خواجہ سراؤں کے حقوق کی فراہمی اور مسائل کے حل کی طرف پہلا قدم


معاشی حب کراچی جہاں لا تعداد لوگ روزی کمانے نکلتے ہیں اس شہر کی سڑکوں پر پھول، ٹائر، قلم، غبارے، کھلونے بیچنے اور گداگری کرتے لوگوں کے علاوہ گاڑی سگنل پر رکتے ہی خواجہ سرا میک اپ سے سجے آپ کو دعائیں دیتے ہوئے ہاتھ بڑھاتے ہیں کہ انہیں کوئی ہتھیلی پر چند روپے دے جائے جس سے وہ اپنی پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لے جائیں کچھ افراد تو رقم دیتے ہوئے بھی نظر آئیں گے جبکہ بہت سے کبھی ان کی تذلیل کرتے ہوئے تو کوئی ان سے اپنی من مانی فرمائش کے نام پر ٹھمکے لگانے کا کہتے ہوئے قہقہے لگاتے ہوئے فراٹے مارتی گاڑی میں روانہ ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ کسی لاچار کو ہم اذیت دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

ایسے میں ٹرانس پروٹیکشن بل 2018 ءآیا جو خواجہ سراؤں کے لیے اس گھٹن زدہ ماحول میں ہوا کا جھونکا ثابت ہوا اور کچھ تسلی ہوئی ان کی سڑک سے 2002 ءمیں چلنے والی تحریک آخر کسی منزل تک پہنچی لیکن مشکلات ابھی اور بھی باقی ہیں کیونکہ فیڈرل نے ٹرانس پروٹیکشن بل پاس کر دیا لیکن سندھ حکومت نے تاحال پاس نہیں گیا یہ معاملہ تو ابھی کھٹائی میں ہی تھا کہ جوں ہی بلدیاتی انتخابات کی آواز گردش ہونے لگی تو سندھ حکومت اور خاص کر صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کی دلچسپی اور بھرپور محنت کے بعد بلدیات میں ایک ریزرو سیٹ خواجہ سراؤں کو دینے کا اعلان کیا اس سیٹ کے اعلان نے جیسے مردہ جسم کو جان دے دی۔

اپنے حقوق حاصل کرنے مسائل کو حل کرنے اور زندگی کو خوشگوار زندگی میں بدلنے کے خواب سجا لیے اور یہ ان کی سطحی سوچ نہیں تھی بلکہ سنجیدگی کے ساتھ کام شروع ہوتے ہم نے دیکھا۔ خواجہ سراؤں کی بہبود کی تنظیم جینڈر انٹریکٹیو الائنس میں بلدیاتی الیکشن میں مخصوص نشست کے لیے خواجہ سراؤں کا جوش اور کام کی لگن جس کے لیے سندھ سمیت شہر بھر سے ڈیٹا یا معلومات اکٹھا کیا جانے لگا جون 2022 کے ریکارڈ کے مطابق سندھ میں 48 ہزار خواجہ سرا موجود ہیں جبکہ شہر قائد میں 18 ہزار 306 خواجہ سرا مقیم ہیں خواجہ سراؤں کی سماجی تنظیم کی پروجیکٹ منیجر زہرش خانزادہ جن کی تعلیمی قابلیت ایم اے پاس ہے نئی بات سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سندھ کا ہم خواجہ سراؤں کی ریزرو سیٹ دینے کا اقدام قابل ستائش ہے بلدیاتی الیکشن میں خصوصی سیٹ کے لیے ہم نے تیاریاں شروع کردی ہیں۔

خواجہ سراؤں کا ڈیٹا اکٹھا کر کے اور کوشش کی گئی ہے کہ جن کے شناختی کارڈ ہیں ان کو اس سیٹ کا حقدار بنایا ہے 25 فیصد کے پاس شناختی کارڈ ہیں ہم نے ایسے تمام خواجہ سراؤں کے نام کی لسٹ تیار کی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو فراہم کی ہے زہرش کا کہنا تھا کہ اگر شناختی کارڈ نہیں تو وہ بلدیاتی الیکشن کی یہ سیٹ کھو دیں گے۔ خواجہ سراؤں کا سب سے بڑا مسئلہ نادرا کا شناختی کارڈ کا نہ ہونا ہے بہت مشکلات ہیں ہمارا ایکس کارڈ مانگا جاتا ہے میں یہ کہتی ہوں فیملی کا ڈیٹا ہم کہاں سے لائیں اگر ہماری فیملیز ہمیں قبول کرتے تو ہم یوں در بدر کی ٹھوکریں کھانے کو نہ زندہ ہوتے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ نادرا کو ایکس کارڈ کی شرط میں نرمی کرنی چاہیے پالیسی بدل جائے اس فلاحی تنظیم کے آفس میں بلدیاتی الیکشن کے لئے ٹریننگ بھی دی جا رہی ہے تاکہ ہم کسی سے پیچھے نہ رہ جائیں

خواجہ سراؤں کی فلاح بہبود کی تنظیم جینڈر انٹریکٹیو الائنس کی روح رواں بندیا رانی نے پہلی بار بلدیاتی الیکشن میں خواجہ سراؤں کی خصوصی سیٹ دینے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم سڑکوں کے لوگ ہیں ہمیں ہمارے گھر والوں نے دھتکار دیا ہے ہم معاشرہ کی وہ تیسری جنس ہیں جسے معاشرہ قبول کرنے کو تیار ہی نہیں تھا صرف ہم پر جنسی تشدد، مذاق، مارپیٹ کا رویہ اپنایا ہوا تھا لیکن اب ہم بھی اس سیٹ کے ذریعے صرف اپنے ہی نہیں بلکہ عام شہریوں کے حقوق اور مسائل کے لیے کام کریں گے۔ ہم نے سڑکوں سے اپنی تحریک کا آغاز کیا ہے اور بھرپور طریقے سے اپنی پڑھی لکھی خواجہ سراؤں کی ٹیم کے ساتھ بلدیات کے میدان میں اتر رہے ہیں تاکہ اب یہ معاشرہ ہمیں بھی سکون کا سانس لینے دے۔

خواجہ سراؤں کے مسائل اور حل کی تلاش میں حکومت کے ساتھ کام کرنا ہے۔

  • صحت اور علاج معالجہ

صحت کے مسائل بہت ہیں بیمار ہوں تو کسی اسپتال میں ہمیں داخلہ نہیں دیا جاتا کیونکہ مردانہ اور زنانہ وارڈ کے علاوہ تیسری جنس کا وارڈ ہی نہیں۔

علاج بروقت نہ ملنے پر خواجہ سرا ایڑیاں رگڑتے زندگی کی سانسیں گنتے دنیا سے چلے جاتے ہیں۔

  • پبلک ٹرانسپورٹ میں خواجہ سراؤں کا سفر کرنا ممکن نہیں سمجھا جاتا
  • نوکری ملتی ہے تعلیم سے اور تعلیم حاصل کرنا بہت مشکل کیونکہ اخراجات اٹھانے کی ذمہ داری نہ فیملی ساتھ دیتی ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر کوئی فنڈ ان کے لیے رکھا گیا۔
  • رہائش سب سے بڑا مسئلہ کرائے پر گھر لینا مشکل، کوئی گھر نہیں دیتا اور اچھے علاقے میں تو بالکل بھی نہیں۔
  • جنسی تشدد پر سندھ پولیس کی جانب سے واٹس ایپ گروپ بنا دیا گیا۔ SP لیول کے پولیس افسران ہیں مدد کبھی فوری ملتی ہے اور کبھی نہیں۔
  • قانونی مشوروں کے لیے لاءفرم کے ساتھ معاہدے بھی ہیں مگر اس میں بھی مشکلات ہیں۔
  • خواجہ سراؤں کے حقوق کی تحریک

2002 ءسے سڑکوں پر خواجہ سراؤں کی بڑی تعداد نے ملک گیر تحریک چلائی کہ تیسری جنس کے حقوق دیے جائیں *مسلسل تحریک کی جدوجہد کا ثمر 2018 ءکو ٹرانس پروٹیکشن بل (ایکٹ) فیڈرل میں پاس ہونے کی صورت ملا مگر سندھ میں تاحال یہ پاس نہ ہوسکا۔

  • 2021 ءسے ہراسمنٹ ٹراسجینڈر (خواجہ سراؤں ) کے قانون پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔
  • خواجہ سراؤں کے حقوق اور مسائل کے حل کی تلاش میں سندھ حکومت

پیپلز پارٹی کی رہنما سابق وزیر برائے ترقی نسواں شہلا رضا کا کہنا ہے کہ کوئی بھی بل جب بنتا ہے تو مختلف رائے، مشورے، اعتراضات اور تنقید کے مراحل سے گزرتا ہے۔ ٹرانس پروٹیکشن بل سندھ میں بھی جلد پاس کر لیا جائے گا کیونکہ سندھ حکومت ہر دم اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں پیش پیش رہتی ہے۔

ٹرانس جینڈر خواجہ سراؤں کے تحفظ کا بل پاس کرنے میں پیپلز پارٹی سنجیدگی سے اس پر متفق رائے کے بعد پاس کر لیا جائے گا۔

قانون ہتھیار ہے اور اب ہمارے ہاں خواجہ سراؤں کو نوکریاں دی جا رہی ہیں، ہاؤس جاب کر رہی ہیں لوگوں میں شعور بیدار ہو رہا ہے۔ پہلا قدم حکومت کو ہی بڑھانا ہوتا ہے تو انشاءاللہ بہتری ہوگی۔

بلدیاتی الیکشن میں خواجہ سراؤں کو خصوصی سیٹ پر نمائندگی حکومت سندھ کا بہترین اقدام ہے معاشرے میں جو مسائل ہے ان کے حوالے سے وہ اب بہتر طریقے سے سامنے آئیں گے اور ان کا حل بھی ضرور نکلے گا۔

پہلے مرحلے میں قانون بنتا ہے پھر عملدرآمد ہوتا ہے۔ یہ بڑی بات ہے کہ ایک بات زبان تک آئی اور اسے پورا کیا جا رہا ہے۔

خواجہ سرا یا تیسری جنس معاشرے کا حصہ ہیں انہیں الگ کر کے کسی بھی طرح ہم بہتر معاشرے کی بنیاد نہیں رکھ سکتے اسی لیے قانون بنائے جاتے ہیں تاکہ تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

پہلی بار خواجہ سرا کی بلدیات میں نمائندگی ایک بڑا قدم ہے اس سیٹ کے ہونے سے ان کی صحت، نوکریاں اور سماجی پہلوؤں کے جتنے بھی تحفظات ہیں اب وہ حل ہوں گے کیونکہ اب ان کا ریپریزینٹیو ہو گا۔

بلدیاتی الیکشن میں خواجہ سراؤں کی نمائندگی بہتری کی جانب پہلا قدم ضرور ہے مگر یہ پہلا قدم منزل تک پہنچنے میں اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments