ہماری نسل نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی طاقتور کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے۔ پچھلی نصف صدی میں دنیا کے طاقتور ترین آمروں کو زبردست عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ فاشسٹ جماعتوں اور ان کی فوجوں کو شکست فاش ہوئی۔ جمہوری قوتیں اور حکومتیں سد راہ بننے والی ہر قوت کو روندتے ہوئے کامیابی کی منازل کی طرف گامزن ہیں۔ دنیا کی سب سی بڑی آمریت نے جمہوری ملک یوکرین میں پہلے اپنے پسندیدہ بندے کو الیکشن جتوانے کی ناکام کوشش کی پھر اپنی فوجیں اس ملک میں داخل کر دیں۔ پوری دنیا نے اسے جمہوریت پر حملہ قرار دیا۔ روس کی طاقت کو دیکھتے ہوئے دوسرے دن ہی کیف کے ڈوبنے کی افواہیں پھیلنا شروع ہو گئی تھیں۔ پھر چشم فلک نے عجیب نظارے دیکھے۔ بیس کلومیٹر کی حدود میں روسی فوج کی باقیات دھواں اگل رہی تھیں اور فوجی جان بچاتے چھپتے پھر رہے تھے۔

پچھلے ہفتے یوکرین کی فوجوں نے ذہانت اور جرات و بہادری سے کام لیتے ہوئے خرکیف کے چھ ہزار مربع میل میں پھیلے روسی مقبوضہ علاقوں کو آزاد کروا لیا۔ یہ صرف فوجی شکست نہیں تھی۔ روسی سپاہی یوکرین کے فوجیوں کے پہنچنے سے پہلے ہی اپنے ہتھیار اور فوجی ساز و ساماں چھوڑ کر جا چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس دور میں کسی ڈکٹیٹر کی مہم جوئی کی خاطر کوئی بھی سمجھدار آدمی اپنی جاں گنوانے کو تیار نہیں۔ روسی واپس اس دور میں جانے کو تیار نہیں جس سے انہیں پچھلے ہفتے ہی فوت ہونے والے گورباچوف نے نکالا تھا۔ گورباچوف اس نامناسب مہم کے خلاف تھا۔ صدر پیوٹن نے اسی وجہ سے اس عظیم لیڈر کی تدفین کی تقریبات میں شرکت نہیں کی۔

چھ جنوری 2021 کو ہارے ہوئے صدر ٹرمپ کی نائب صدر کے خلاف کی گئی ٹویٹ کے بعد صدر کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ پورے الیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے اور نئی حکومت بنانے کی دعوت دینے والے نائب صدر مائیک پینس کو پھانسی دی جائے۔ اس دوران صدر ٹرمپ نے اقتدار کی پرامن منتقلی کو روکنے کی بھر پور کوشش کی۔ امریکہ جو کہ پوری دنیا میں جمہوریت کا چیمپین ہے، اس کے آئینی اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی کو قاتل ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ اس نے بھاگ کر جان بچائی۔

ملا فضل اللہ کی تحریک طالبان پاکستان کے آئین کو ہی نہیں مانتی۔ ان کی ڈیمانڈ ہے کہ قبائلی علاقوں کی پرانی حیثیت بحال کی جائے تا کہ ان کو وہاں کھل کھیلنے کے مواقع ملیں۔

تین دہائیاں گزر گئی ہیں جب اس تحریک کے روحانی پیر اور ملا کے سسر صوفی محمد سے مذاکرات ہوئے تھے۔ اس فتنہ کو ایک علاقائی مسئلہ سمجھ کر ان کے بظاہر فضول مطالبات مان لیے گئے۔ سوات اور مالاکنڈ میں ان کی مرضی کے قاضی لگا دیے گئے۔ انتہائی بھونڈی ڈیمانڈ بھی مان لی گئی اور مالاکنڈ میں ٹریفک کو دائیں طرف منتقل کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بڑھتے بڑھتے صریح بغاوت پر اتر آئے۔ ہوش تب آئی جب خنجر ریاست کے پیٹھ میں گھونپ کر سینکڑوں معصوم بچوں کو شہید کر دیا گیا۔ پھر آپریشن شروع ہوا جو کہ دس سال بعد بھی نامکمل ہے۔

یوکرین پر دنیا کی دوسری بڑی طاقت نے حملہ کیا تو اس جنگ سے بچنے کی ایک ہی صورت تھی کہ بلامقابلہ آنے دیا جائے۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ روس قبضہ کر لے گا یا پھر پورے ملک کو مکمل طور پر تباہ کر دے گا۔ ان نقصانات کا اندازہ ہونے کے باوجود بہادر صدر نے مقابلے کو ترجیح دی اور آج روسی ٹی وی پر الزامات ایک دوسرے پر لگائے جا رہے ہیں کہ یوکرین میں گھسنے کی غلطی کس نے کی ہے؟

ہمارے ملک کی واحد متفقہ دستاویز 1973 کا آئین ہے۔ جب سے اس پر دستخط ہوئے ہیں اس پر جارحانہ حملے جاری ہیں۔ یہ اتنا مضبوط ہے کہ پچاس سال میں اس کی شکل بار بار بدلی گئی لیکن یہ واپس اصل شکل میں بحال ہو کر ہی رہا۔ حکومت کی تبدیلی کا طریقہ کار اس میں واضح طور پر درج ہے۔ جب تک کسی کے پاس اکثریت ہے اسے کوئی ہٹا نہیں سکتا اور جب یہ اکثریت اقلیت میں بدل جائے تو آئین اسی حکمران کو اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے۔ اس آئین پر فوجی جرنیلوں اور ججوں نے بار بار حملے کیے لیکن اب کی بار سول وزیراعظم حملہ آور ہوا۔

ہمارے ملک میں 28 مارچ کو امریکی چھ جنوری کی مہم جوئی دہرانے کی کوشش کی گئی۔ حامیوں کو اسلام آباد بلا لیا گیا تھا۔ ایک حل یہ تھا کہ اس نے من مانی کر لی ہے الیکشن ہونے دیے جائیں۔ لیکن آئین کدھر جاتا؟ ایک غیر آئینی بندو بست کی مثال قائم ہو جاتی۔ یہ جمہوری آئین اتنا مضبوط ہے کہ اس کے ٹوٹنے سے لاڈلے صاحب کے گاڈ فادرز کی نیند بھی اکھڑ گئی اور اس حرکت کو غیر آئینی قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ اس دن سے الیکشن الیکشن کی بے وقت کی راگنی بجائی جا رہی ہے۔ موجودہ حکومت کو غیر نمائندہ قرار دے کر اس پر حملہ آور ہونے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ آئین شکنوں کی بمباری سے ملک کا کوئی ادارہ بلکہ لاڈلے کے اپنے مائی باپ بھی محفوظ نہیں۔

اب دو ہی طریقے ہیں یا تو اس کی ہر بات مان کر غیر جمہوری طریقوں کو پنپنے کی اجازت دے دی جائے، حکومت پھر اسی کے حوالے کر دی جائے یا پھر یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ ہم نے اس کا بھر پور مقابلہ کرنا ہے۔ دونوں صورتوں میں تباہی کے امکانات برابر ہیں۔ یہ بھی روسی حملہ ہی ہے۔ اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکیاں بھی کیپیٹل ہل پر چڑھائی کے منصوبے ہیں۔ یہ ریاست مدینہ کا نعرہ بھی من مرضی کا قاضی القضاۃ نامزد کرنے کا دھوکا ہے۔

صاحب کے مائی باپ تو گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہیں ہوتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جمہوری پارٹیاں اس کی طاقت سے خوفزدہ ہیں اور بظاہر اس کا مقابلہ کرتے نظر نہیں آ رہیں۔ جمہوری لوگ اس وقت اپنا لیڈر ڈھونڈ رہے ہیں۔ وقت گزرتا جا رہا ہے۔ اگر موجودہ قیادت نے ہمت نہ کی تو جلد ہی کوئی اور آگے بڑھ کراس علم کو اٹھا لے گا۔

امریکہ کو بھی ایک ایسی ہی جنگ کا سامنا ہے۔ وہاں جمہوریت کے چاہنے والے بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال مائیک پینس ہیں جو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ہی وائس پریزیڈنٹ تھے اور ان کی بات ماننے سے انکار کر گئے۔ پاکستانی آئین کے دلدارگان بھی کم نہیں۔ سنا ہے کہ ہمارے سپیکر  نے بھی پارٹی سربراہ کی غیر آئینی خواہش کو ماننے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ ابھی تک زیر عتاب ہیں۔ پھر ہی ڈپٹی سپیکر کو آگے کیا گیا۔ وہ ڈپٹی جس کی اپنی سیٹ اعلیٰ عدلیہ کی دل خواہی کی مرہون منت ہے۔