ملکہ الزبتھ دوم: ماؤنٹ ایورسٹ کو پہلی بار سر کرنے کی خبر، جسے ملکہ کی تاجپوشی تک خفیہ رکھا گیا

شبھ جیوتی گھوش - بی بی سی بنگالی


ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کے لیے مشن کا آغاز سنہ 1922 میں ہوا تھا یعنی ٹھیک سو برس قبل لیکن دنیا کی سب سے اونچی چوٹی کو سر کرنے میں تقریباً 31 برس لگ گئے۔

تاہم 29 مئی 1953 کو نیوزی لینڈ کے شہری ایڈمنڈ ہیلری اور نیپال کے شیرپا تینزنگ نورگے کی ایورسٹ کو سر کرنے کی خبر باقی دنیا کو جس طرح ملی وہ بھی تاریخی اعتبار سے کوئی کم دلچسپ داستان نہیں۔

سب سے زیادہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی خبر کو پورے پانچ دن تک بے حد خفیہ رکھا گیا تاکہ لندن میں ملکہ الزبتھ دوم کی تاجپوشی کی صبح اس خوشخبری کا اعلان کیا جائے۔

آج کے دور میں شاید اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس دور میں بھی ایسا کر پانا آسان نہیں تھا۔ اس وقت ’دا ٹائمز‘ اخبار کے ایڈیٹر جیمز مورس کو اس خبر کو چھپائے رکھنے کے لیے بڑے جتن کرنے پڑے۔

ملکہ کے لیے خاص تحفہ

مورس کا انتخاب ایورسٹ مشن کو کور کرنے کے لیے ’سرکاری نامہ نگار‘ کے طور پر کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت کی جانب سے اس مشن کے لیے مالی مدد دی گئی تھی اور اسی وجہ سے یہ ایک مکمل برطانوی ’ایورسٹ ایکسپیڈیشن مشن‘ تھا۔

جیمز مورس نے اس بارے میں بعد میں ’کورونیشن ایورسٹ‘ نامی کتاب بھی لکھی۔ اس کتاب میں انھوں نے اس واقعے کا تفصیل سے ذکر کیا۔

تینزنگ نورگے کے بیٹے جاملنگ تینزنگ خود بھی ایک کوہ پیما ہیں اور ایورسٹ سر کر چکے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس پورے معاملے کو مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا تھا۔ برطانیہ چاہتا تھا کہ ملکہ کی تاج پوشی سے قبل ہی ایورسٹ پر برطانوی جھنڈا لہرا دیا جائے۔ یوں کہیں کہ تاج پوشی کے روز یہ خبر ملنا ملکہ کے لیے ایک شاندار تحفہ تھا۔‘

حالانکہ تینزنگ کے والد کی خواہش تھی کہ ایورسٹ پر محض برطانیہ ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ، نیپال اور انڈیا کے پرچم بھی لہرائے جائیں۔

خبر بھیجنے کی جلدی

ایورسٹ مشن کی خبر بھیجنے کے لیے صرف جیمز مورس ہی نہیں بلکہ دو دیگر سینیئر صحافی بھی علاقے میں گھوم رہے تھے۔

کوہ پیمائی کے تاریخ دان مارک ہاریل کے بقول ’حالانکہ صرف جیمز مورس کو ہی اس خبر کو کور کرنے کا معاہدہ دیا گیا تھا لیکن ان کے علاوہ ’دا ڈیلی میل‘ کے رالف ایجارڈ اور روئٹرز کے پیٹر جیکسن بھی اس وقت کیمپ لگا کر وہی ڈٹے ہوئے تھے۔‘

وہ لوگ بھی گائیڈ ساتھ لے کر ادھر ادھر گھوم رہے تھے اور معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ مشن میں کس حد تک کامیابی حاصل ہو سکی۔

کسی مشن کے کامیاب یا ناکام ہونے کی صورت میں ایورسٹ کے بیس کیمپ سے ہی اس خبر کو ’رنر‘ کے زریعے نیجے نامچے بازار نامی پہاڑی گاؤں تک بھیجا جاتا تھا۔ اس کے نزدیک ہی ٹیلی گراف بھیجنے کے لیے ایک دفتر تھا۔

سابق پولیس اہلکار تیواری اس وقت ٹیلی گراف کے دفتر میں ٹیلیفون آپریٹر کا کام کرتے تھے لیکن کوئی خفیہ خبر بھیجنے کی صورت میں اس بات کا خدشہ تھا کہ تیواری کے ذریعے یہ بات کسی اور کو پتا نہ چل جائے۔

اسی لیے جیمز مورس نے طے کیا تھا کہ وہ ایورسٹ سر کرنے کی خبر اشاروں پر مبنی ایک خفیہ کوڈ کے ذریعے کٹھمنڈو سے لندن بھیجیں گے۔ اس خفیہ کوڈ کے بارے میں جیمز مورس کے علاوہ صرف کٹھمنڈو میں مقیم ’دا ٹائمز‘ کے ایک دیگر صحافی آرتھر ہچنسن کو علم تھا۔ ہچنسن پر ہی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ خبر کو کٹھمنڈو سے لندن بھیجیں گے۔

خفیہ الفاظ

اشاروں میں جو خبر پہنچائی گئی تھی وہ کسی پہیلی کی طرح تھی۔ یہ طے پایا تھا کہ ایڈمنڈ ہیلری کے بجائے ’ایڈوانسڈ بیس ابینڈنڈ‘ (Advanced Based Abundant) اور تینزنگ نورگے کے بجائے ’اویٹنگ امپروومنٹ‘ (Awaiting Improvement) کہا جائے گا۔

اس سے ایسا لگتا تھا جیسے موسم بہتر ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح مختلف الفاظ تھے جن کی مدد سے اشاروں میں پیغام پہنچائے جانے تھے۔

ادھر لندن میں ٹائمز کی ایڈیٹر سے بھی کہہ دیا گیا تھا کہ اس کوڈ کا استعمال صرف ایورسٹ سر ہونے کی صورت میں ہی کیا جائے گا۔ باقی خبریں جیمز عام الفاظ میں ہی بھیجیں گے۔

یہی وجہ تھی کہ ہیلری اور تینزنگ کا ایورسٹ مشن مکمل ہونے کے اگلے روز بیس کیمپ میں بیٹھے جیمز مورس نے اپنے ٹائپ راٹر پر کچھ ایسا پیغام ٹائپ کیا تھا۔۔۔

’سنو کنڈیشنز بیڈ سٹاپ ایڈوانسڈ بیس ابینڈنڈ یسٹرڈے سٹاپ اویٹنگ امپروومنٹ آل ویل‘ (Snow Conditions Bad Stop Advanced Bass Abandoned Yesterday Stop A Waiting Improvement All Well)

ایک بار میں پڑھ کر اس لائن سے ایسا تاثر ملتا ہے جیسے مشن روک دیا گیا ہو لیکن اس کے اصل معنی تھے کہ ’گزشتہ روز ایڈمنڈ ہیلری اور تینزنگ نورگے نے ایورسٹ سر کر لیا ہے۔ سب ٹھیک چل رہا ہے۔‘

یہ پیغام لے کر ایک ’رنر‘ نامچے بازار کی جانب دوڑ پڑا۔ یہ پیغام تیواری نے اپنے ریڈیو کے ذریعے کٹھمنڈو میں مقیم آرتھر ہچنسن کو بھیج دیا اور اسی دوپہر ہچنسن نے یہ پیغام ٹائمز کے لندن کے دفتر تک پہنچا دیا۔

اگلے روز جیمز مورس کی نامچے بازار میں روئٹرز کے صحافی پیٹر جیکسن سے اچانک ملاقات ہوئی۔ مورس نے انھیں یہ تاثر دیا کہ جیسے ایورسٹ مشن ناکام ہو گیا ہو۔

اعلانکس طرح ہوا

2 جون کی صبح ’دا ٹائمز‘ کی سرخی تھی کہ ’ایوریسٹ کو سر کر لیا گیا، ہیلری اور تینزنگ چوٹی پر پہنچ گئے۔‘

اس کے ٹھیک برابر میں ملکہ کی تاج پوشی کی خبر بھی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ تاج پوشی کے لیے ملکہ جس راستے سے گزر کر گئیں وہاں کس طرح ہزاروں لوگوں نے رات سڑکوں پر گزاری۔

جیمز مورس اس روز نامچے بازار سے جنوب کی جانب قریب چھ میل نیچے اتر آئے تھے۔ دریائے دودھکوشی کے کنارے اپنے خیمے میں انھوں نے بی بی سی پر نشر خبروں میں سنا کہ آخر کار ماؤنٹ ایورسٹ سر کر لیا گیا ہے اور تاج پوشی سے ٹھیک پہلے ملکہ کو بھی یہ خبر دے دی گئی ہے۔

خبر سنانے والے نامہ نگار نے یہ بھی کہا تھا کہ ٹائمز کو ہی سب سے پہلے ایورسٹ سر ہونے کی خبر موصول ہوئی تھی۔ اس خبر کو سننے کے بعد جیمز کے چہرے اور آنکھوں میں سکون سا چھا گیا۔

برطانوی میڈیا میں بھی اس بارے میں عام رائے یہ تھی اس خبر سے ملکہ کی تاج پوشی کے لمحے کو مزید چار چاند لگ گئے۔ یہ بھی لکھا گیا کہ چار پانچ روز تک اس خبر کو چھپائے رکھنا کارگر ثابت ہوا۔

یہ بھی پڑھیے:

کیا ماؤنٹ ایورسٹ ہمیشہ دنیا کی بلند ترین چوٹی رہے گی؟

نیپال کی حکومت ماؤنٹ ایورسٹ بیس کیمپ کو منتقل کیوں کرنا چاہتی ہے؟

ایورسٹ سر کرنے والی پہلی خاتون جنکو تابئی کا پہاڑوں سے معاشقہ کبھی ختم نہیں ہوا

اس داستان کے کردار آج کہاں ہیں؟

اس کہانی میں شامل جن لوگوں کا ذکر ابھی تک کیا گیا وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔

صحافی جیمز مورس ٹرانس جینڈر تھے۔ بعد میں انھوں نے آپریشن کے ذریعے اپنی جنس کو تبدیل کرایا اور خاتون بن گئے۔ انھوں نے اپنا نام جین مورس رکھ لیا تھا۔

وہ سیاحت کے بارے میں بھی ایک مقبول مصنف کے طور پر جانے گئے۔ نومبر سنہ 2020 میں 94 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیے:

وہ لمحات جب ہمیں ملکہ الزبتھ کی حسِ مزاح دیکھنے کو ملی

شہد کی مکھیوں کو ملکہ کی وفات کی خبر دینے اور چھڑی توڑنے سمیت منفرد شاہی روایات

ملکہ برطانیہ کے ملبوسات تیار کرنے والی خاتون کا خواب کیسے حقیقت بن گیا

ایڈمنڈ ہیلری سنہ 2008 میں 88 برس کی عمر میں نیوزی لینڈ میں وفات پا گئے۔

عمر بھر ان کے دوست رہنے والے تینزنگ نورگے بعد میں انڈیا کے شمالی شہر ڈارجیلنگ میں رہنے لگے۔ 9 مئی 1968 کو 72 برس کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔

تینزنگ کے بیٹے جاملنگ تینزنگ خود بھی ایک کوہ پیما ہیں اور ایوریسٹ سر کر چکے ہیں۔

تینزنگ نورگے کے بیٹے سے ملکہ کی ملاقات

29 مئی 2013 کو ’ایوریسٹ ڈے‘ کے موقع پر ملکہ الزبتھ دوم سے جاملنگ کی ملاقات ہوئی۔

برطانیہ کی رائل جیوگرافیکل سوسائٹی نے اس برس 29 مئی کو ایورسٹ سر ہونے کے 60 برس مکمل ہونے کے موقع پر لندن میں ایک بہت بڑے پروگرام کا انعقاد کیا۔

اس میں دنیا بھر کے تمام مشہور کوہ پیما شامل ہوئے تھے۔

ملکہ الزبتھ دوم اس پروگرام کی مہمان خصوصی تھیں۔ اس پروگرام میں تینزنگ نورگے کے بیٹے نے بھی شرکت کی تھی۔

جاملنگ نورگے نے ملکہ کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ بے حد شائستہ تھیں۔ بات چیت کے دوران انھوں نے میرے والد کا ذکر کیا۔‘

اور جن ملکہ کی تاج پوشی کے لمحے کو یادگار بنانے کے لیے اتنی جدوجہد کی گئی، انھوں نے 96 برس کی عمر میں گزشتہ دنوں سکاٹ لینڈ کے بیلمورل پیلیس میں اپنی آخری سانسیں لیں۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments