے بہترین طریقہ بھی ہے، جس کی واضح مثال پنجاب اور سندھ میں نہری نظام کی شکل میں موجود ہے۔

واپڈا جو کہ کالا باغ ڈیم کا سب سے بڑا حامی اور حلیف ہے، اور پاکستان میں بجلی اور توانائی کا وفاقی ادارہ ہے کئی سالوں سے کالا باغ ڈیم کے بارے شماریاتی اعداد و شمار میں تبدیلیاں کرتا آیا ہے تاہم اس ادارے کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار پر پاکستان کے کسی حصے میں کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حکومت پاکستان نے اس ضمن میں ایک تکنیکی کمیٹی اے۔ این۔ جی عباسی کی سربراہی میں تشکیل دی۔ اس کمیٹی کا مقصد کالا باغ بند کے منصوبے کے تکنیکی فوائد و نقصانات کا جائزہ لینا تھا۔

اس کمیٹی نے چار جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ میں واضح طور پر رائے دی کہ بھاشا ڈیم اور کٹزرہ ڈیم کی تعمیر پانی کے ذخائر بارے حالات خراب ہونے سے پہلے تعمیر کیے جانے چاہیے اور کالا باغ منصوبہ ملکی مفاد میں فی الحال پس پشت ڈال دینا مفید ہو گا۔ اس رپورٹ کی روشنی میں کالا باغ بند اور بھاشا بند دراصل انتہائی موزوں منصوبہ جات ہیں اور ان کی تعمیر مکمل کی جانی چاہیے۔ رپورٹ کے اس حصے پر کئی گمبھیر عوامی و سیاسی مسائل کے کھڑے ہونے کا قوی امکان ہے۔ جب کے مخالفین اس کو ”موت دکھا کر بیماری پر راضی“ رہنے کے مترادف گردان رہے ہیں۔

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی اس بات کی متقاضی ہے کہ اب اس معاملے پر صرف صاحبان معاملات ماہرین کو بولنا چاہیے نہ کہ کوئی بھی بندہ بشر جو جی میں آئے فرما دے کہ:

”مستند ہے میرا فرمایا ہوا“

اس وقت حالت یہ کہ وہ صاحبان جنہوں نے کبھی کتابوں کو تو کجا اخبار تک کو بھی کبھی منہ نہیں لگایا وہ بھی فرماتے ہیں کہ ”اگر کالا باغ ڈیم بنا ہوا ہوتا تو سیلاب نہ آتا۔“

کوئی اور صاحب ماوے یا پھر گٹکے کے بھپکے کے ساتھ (کہ ہمیں ان کا فرق پتہ نہیں ) فرما رہے تھے کہ ”ڈیم کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔“

جب کہ ماہرین آبپاشی اس سلسلے میں کچھ بھی فرمانے سے یا تو گریزاں ہے یا پھر اشارے کے منتظر ہیں؟

با اثر سرکاری افراد و اداروں کی طرف سے کسی متنازع منصوبے کی حمایت میں بیان بازی یا اس کی تکمیل کے لیے چندہ کرنا ایک ناخوشگوار عمل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے عوام الناس میں موجود اختلافات اور اداروں و افراد پر شکوک و شکایات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

غیرمتعلقہ افراد وا داروں و اشخاص کے تبصرے سن کر ہمیں ایک پرانا سا لطیفہ یاد آ گیا ہے کہ؛ ایک صاحب ذہنی توازن کھو بیٹھے اور ہر وقت غلیل بنا کر چڑیاں مارنے کی باتیں کرنے لگے۔ لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ وہ ایسی ضد سے باز آ جائیں لیکن وہ مصر ہی رہے۔

آخرکار رشتہ داروں نے انہیں ذہنی علاج کے ادارے میں داخل کرا یا جہاں کچھ عرصے کے علاج کے بعد ڈاکٹروں نے ان سے پوچھا کہ، ”اب آپ ٹھیک ہو گئے ہو۔ اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟“

انہوں نے کان کھجا کر کہا، ”یہاں سے نکلنے کے بعد میں کوئی اچھی سی نوکری کروں گا۔ گھر بناؤں گا۔ گاڑی لوں گا اور والدین سے کہ کر کسی اچھی سی لڑکی۔“

”بس بس۔“ ڈاکٹر صاحب نے ان کے لائحہ عمل کی طوالت سے گھبرا کر کہا، ”اب تم بالکل ٹھیک ہو گئے ہو اور گھر جا سکتے ہو۔“

بعد ازاں والدین اس نوجوان کو بمع صحت کے سرٹیفیکیٹ کے گھر لے آئے اور اب ان سے والد صاحب نے پوچھا: ”کہو میاں صاحبزادے اب بھی غلیل بنا کر چڑیاں مارو گے؟“

”نہیں قبلہ والد صاحب!“ نوجوان گویا ہوا، ”اب تو بس یہی ارادہ ہے کہ کوئی اچھی سی نوکری کروں گا۔ گھر بناؤں گا۔ گاڑی لوں گا اور آپ لوگوں کی دعاؤں سے کسی اچھی لڑکی سے شادی کروں گا اور جب خدا تعالیٰ مجھے اولاد سے نوازے گا تو میری بیوی میرے بچے کی چڈھیاں بنائے گی تو میں ان میں سے الاسٹک نکال کر اس سے غلیل بناؤں گا اور پھر چڑیاں ماروں گا۔“