ریاست اپنے بچوں کو قاتل کا آسان ہدف کیوں بناتی ہے؟


سوات اور مالاکنڈ ایجنسی میں طالبان کو حالیہ واپسی کی اجازت کافی عرصہ قبل دی گئی تھی لیکن انھیں خفیہ کمین گاہوں میں رکھا گیا تھا۔ تاہم جولائی اور اگست کے مہینوں میں عام لوگوں کو ان کے خفیہ نقل و حمل کا علم ہو گیا تھا اور سوات سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد اپنی فیس بک وال پر سوات میں ”طالبان ڈرامہ قسط نمبر 2“ کی پوسٹیں بھی لگا رہے تھے۔ جب چھ اگست کو ضلع دیر میں تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی ملک لیاقت علی خان پر نامعلوم افراد کی فائرنگ کا واقعہ رونما ہوا تو اس کے رد عمل میں اگلے روز دیر کے عوام نے ”امن جلوس“ نکالا اور اس میں یہ عزم ظاہر کیا کہ وہ اپنے علاقے میں امن چاہتے ہیں اور اسے دوبارہ بدامنی کی لپیٹ میں نہیں جانے دیں گے۔

دوسرا واقعہ سوات میں آٹھ اگست کو پیش آیا۔ مٹہ کے نواح گٹ پیوچار کے پہاڑوں میں جب طالبان نمودار ہوئے تو ان کے خلاف پولیس ایکشن کے دوران مٹہ سرکل کے ڈی ایس پی پیر سید اور دو فوجی اہل کاروں کو طالبان نے یرغمال بنا لیا۔ طالبان نے اس کی ویڈیو بھی جاری کی تھی۔ اس واقعہ کے ضمن میں مقامی میڈیا اور سوات انتظامیہ کی اطلاعات متضاد تھیں۔ اس حوالے سے سوات کی ضلعی انتظامیہ نے اصل حقائق چھپانے کی کوشش کی تھی جب کہ سوات کے ایک مقامی صحافی نے مغوی اہل کاروں میں ایک سے جب بات کی تو وہ ضلعی انتظامیہ کے موقف کے متضاد بیان دے رہا تھا۔ اس وقت جو ویڈیو سوشل میڈیا پہ جاری کی گئی تھی، اس میں صحافی اور متعلقہ طالب کی گفت گو واضح طور پر سنی جا سکتی ہے۔

ضلعی انتظامیہ نے میڈیا کو جو پریس ریلیز جاری کی تھی، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ طالبان نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی، پولیس کی طرف سے جوابی فائرنگ کے بعد وہ فرار ہو گئے۔ پولیس آپریشن کے دوران زخمی ہونے والے ڈی ایس پی کو پولیس اہل کاروں نے ہسپتال پہنچایا۔ محکمہ پولیس کی پریس ریلیز میں ڈی ایس پی اور فوجی اہل کاروں کے اغوا کا کوئی تذکرہ موجود نہیں اور نہ ہی اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مقامی جرگہ کے ذریعے طالبان نے مغویوں کو رہا کیا تھا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوات کی ضلعی انتظامیہ نے اصل واقعہ کو چھپانے کی ناکام کوشش کیوں کی؟ طالبان نے صرف ڈی ایس پی کو کیوں زخمی کیا اور ایک میجر اور دوسرے حوالدار کو اس واقعے میں خراش تک کیوں نہیں آئی اور طالبان کی طرف سے جاری کردہ ویڈیو میں فوجی اہل کار طالبان کے سوالات کے جوابات نہایت سکون سے کیوں دے رہے تھے؟ ان کے چہروں پر کوئی خوف یا پریشانی کیوں ہویدا نہ تھی؟ جب کہ ان کے قریب ہی ڈی ایس پی زخمی حالت میں زمین پر پڑے ہوئے تھے۔

اس وقت آئی ایس پی آر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ”سوشل میڈیا پہ وادیٔ سوات میں کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے مسلح ارکان کی بڑی تعداد میں موجودگی کا غلط تاثر پیدا کیا گیا ہے۔ مسلح افراد سوات اور دیر کے درمیان پہاڑوں میں پائے گئے ہیں جو چھپ کر افغانستان سے گھسے ہیں تاکہ اپنے آبائی علاقوں میں دوبارہ بس سکیں۔“ آئی ایس پی آر کے بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ”قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آس پاس کے لوگوں کے تحفظ کے لئے ضروری اقدامات کیے ہیں۔“

لیکن مقامی لوگوں نے آئی ایس پی آر کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سوات اور دیر کے پہاڑوں میں سیکڑوں طالبان موجود ہیں اور ایک مستند ذریعہ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں اس بات پر سمجھوتہ کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے وہ ارکان جن کا تعلق سوات، دیر اور مالاکنڈ ڈویژن کے دوسرے علاقوں سے ہے، انھیں وہاں واپس جانے دیا جائے اور انھیں پرامن طریقے سے دوبارہ اپنے آبائی علاقوں میں بسنے دیا جائے۔ مبینہ طور پر سوات اور دیر میں طالبان کا دوبارہ ظہور اسی سمجھوتے کا حصہ ہے۔

اس طرح کا سمجھوتہ تو بہ ظاہر بہت مثالی نظر آتا ہے لیکن اگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں کوئی خوش گوار صورت حال ظہور پذیر ہوتی نظر نہیں آتی۔ ایک تو جو لوگ ایک دفعہ اسلحہ اٹھاتے ہیں اور بے گناہ انسانوں کا قتل ان کے مطابق مذہبی طور پر ثواب کا کام بن جاتا ہے، تو وہ کسی انسان کو قتل کرنا ایک معمولی (بلکہ ثواب کا) کام سمجھتے ہیں۔ ان کے دلوں سے رحم نامی چیز رخصت ہوجاتی ہے لیکن یہاں اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2007۔08 ء میں جب سوات میں طالبان کا راج تھا تو جو مقامی لوگ اس وقت طالبان کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے، ان کے ورثاء ان کے قاتلوں کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ جب ان طالبان کو اپنے آبائی علاقوں میں پرامن طور پر دوبارہ بسنے کا موقع دیا جائے گا تو کیا وہ لوگ ان کو معاف کریں گے جن کے پیاروں کو انھوں نے سوات میں شورش کے دوران بے دردی سے قتل کیا تھا؟ اور کیا ان شدت پسندوں سے یہ توقع پھر بھی رکھی جا سکے گی کہ ان کے ذہنوں سے مذہبی شدت پسندی کا بھوت مکمل طور پر اتر سکے گا؟

سوات میں موجود طالبان نے گزشتہ دنوں امن کمیٹی کے ممبر ادریس خان کی گاڑی کو ریموٹ بم کے ذریعے اڑا دیا تھا جس میں ادریس خان سمیت پانچ افراد شہید ہو گئے تھے جن میں دو پولیس اہل کاروں کے ساتھ دو عام شہری بھی اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ بعد ازاں جائے وقوعہ کے قریب تین مزید لاشیں برآمد ہوئیں جس سے دھماکے سے جاں بہ حق ہونے والوں کی تعداد آٹھ ہو گئی۔ ٹی ٹی پی نے اس سمیت دیگر واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ امن کمیٹی کے ممبر ادریس خان گزشتہ 13 سالوں سے ہماری ہٹ لسٹ پہ تھے۔

اس واقعہ کے اگلے روز یعنی 15 ستمبر کو چار باغ میں نامعلوم افراد نے امن کمیٹی کے ایک اور ممبر محمد شیرین کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ اس کے علاوہ مٹہ سے نامعلوم افراد نے نجی موبائل کمپنی کے سات افراد کو بھی اغوا کر لیا تھا جن میں پانچ افراد کو بعد میں رہا کرا دیا گیا۔ واضح رہے کہ اغواکاروں نے مغویوں کو آزاد کرانے کے لئے 10 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ سوات کے بہت سے متمول افراد کو مسلسل بھتے کے خطوط اور زبانی پیغامات موصول ہو رہے ہیں جن میں مبینہ طور پر صوبائی حکومت کے وزراء کے علاوہ سرکاری اہل کار بھی شامل ہیں۔

سوات میں طالبان کی طرف سے پہلے واقعہ کے بعد علاقے میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اور سول سوسائٹی نے امن مارچ منعقد کیا تھا لیکن اس کے رد عمل میں سوات کی مقامی انتظامیہ نے مظاہرے اور امن مارچ میں فعال کردار ادا کرنے والے شہریوں کے خلاف مقدمات قائم کیے تھے جن کی عوامی سطح پر خاصی مذمت کی گئی تھی۔ موجودہ واقعے کے بعد بھی گزشتہ روز عام لوگوں نے احتجاج کیا اور حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو سخت پیغام دیا کہ وہ سوات میں دوبارہ بدامنی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کریں گے۔

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر مراد سعید نے بھی سوشل میڈیا پر ایک سخت پیغام جاری کیا ہے جس میں انھوں نے حکومت اور سیکیورٹی اداروں سے کچھ سوالات کیے ہیں۔ یہی سوالات جب پختون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین کرتے تھے تو پی ٹی آئی کی حکومت انھیں غدار قرار دیتی تھی اور اس مقصد کے لئے باقاعدہ چند وزراء مقرر کیے گئے تھے جو سیکیورٹی اداروں کے خلاف منظور پشتین کے تحفظات کو ملک دشمنی پر محمول کرتے تھے اور ان پر بیرون ملک فنڈنگ کے الزامات عائد کرتے تھے۔

سوات میں کئی فوجی آپریشنوں اور پندرہ لاکھ کے قریب اہل سوات کو آئی ڈی پیز بنانے کے بعد امن قائم کیا گیا تھا۔ مستقل اور پائیدار قیام امن کے لئے سوات میں ایک بڑی فوجی چھاؤنی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وادیٔ سوات پاکستان کے مختلف انٹیلی جنس اداروں کا گڑھ بن چکی ہے لیکن اس کے باوجود اگر افغانستان سے ٹی ٹی پی کے لوگ بڑی تعداد میں سوات اور دیر کے پہاڑوں اور مقامی آبادیوں میں نمودار ہوتے ہیں تو علاقے میں فوجی چھاؤنی اور انٹیلی جنس اداروں کی موجودگی کا فائدہ کیا ہے؟

کیا سوات جیسے خوب صورت اور پرفضا علاقے میں فوجی چھاؤنی علاقے کے پائیدار امن و امان کے لئے قائم کی گئی ہے یا اسے سکون و عافیت کے لئے ایک عسکری ریزورٹ کے طور پر منتخب کیا گیا ہے؟ کیوں کہ تحصیل کبل کے وسیع اور انتہائی خوب صورت گالف کورس سمیت ملم جبہ اور کالام میں سب زیادہ خوب صورت مقامات پر فوج نے قبضہ جما لیا ہے۔ اگر چھاؤنی کی موجودگی کے باوجود ٹی ٹی پی کے اہل کار اتنی آسانی سے علاقے میں گھس آتے ہیں اور مذموم کارروائیاں کر کے آسانی کے ساتھ روپوش بھی ہو جاتے ہیں تو فوجی چھاؤنی کی موجودگی پر ضرور سوالات اٹھیں گے۔

عام لوگ پہلے بھی یہی خیال کرتے تھے کہ سوات میں طالبانائزیشن کی تخم ریزی ریاستی اداروں نے اپنے مخصوص قومی اور بین الاقوامی مقاصد کے تحت کی تھی اور اب بھی اگر سوات میں طالبان کو محفوظ راستے دیے جا رہے ہیں تو اس کی پشت پر دوبارہ وہی مقاصد اور مخصوص دفاعی ضروریات کارفرما ہیں۔ عمران خان بھی اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ ”اس کے پیچھے کوئی گیم چل رہا ہے، اس کے پیچھے کوئی فتنہ ہے۔“ لیکن اس بار اہل سوات اس گیم کو کام یاب نہیں ہونے دیں گے۔ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوچکے ہیں اور انھوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ طالبان ڈرامے کا دوسرا فیز پنپنے نہیں دیں گے۔ اس سلسلے میں وہ احتجاج پر احتجاج کر رہے ہیں اور ہر احتجاج میں عوام کی انگلیاں ریاست کی طرف اٹھتی ہیں اور ریاستی پالیسیوں کو ہی دہشت گردی اور بد امنی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

اہل سوات شدت پسندی اور دہشت گردی کے ایک خونیں دور سے گزر چکے ہیں۔ دہشت اور وحشت کے اس دور میں سیکیورٹی اداروں نے ہر علاقے میں حکماً امن کمیٹیاں قائم کی تھیں اور امن کمیٹی کے ممبران سے اپنی مرضی کے مطابق مخصوص کام کروائے جاتے تھے۔ جب سوات میں آخری فوجی آپریشن کے بعد امن قائم ہوا تو پھر روزانہ کی بنیاد پر امن کمیٹی کے کسی نہ کسی ممبر کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا۔ یوں امن کمیٹی کے درجنوں ممبران کو قتل کیا گیا۔ دوسری طرف اس وقت حکومت اور سیکیورٹی ادارے یہ دعویٰ کرتے تھے کہ سوات سے دہشت گردوں کو مکمل طور پر ختم کیا گیا ہے اور سوات میں مکمل امن قائم ہے، تو ایسے میں عوام کے ذہنوں میں یہ چبھتا ہوا سوال ابھرتا تھا کہ پھر امن کمیٹیوں کے ممبران کو کون نشانہ بناتا ہے؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ سوات میں قیام امن کی اصل ذمہ داری سیکیورٹی اداروں کی ہے، اس کا کچھ بوجھ عام لوگوں پر مشتمل امن کمیٹیوں پر ڈالنا سراسر زیادتی ہے۔ اور اگر پھر بھی فوج ایسا ناگزیر سمجھتی ہے تو پھر امن کمیٹی کے ممبران کی جانوں کا تحفظ بھی فوج کے ذمہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سوات کے سیدھے سادے لوگ کیوں سیکیورٹی اداروں کے جھانسے میں آ جاتے ہیں اور وہ امن کمیٹیاں قائم کرتے ہیں۔ انھیں اچھی طرح سے علم ہو چکا ہے کہ امن کمیٹی کے ہر ممبر کی جان ہر وقت خطرے میں ہوتی ہے اور یہ خطرہ شدت پسندوں کی بہ جائے امن کے دعوے داروں کی جانب سے زیادہ ہے۔ معلوم نہیں ریاست اپنے بچوں سے اپنی مرضی کا کام لینے کے بعد انھیں مار ڈالنے کے لئے آسان ہدف کیوں بناتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments